دنیا کی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جنگ نے کبھی امن کو
جنم نہیں دیا۔ ہر جنگ کے بعد ایک صلح ضرور ہوئی، مگر وہ صلح بھی نئی جنگوں
کی تمہید بنی۔ "امن کے لیے لڑنا" ایک ایسا مغالطہ ہے جو یا تو معصوم ذہن کی
پیداوار ہے، یا مکار دماغ کی چالاکی۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کے لیے اگر تلوار
اٹھانی پڑے، تو وہ امن نہیں، محض تسلط کا نام ہے۔ کیونکہ امن کا اصل سرچشمہ
دل ہے، ہتھیار نہیں۔
________________________________________
اگر کوئی کہے کہ توپوں کی گرج، طیاروں کی گھن گرج، اور بندوقوں کی گولیوں
کی چیخوں میں بھی "امن" ممکن ہے، تو شاید وہ دن کی روشنی میں جگنو تلاش
کرنے والے معصوم بچے جیسا ہے — معصوم، پیارا، مگر حقیقت سے ناآشنا۔ جگنو
رات کے اندھیروں میں چمکتے ہیں، اور امن بھی تب ہی اُبھرتا ہے جب ظلمتوں کو
شعور کی روشنی سے روشن کیا جائے۔ بارود سے معطر زمین پر کبھی محبت کے پھول
نہیں کھلتے۔
________________________________________
ایک حکایت: درویش اور سپاہی
کہتے ہیں ایک بار ایک درویش سے ایک جرنیل نے پوچھا:
"میں امن کے لیے لڑ رہا ہوں، کیا میری راہ درست ہے؟"
درویش نے مسکرا کر کہا:
"بیٹا! اگر تُو کسی کے سکون کو چھین کر اپنا امن حاصل کرنا چاہے، تو وہ امن
نہیں، جبر ہے۔ اصل امن وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے دل کو بھی سکون دے، نہ کہ
اسے خاموش کرا دے۔"
یہی فرق ہے اصل اور جھوٹے امن میں۔ پہلا دلوں کو جیتتا ہے، دوسرا صرف زمین
کو۔
________________________________________
پاکستان و ہندوستان: امن کی بھولی ہوئی صدا
برصغیر میں دو ممالک ایسے ہیں جنہیں قدرت نے سب کچھ عطا کیا — زرخیز زمین،
طاقتور نوجوان، ثقافتی ورثہ، قدرتی وسائل — مگر پھر بھی وہ ستر سال سے امن
کے لیے لڑ رہے ہیں۔ لاکھوں فوجی، اربوں کا اسلحہ، سیاسی نعرے، مگر نہ امن،
نہ سکون۔
کیا یہ ایک کھلا ثبوت نہیں کہ ہم جگنو دن میں تلاش کر رہے ہیں؟
یہ قومیں اُس وقت تک چین سے نہیں جی سکتیں جب تک وہ اس ضد سے باہر نہ نکلیں
کہ "امن ہمیں جیت کر ملے گا" — نہیں، امن صرف دے کر ملتا ہے، بانٹنے سے
ملتا ہے۔
________________________________________
ہماری آنے والی نسلیں اس دنیا میں محبت کی فضا میں سانس لینے کی حقدار ہیں۔
اگر ہم نے آج نفرت، دشمنی اور جنگ کا بیج بویا، تو کل ہمارے بچے یا تو
سپاہی ہوں گے یا لاشے۔
کیا ہم یہی ورثہ دینا چاہتے ہیں؟
یا ہم چاہتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں کتاب ہو، بین الاقوامی میل جول ہو،
سائنس، ادب، اور حسنِ ظن ہو؟
________________________________________
وقت آ گیا ہے کہ ہم "امن کے لیے لڑنے" کی بجائے "امن کے لیے جینے" کا عہد
کریں۔
آئیے امن کو نعرہ نہیں، نظریہ بنائیں۔
آئیے ہم تاریخ کو بدل دیں — جہاں جنگیں فاتح نہ ہوں، بلکہ وہ لوگ یاد رکھے
جائیں جو بولتے نہیں، جوڑتے ہیں۔
یہی وہ صبح ہے جس کی امید میں ہم ظلم و جبر کی رات کاٹتے آئے ہیں۔
________________________________________
"امن کے لیے لڑنا دن میں جگنو تلاشنے کی ضد ہے، مگر امن کے لیے جینا — یہی
اصل دانش ہے، یہی اصل حکمت، اور یہی انسانیت کا مستقبل ہے۔"
________________________________________
|