لفظوں کا سفر

ندیم ایک چھوٹے سے شہر کا باسی تھا، جہاں خواب اکثر روزمرہ کی گرد میں دب جاتے ہیں۔ جہاں خواہشات روز جنم تو لیتی ہیں پھر ان کو دفن بھی اپنے ہاتھوں سے روز کیا جاتا ہے ،مگر ندیم کا خواب الگ تھا —
وہ الفاظ کا جادوگر بننا چاہتا تھا، ایک ایسا لکھاری جو دلوں کو چھو لے، جو صفحے پر ایسا نقش چھوڑے جو برسوں مٹ نہ سکے اور تاریخ میں اپنا وجود برقرار رکھے۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ بندہ یا تو فنکار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ،میں اسی کو یوں کہتا ہوں کہ بندہ لکھاری ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ،اس نے کالج کے زمانے میں چند افسانے لکھے، مگر دوستوں کی تنقید اور اساتذہ کی بےرُخی نے اسے چُپ کر دیا۔
شاید اساتذہ نے ادبی نظریات پر پرکھنے کی کوشش نہیں کی اور رہی بات دوستوں کی تو اس عمر ادبی لگاؤ ہر نوجوان میں نہیں ہوتا ،دل برداشتہ ہو کر ندیم نے کئی سالوں تک قلم کو چھوا تک نہیں، لیکن لفظ اس کے اندر سسکتے رہے۔ ہر منظر دستک دیتا رہا، ہر جذبہ خاموشی سے جوان ہوتا رہا، ہر واقعہ اسے کچھ کہنے ،لکھنے پر مجبور کرتا رہا۔

اور ایک دن جب بارش کی بوندیں اس کے کمرے کی کھڑکی پر بج رہی تھیں، اُس نے پرانا رجسٹر نکالا اور لکھنا شروع کیا۔ اُس نے اپنے دل کا بوجھ افسانے میں ڈھال دیا۔ کہانی ایک ٹوٹے دل کی تھی، دل برداشتہ کناروں سے پلٹا تھا ،مگر اُس میں امید کا چراغ ابھی جل رہا تھا۔
بڑی سوچ بچار اور منفی و مثبت خیالات سے لڑتے ہوئے اس نے ہمت کر کے وہ افسانہ ایک ادبی میگزین کو بھیج دیا۔
مہینوں کوئی جواب نہ آیا۔ مگر ایک دن قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور صبر کا پھل یوں ملا کہ ڈاکیا ایک لفافہ دے گیا۔
لفافہ کھولا تو آنکھیں نم ہو گئیں — جذبات پر قابو نہ رکھ پایا ،جذبات کی تقسیم کو پس پشت ڈال کر ہنسنے اور رونے کی ملی جلی کیفیت اس پر کافی دیر حاوی رہی ،اس کا افسانہ شائع ہو چکا تھا۔

یہ شروعات تھی، تنقید بھی ہوئی، تعریف بھی۔ مگر ندیم نے لکھنا نہ چھوڑا۔ اب وہ جان چکا تھا کہ لکھاری بننے کا مطلب صرف کہانیاں سنانا نہیں، بلکہ خود کو بار بار جینا اور لفظوں میں ڈھالنا ہے۔
اپنے اردگرد کے بے زبان کرداروں کو لفظوں کی زبان دینا ہے تاکہ وہ کردار زندہ رہیں ۔
وہ سمجھ چکا تھا کہ لکھاری کا فرض ہے معاشرے کے تلخ حقائق اور زندگیوں سے وابستہ مسائل کو اجاگر کیا جائے تاکہ آسانیاں پیدا کئی جائیں ۔
ادبی دنیا میں نام و مقام بنانا آسان نہیں لیکن اگر بنا لیا جائے جو کہ رب العالمین کی عطا کی بدولت ہی ممکن ہے تو اس ادبی دنیا میں باادب رہنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی عام بندے کا کامیاب لکھاری بننا ہے ،
زندگی اب بھی آسان نہیں تھی، مگر ندیم کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ لفظوں کا مسافر تھا — اور اس کا سفر اب شروع ہوا تھا۔
لیکن وہ تنقیدی رویوں پر باادب اور اختلافی معاملات سے دور ہی رہا جو اس کے قلمی سفر میں مضبوط ترین تھپکی ثابت ہوئی اور یوں ملک کے صف اول کے لکھاریوں میں اس کی پہچان بنی ،یہی ایک اچھے لکھاری کا مقام ہے ۔


 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 905 Articles with 637311 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More