کبھی کبھی زندگی یوں لگتی ہے جیسے ہم ایک بہت بڑے اندھیرے
کمرے میں کھڑے ہوں۔ چاروں طرف خاموشی ہو، نہ راستہ سجھائی دے، نہ منزل کا
پتا ہو، اور نہ ہی کوئی ہم سفر ہو جو بتا سکے کہ کہاں جانا ہے۔ ایسے لمحے
میں انسان کو اپنی ہی آواز اجنبی لگتی ہے۔ ایک بےیقینی سی چھائی ہوتی ہے جو
ہر سمت کو دھندلا کر دیتی ہے۔ ہر قدم پہلے سے زیادہ بھاری لگتا ہے۔ یوں
لگتا ہے جیسے کوئی بھی راستہ اختیار کر لیں، شاید وہ کہیں نہ جائے، شاید وہ
ایک اور دیوار پر ختم ہو جائے۔ مگر، تب کہیں دل کی گہرائی سے ایک آواز آتی
ہے، مدھم، مگر مضبوط: ”چل تو سہی، صرف ایک قدم، شاید کچھ بدل جائے۔“
یہ قدم بہت مشکل ہوتا ہے، بالکل بھی آسان نہیں۔ اُس کے لیے جو سب کچھ ہار
چکا ہو، اب کچھ بھی باقی نہ رہا ہو، لیکن یہی ایک قدم، یہی پہلا قدم، اصل
میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنے اندر کے تمام
خدشوں، مایوسیوں، اور تلخ یادوں کے باوجود، بس ہلکی سی روشنی کو مان لینے
کا فیصلہ کرتا ہے۔ یقین صرف کسی نتیجے پر نہیں ہوتا، یہ ایک عمل ہے۔ یہ وہ
جذبہ ہے جو کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں یہ مشکل ہے، شاید ناممکن بھی لگے، مگر
میں پھر بھی کوشش کروں گا۔ شاید میں ناکام ہو جاؤں، شاید لوگ ہنسیں، شاید
سب چھوڑ جائیں، مگر میں خود کو نہیں چھوڑوں گا۔ مشکل فیصلہ، مگر وہ کرتا
ہے۔
یقین کا مطلب یہ نہیں کہ راستہ آسان ہو جائے گا، یا یہ کہ تکلیفیں ختم ہو
جائیں گی۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ تم اندر سے یہ مان چکے ہو کہ تم چل
سکتے ہو، گِرنے کے باوجود، رونے کے باوجود، ٹوٹنے کے باوجود، تنہا ہونے کے
باوجود۔ جب انسان یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ خود اپنے لیے کافی ہے، تو پھر
دنیا کی کوئی طاقت اُسے کبھی روک نہیں سکتی۔ وہ شاید ہار جائے، مگر وہ کبھی
جھک نہیں سکتا۔
لوگ اکثر سوال کرتے ہیں، ”کامیابی کا پہلا قدم کیا ہے؟“ اور وہ جواب
ڈھونڈتے ہیں تعلیم میں، مواقع میں، رشتوں میں یا قسمت میں۔ لیکن اپنے اندر
نہیں ڈھونڈتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پہلا قدم صرف یقین ہے۔ وہ یقین جو تمہیں
ہر صبح بستر سے اٹھاتا ہے، وہ یقین جو تمہیں رات کے سناٹے میں تسلی دیتا ہے
کہ کل نیا دن ہو گا، وہ یقین جو تمہیں بار بار کہتا ہے کہ تمہارے اندر ابھی
بہت کچھ باقی ہے۔ اور جب یہ یقین دل میں بس جاتا ہے، تو تمہیں دنیا کی کسی
تائید کی ضرورت نہیں رہتی۔ پھر تم خاموشی سے محنت کرتے ہو، اور وقت تمہارے
