نوجوانوں کو تمباکونوشی سے کیسے بچائیں؟ از ۔ ریاض جاذب
(Syed Riaz Jazib, DGKHAN)
تمباکو نوشی پاکستان میں صحت عامہ کا ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے، خصوصاً نوجوانوں میں اس کی بڑھتی ہوئی شرح تشویشناک ہے۔ باوجود اس کے کہ تمباکو کے نقصانات سے متعلق آگاہی بھی عام ہے، مگر نوجوانوں میں اس کے استعمال میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 17.2 فیصد آبادی تمباکو نوشی کی عادی ہے، جن میں مردوں کی شرح 28.4 فیصد اور خواتین کی چھ فیصد ہے۔ 25 سے 44 سال کی عمر کے افراد اس کا سب سے زیادہ شکار ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اب کم عمر بچوں اور نوعمروں میں بھی تمباکو نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے پھیلاؤ کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں دوستوں کا دباؤ، بڑوں کا بچوں کے سامنے تمباکو نوشی کرنا، تمباکو کی آسان دستیابی، سستی قیمت، اور تمباکو کمپنیوں کی پر کشش مارکیٹنگ شامل ہیں۔ اکثر نوجوان تمباکو نوشی کا آغاز محض وقتی تفریح کے طور پر کرتے ہیں، لیکن جلد ہی یہ ایک عادت بن جاتی ہے۔ پاکستان میں تمباکو مصنوعات کی قانونی پابندیوں کے باوجود سکولوں، کالجوں اور عوامی مقامات کے آس پاس تمباکو کی فروخت عام ہے، جو نوجوانوں کو تمباکو کی طرف راغب کرتی ہے۔ قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد کا فقدان اس سنگین مسئلے کو مزید گھمبیر بنا رہا ہے۔ تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو ان ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو اس میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ مثلاً نیوزی لینڈ نے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے 2008 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کو تمباکو مصنوعات کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد نئی نسل کو تمباکو سے مکمل طور پر محفوظ رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمباکو مصنوعات میں نکوٹین کی مقدار میں کمی، انہیں کم پرکشش بنانے، اور ملک بھر میں ریٹیل دکانوں کی تعداد 6,000 سے گھٹا کر 600 تک محدود کرنا بھی شامل ہے۔ نوجوانوں کو ٹارگٹ بنزکر کی جانے والی تشہیر ان کی ذہنی ساخت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، لہٰذا ایسی سرگرمیوں کو روکنا ناگزیر ہے۔ تمباکو نوشی کے خلاف جنگ میں تعلیم اور آگاہی سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں تمباکو نوشی کے نقصانات سے متعلق معلومات کو شامل کرنا اور تمباکو سے متاثرہ افراد کی کہانیوں کو سچائی کے ساتھ پیش کرنا نوجوانوں پر دیرپا اثر ڈال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب، اور دیگر جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے آگاہی مہمات چلائی جا سکتی ہیں تاکہ نوجوانوں کو تمباکو نوشی کے خطرات سے روشناس کرایا جا سکے۔ سکولوں، یونیورسٹیوں، دفاتر، تفریحی مقامات اور کھیل کے میدانوں میں تمباکو نوشی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ عوامی مقامات کو تمباکو سے پاک قرار دے کر ایک مثال قائم کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں تمباکو چھوڑنے کے لیے مؤثر سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ ہر تمباکو نوش، کسی نہ کسی موقع پر یہ عادت چھوڑنے کا خواہش مند ہوتا ہے، لیکن اسے عملی مدد میسر نہیں آتی۔ لہٰذا، تمباکو نوشی ترک کرنے کے مراکز، مشاورت، نکوٹین ریپلیسمنٹ تھراپی (NRT) جیسے علاج اور آن لائن رہنمائی پروگرام قائم کیے جانے چاہییں تاکہ نوجوانوں کو ان کی صحت مند زندگی کی طرف واپسی کا راستہ دیا جا سکے صحت کے موجودہ نظام میں تمباکو کنٹرول کو ایک مستقل ترجیح بنایا جائے۔ پالیسی سطح پر تمباکو پر بھاری ٹیکس، اشتہارات اور اسپانسرشپ پر مکمل پابندی، سادہ پیکیجنگ، اور تمباکو نوشی کی روک تھام کے سخت قوانین لاگو کیے جائیں۔ معاشرے کے تمام طبقات کو شامل کرکے ایک اجتماعی جدوجہد کی جائے، جس میں والدین، اساتذہ، علماء، میڈیا اور صحت کے شعبے کے ماہرین اپنا کردار ادا کریں۔ اگر پاکستان نوجوانوں کو تمباکو نوشی سے بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ایک صحت مند، توانا اور ترقی یافتہ نسل کی بنیاد رکھے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم محض قوانین پر اکتفا نہ کریں بلکہ ان پر مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنائیں، آگاہی عام کریں، صحت کی سہولیات کو وسعت دیں اور معاشرتی سطح پر ایک بھرپور مہم چلائیں۔ تمباکو سے پاک پاکستان ایک خواب نہیں، ایک حقیقت بن سکتا ہے — بس ہمیں اجتماعی طور پر سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ |
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.