نریندر مودی کا جنگی جنون تاریخ کے آئینے میں

نریندر مودی کا جنگی جنون تاریخ کے آئینے میں

ایوان اقتدارسے

نریندر مودی کا ”جنگی جنون“ یا عسکری جارحیت کی سوچ ایک پیچیدہ سیاسی، معاشرتی اور نظریاتی پس منظر رکھتی ہے۔پاکستان پر حملہ کرنے کا مقصد بھارت ابھرتی ہوئی عالمی طاقت بننا چاہتا ہے، اور مودی حکومت بعض اوقات اپنی عسکری طاقت کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کے لیے سخت رویہ اختیار کرتی ہے۔جب بھی انتخابات قریب ہوتے ہیں، تو اکثر پاکستان مخالف بیانیہ اور قوم پرستی کو ہوا دی جاتی ہے تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔ مودی اور ان کی جماعت (بی جے پی) کو اس کا سیاسی فائدہ ملتا ہے۔ واڈنگر، ضلع مہسولہ، ریاست گجرات بھارت میں 17 ستمبر 1950 پیداہونے والانریندر دامودر داس مودی والد دامودر داس ملبھائی مودی والدہ ہیرا بین مودی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نریندر مودی کے پانچ بہن بھائی ہیں، جن میں سے کچھ سیاست اور سماجی خدمات سے وابستہ ہیں نریندر مودی کی شادی جشودا بین سے ہوئی تھی جب وہ کم عمر تھے، لیکن وہ زیادہ تر وقت علیحد ہ رہے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی شادی کو سرکاری طور پر تسلیم تو کیا ہے، مگر ان کی ازدواجی زندگی عملی طور پر فعال نہیں رہی۔ گجرات یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔1970 کی دہائی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) سے وابستگی اختیارکی۔ 1987 میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور 2001 سے 2014 تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ 2014–2019”سب کا ساتھ، سب کا وکاس“ کے نعرے کے تحت ترقیاتی منصوبے شروع کیے، جن میں ”میک ان انڈیا“،”ڈیجیٹل انڈیا“ اور”سوچھ بھارت ابھیان“شامل ہیں۔2019–2024 آرٹیکل 370 کی منسوخی، شہریت ترمیمی قانون (CAA) کا نفاذ، اور زرعی قوانین جیسے اقدامات کیے، جن پر وسیع عوامی ردعمل سامنے آیا۔ بی جے پی نے 2024 کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی، اور مودی نے تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔
تاریخی گواہ ہے کہ 2002فسادات کے وقت مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں کے تحت تقریباً 2,000 مسلمانوں کے قتل اور ہزاروں کی بے دخلی کی تھی۔بعد میں سپریم کورٹ کی مقرر کردہ SIT نے انہیں کلین چٹ دی، مگر بین الاقوامی سطح پر انہیں سخت تنقید کا سامنا رہا۔ ایک امریکی عدالت نے بھی ان کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا، کیونکہ وہ بطور وزیر اعظم سفارتی استثنیٰ رکھتے ہیں۔
مودی حکومت پر عدلیہ پر اثر انداز ہو ئی، خاص طور پر ہندو قوم پرست ججوں کی تقرری کے ذریعے۔ ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا گیا۔ امریکا، اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مودی حکومت پر اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔2005 میں امریکہ نے مودی کا ویزا منسوخ کیا تھا۔جو 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد بحال کیا گیا۔2016 میں بھارت نے فرانس سے 36 رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا، جس کی مالیت تقریباً 7.87 ارب یورو تھی۔ اس معاہدے پر اپوزیشن جماعتوں نے کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات عائد کیے۔ تاہم، 2018 اور 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو کلین چٹ دی۔ بعد ازاں 2021 میں فرانس میں اس معاہدے کی تحقیقات کا آغاز ہوا۔ مودی حکومت نیصحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور این جی اوز پر دباؤ ڈالنے کیلئے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے۔ مثال کے طور پربی بی سی کی ایک دستاویزی فلم”انڈیا: دی مودی کوئسچن“ کے نشر ہونے کے بعد بھارتی حکام نے بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ اس اقدام کو میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دیا گیا۔