ساتھ بولنے لگتا ہے۔ راستے خود بہ خود دکھائی دینے لگتے ہیں۔ تمہیں اب کسی
روشنی کی تلاش نہیں رہتی کیونکہ تم خود چلتے چلتے ایک چراغ بن جاتے ہو۔
ایسا چراغ، جو دوسروں کو روشنی دیتا ہے، چاہے خود اندھیرے میں ہی کھڑا ہو،
خود کی پروا کیے بغیر، کسی بھی غرض کے بغیر۔
یقین کمزور آواز سے شروع ہوتا ہے، مگر اگر اُسے دبایا نہ جائے، تو وہ ایک
چیخ بن کر دنیا کو ہلا دیتا ہے۔ اور جب تم اُسے زندہ رکھتے ہو، تو راستے
تمہارے قدموں کے نشان ماننے لگتے ہیں۔ اور یوں، چاہے تم ابھی منزل پر نہ
بھی پہنچے ہو، تم آدھے سفر سے کہیں آگے نکل چکے ہوتے ہو۔ دنیا کی نظروں میں
تم اب بھی پیچھے ہوتے ہو، مگر اُن کی پہنچ سے آگے، بہت آگے جا چکے ہوتے ہو۔
یقین کی بات عجیب ہے، یہ نہ کسی کتاب میں پوری طرح سکھایا جا سکتا ہے، نہ
کسی نصیحت سے مکمل طور پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ یہ دل کے اندھیرے کمرے میں
جلنے والا وہ دیا ہے، جسے باہر کی دنیا دیکھ نہیں سکتی، مگر وہی دیا تمہارے
قدموں کو روشن کرتا ہے۔ اور یہ دیا اکثر تب جلتا ہے جب ہر طرف سے روشنی چھن
جاتی ہے۔ جب لوگ پیٹھ موڑ لیتے ہیں، جب خواب چَکناچور ہو جاتے ہیں، جب
دعائیں سناٹا بن جاتی ہیں۔ تب دل کی گہرائیوں میں سے ایک ہلکی سی گرمی
اٹھتی ہے، ایک بےنام سا بھروسہ، جو کہتا ہے: ”ابھی سب ختم نہیں ہوا۔“ ایسا
بھروسہ کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ یہ تمہیں خود کو دینا ہوتا ہے۔ ایک تھپکی،
ایک وعدہ، ایک چھوٹا سا حوصلہ، کہ شاید ابھی نہیں، مگر کبھی ضرور۔ تم آج جس
درد میں ہو، کل وہی درد تمہاری طاقت بن جائے گا۔ تم جن زخموں کو آج چھپاتے
پھر رہے ہو، وہی تمہارے اندر وہ روشنی جگائیں گے جو تمہیں اندھیروں میں
کھڑا ہونے کا حوصلہ دے گی۔
لوگ سوچتے ہیں، کامیاب لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں کبھی گراوٹ کا سامنا نہیں
کرنا پڑا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کامیاب وہ ہوتے ہیں جنہوں نے ہر گراوٹ کو
برداشت کیا اور پھر بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھا۔ ہر شکست کے بعد اپنی خاک
سے خود کو اٹھایا۔ ہر بار، جب خود پر یقین ڈگمگایا، تو پھر بھی ہار ماننے
کے بجائے دل کو سمجھایا، آنکھوں میں نمی کے ساتھ بھی خواب دیکھے، لبوں پر
خاموشی کے ساتھ بھی دعائیں کیں۔ ایسے لوگ جب چلتے ہیں، تو اُن کے قدموں سے
آواز نہیں آتی، مگر اُن کے راستے گواہ بن جاتے ہیں کہ یہاں سے کوئی یقین لے
کر گزرا تھا۔ اور وہ یقین، وہی اصل طاقت ہے۔ نہ ہتھیار، نہ دولت، نہ لوگ،
صرف ایک اندر کی صدا جو کہتی ہے: ”تو کر سکتا ہے۔“
زندگی صرف سہولتوں کا دوسرا نام نہیں، یہ اُن لمحوں کا مجموعہ ہے جن میں تم
نے سہولت نہ ہونے کے باوجود، جینے کا فیصلہ کیا۔ وہ فیصلے جن میں تم نے
دنیا کی ہنسی، تنقید، اور بےرحم جملوں کے باوجود، خود کو کمزور نہیں ہونے
دیا۔ جن میں تم نے ہر دن، ہر رات کو ایک نئے حوصلے کے ساتھ گزارا، بس اس
لیے کہ تمہارے اندر وہ ایک شعلہ تھا، جسے باہر کی ہوا بجھا نہیں سکی۔ تو اب
اگر تمہیں لگے کہ تمہارے قدم تھم رہے ہیں، اگر دل بھر آیا ہو، اگر خواب
مٹنے لگے ہوں، تو ایک بار پھر خود سے کہو، صرف ایک بار: ”میں چلوں گا۔“ اور
جب تم یہ کہہ لو گے، تو یقین کرو، تم آدھے راستے پر پہنچ چکے ہو گے۔
یقین کی سب سے خاص بات یہی ہے کہ یہ خاموشی میں پروان چڑھتا ہے، اور چیخ کی
طرح ظاہر ہوتا ہے۔ جب ساری دنیا تمہیں کہہ چکی ہو کہ تم نہیں کر سکتے، جب
حالات، وقت، اور حتیٰ کہ اپنے ہی جذبے تمہارے خلاف صف باندھ چکے ہوں، تب
اگر تم نے دل کے کسی کونے میں بس اتنا بھی سوچ لیا کہ ”میں کر کے دکھاؤں
گا“، تو وہ ایک لمحہ پوری کائنات کو بدل دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ کہا نا،
ایک مشکل بلکہ بہت مشکل کام۔
یقین کوئی بلند آواز میں کیے گئے دعوے کا نام نہیں، یہ وہ خاموش وعدہ ہے جو
انسان خود سے کرتا ہے۔ وہ لمحہ جب کوئی شکست خوردہ دل، تھکے قدم، اور
آنکھوں میں نمی لیے شخص، پھر سے سنبھلتا ہے، پھر سے مسکراتا ہے، اور کہتا
ہے: ”ابھی وقت ختم نہیں ہوا!“ یہی وہ لمحہ ہے جب وہ اندھیرے کو چیرنے والا
سورج خود تمہارے اندر سے طلوع ہونے لگتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اُس روشنی
کو روک نہیں سکتی جو اندر سے جاگے۔ کیونکہ باہر کی دنیا صرف سائے دکھاتی
ہے، مگر اندر کا یقین روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔
یاد رکھو، تمہاری راہ میں رکاوٹیں ہوں گی، کئی بار تم تھک جاؤ گے، ہار
ماننے کو جی چاہے گا، لگے گا کہ کوئی سن نہیں رہا، کوئی دیکھ نہیں رہا، مگر
اس کے باوجود، چلتے رہنا ہے۔ کیونکہ جو چلتے ہیں، وہی پہنچتے ہیں۔ جو رکتے
نہیں، وہی جیتتے ہیں۔ اور جو ہار کے بعد بھی خود پر یقین رکھتے ہیں، وہی
دنیا کو بدلتے ہیں۔ تو اگر تمہارے دل میں کبھی مایوسی کا اندھیرا چھا جائے،
اگر تمہیں لگے کہ تم تنہا ہو، کہ کسی کو تمہاری پروا نہیں، کہ شاید تم گر
جاؤ گے، تب بس ایک لمحہ ٹھہر کر اپنی سانس سنو، اپنے دل کی دھڑکن سنو، اور
خود سے کہو: ”بس ایک قدم اور“ یہ ایک قدم ہی تمہیں تمہاری پہچان تک لے جائے
گا۔ بس، یقین رکھو۔ یہ پہلا قدم، آدھی جیت ہے۔
|