شہریت ترمیمی قانون (CAA) – 2019یہ قانون افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہندو، سکھ، عیسائی، بودھ، جین مہاجرین کو شہریت دینے کی اجازت دیتا ہے، لیکن مسلمان مہاجرین کو خارج کرتا ہے۔اس قانون کو مذہبی بنیاد پر امتیاز قرار دیا گیا۔اس کے خلاف پورے بھارت میں بڑے مظاہرے ہوئے، خاص طور پر دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، اور شاہین باغ میں۔دہلی فسادات 2020 انہی مظاہروں کے دوران پھوٹے، جن میں بڑی تعداد میں مسلمان متاثر ہوئے۔آسام میں ”نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز“ NRC کے تحت لاکھوں افراد کو”غیر شہری“قرار دیا گیا، جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ CAA کے ساتھ مل کر یہ مسلمانوں کی شہریت خطرے میں ڈالنے کی کوشش تصور کی گئی۔بین الاقوامی اداروں اور اقوامِ متحدہ نے بھی ان اقدامات پر تنقید کی۔گائے کے گوشت کے نام پر مسلمانوں کو ماب لنچنگ (hateful mob violence) کا نشانہ بنایا گیا۔2015 سے 2022 کے درمیان 50 سے زائد ایسے کیس رپورٹ ہوئے۔مودی حکومت کی خاموشی یا سست ردعمل پر سوال اٹھے۔بی جے پی نے حالیہ لوک سبھا انتخابات 2014، 2019، 2024 میں کسی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔مودی کی کابینہ میں بھی مسلمان نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر مودی حکومت کے دور میں ممکن ہوئی۔ گیان واپی مسجد (بنارس) اور متھرا عیدگاہ جیسے مقامات پر بھی تنازعات بڑھ رہے ہیں۔
مودی حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی ہندو دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) جس کا قیام ہندوتوا نظریے کی ترویج اور ہندو سماج کی تنظیم کے تحت 1925 میں کیشوا بلی رام ہیڈگیوار نے کیا گیا۔ RSS کو سنگھ پریوار کا مرکزی ادارہ سمجھا جاتا ہے، جس سے کئی دیگر تنظیمیں منسلک ہیں، جیسے بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)، وشو ہندو پریشد (VHP)، اور بجرنگ دل شامل ہیں۔یہ اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی کو فروغ دیتا ہے اور بھارت کے سیکولر آئین کے خلاف کام کرتا ہے۔ وشو ہندو پریشد (VHP) 1964 میں RSS کے زیرِ اثر ہندو مذہب کی حفاظت اور ترویج، رام مندر کی تعمیر، اور گاؤ رکھشا کے تحت قائم کی گئی۔یہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں، کے خلاف تشدد کو ہوا دیتا ہے۔1984ء میں ہندوتوا نظریے کی ترویج، گاؤ رکھشا، اور”لو جہاد“ کے خلاف مہمات”بجرنگ دل“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ امریکی سی آئی اے نے VHP کو”مذہبی عسکریت پسند تنظیم“قرار دیا ہے۔ 2006 میں ہندوتوا نظریے کی ترویج کے نظریے کے تحت کرنل پروہت اور پرگیہ سنگھ ٹھا ”ابھینو بھارت“ کو قائم کیا۔ ابھینو بھارت نے 2008میں مالیگاؤں بم دھماکے کئے جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ مودی کی جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے نظریے پر عمل کرتی ہے، جو بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس نظریے میں مسلمان اور پاکستان کو”دشمن“ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا بھی اکثر جنگی بیانیہ کو بڑھاوا دیتا ہے، جس سے عوام میں دشمنی کے جذبات کو مزید تقویت ملتی ہے۔جب ملک میں معاشی یا سماجی مسائل بڑھتے ہیں، تو حکومت ان مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے خارجی خطرات کو اجاگر کرتی ہے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 27 Articles with 20450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.