اتھلیٹکس کی تاریخ: انسان کی رفتار، طاقت اور حوصلے کا سفر
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
اتھلیٹکس کو "کھیلوں کی ماں" کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ بنیادی کھیل ہے جو دوڑنے، چھلانگ لگانے، پھینکنے اور چلنے جیسے فطری انسانی افعال پر مشتمل ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی مضبوطی بلکہ نظم و ضبط، استقامت، اور عزم کی علامت ہے۔اتھلیٹکس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔قدیم یونان میں اتھلیٹکس کے مقابلے 776 قبل مسیح میں ہونے والے پہلے اولمپک کھیلوں کا اہم حصہ تھے یونانی دیوتا زیوس کے اعزاز میں اولمپیا میں کھیلوں کا انعقاد ہوتا تھا، جس میں دوڑ، لمبی چھلانگ، وزن پھینکنے اور نیزہ بازی جیسے مقابلے شامل تھے۔ مصر، چین اور روم کی تہذیبوں میں بھی جسمانی کھیل اور دوڑ کے شواہد موجود ہیں۔
19ویں صدی میں برطانیہ نے جدید اتھلیٹکس کو باقاعدہ شکل دی۔اسکولوں، کالجوں اور ملٹری اداروں میں مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا۔1912 میں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اتھلیٹکس فیڈریشنز (IAAF) قائم ہوئی، جو آج "World Athletics" کے نام سے جانی جاتی ہے۔اتھلیٹکس جدید اولمپک کھیلوں کا مرکزی حصہ ہے۔دوڑ کے مختلف مقابلے ہوتے ہیں جس میں (100m، 400m، میراتھن) شامل ہیں اسی طرح چھلانگ اور گولہ پھینکنے کے ایونٹس (لانگ جمپ، شاٹ پٹ، ڈسکس، ہائی جمپ) شامل ہیں دنیا کے عظیم اتھلیٹس جیسے جیسے اووینز (1936)، کارل لیوس (1980s)، یوسین بولٹ (2008-2016) نے دنیا کو متاثر کیا۔
ابتدائی اولمپکس میں خواتین کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔1928 میں خواتین نے پہلی بار اتھلیٹکس میں حصہ لیا۔آج، خواتین کھلاڑی نہ صرف مقابلہ کرتی ہیں بلکہ نئے ریکارڈز بھی قائم کر رہی ہیں۔مشہور خواتین اتھلیٹس میں فلورنس گریفتھ جوئنر، شیلی این فریزر پرائس، اور ایلیسن فیلکس شامل ہیں۔پاکستان میں اتھلیٹکس کی بنیاد قیام پاکستان کے بعد رکھی گئی۔اسکولوں، کالجوں اور مسلح افواج میں کھیلوں کے فروغ نے اس کی ترقی میں مدد دی۔پاکستان کے نمایاں اتھلیٹس میں غلام رضا (دوڑ)، نوید بٹ (لانگ جمپ)، ارشد ندیم (جیولن تھرو) شامل ہیں۔بدقسمتی سے اس کھیل کو کرپشن، سہولیات کی کمی، اور سیاست نے نقصان پہنچایا ہے۔
آج اتھلیٹکس میں جدید ٹیکنالوجی، تربیت، اور ڈوپنگ کنٹرول اہم کردار ادا کر رہے ہیں دنیا بھر میں ٹریک اینڈ فیلڈ ایونٹس ٹی وی اور سوشل میڈیا پر مقبول ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں ابھی بھی اس کھیل کو توجہ، بجٹ، اور شفاف نظام کی ضرورت ہے۔اتھلیٹکس صرف کھیل نہیں، ایک تہذیب ہے۔ یہ نوجوانوں میں نظم و ضبط، عزم، اور صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر پاکستان میں اتھلیٹکس کو سنجیدگی سے فروغ دیا جائے، تو ہمارے نوجوان عالمی سطح پر نام پیدا کر سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا (KP) میں اتھلیٹکس کی روایت بہت پرانی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں کے کھلاڑیوں کو وہ مقام اور وسائل نہیں ملے جو دیگر صوبوں میں دستیاب ہیں۔ 1960، 70 اور 80 کی دہائی میں پشاور، مردان، اور ایبٹ آباد کے کھلاڑی قومی مقابلوں میں نمایاں رہے۔ پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج اور آرمی اسٹیڈیم جیسے ادارے اتھلیٹکس کی نرسری بنے۔ا اس صوبے سے تعلق رکھنے والے نامور اتھلیٹ میں عبید اللہ (100m اور 200m کے دوڑ میں نمایاں)نصیر احمد (ہردلز) عبدالرشید (لانگ جمپ)شامل ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں شیر گل، عبدالوحید، اور ایمل خان جیسے نوجوانوں نے قومی سطح پر اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔
ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس KP میں ناقص انتظام، بجٹ کا غلط استعمال اور فرضی ایونٹس نے اتھلیٹکس کو بہت نقصان پہنچایا۔کیونکہ کوچز کو فیلڈ کی بجائے دفتری کاموں پر لگا دیا گیا۔ااسی طر ح ضلع سطح پر اسپورٹس آفیسرز کی عدم موجودگی یا غیر فعال کردار ہے اسی باعث ماضی میں کئی باصلاحیت کھلاڑی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کھیل چھوڑ گئے۔ضم شدہ اضلاع میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، لیکن نہ ٹریکس ہیں، نہ کوچز، نہ تربیتی کیمپ منعقد کروائے جاتے ہیں اگر وہاں اسپورٹس کمپلیکس اور تربیتی نظام قائم کیا جائے تو یہ علاقے قومی ٹیموں کو بہترین ایتھلیٹس فراہم کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں اتھلیٹکس — جو کھیلوں کی "ماں" کہلاتی ہے — مسلسل زوال کا شکار ہے۔ یہ وہ کھیل ہے جس پر اولمپکس کی بنیاد رکھی گئی، مگر ہمارے ملک میں اس کی حالت افسوسناک ہے۔کوئی قومی یا صوبائی اتھلیٹکس ڈویلپمنٹ پلان موجود نہیں۔ نہ ٹیلنٹ ہنٹ، نہ گرومنگ، نہ لانگ ٹرم کوچنگ نہیں.اتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان (AFP) کئی سالوں سے متنازع انتخابات، فنڈز کے مسائل اور کرپشن کی خبروں میں رہی ہے۔ملک میں آئی اے اے ایف (World Athletics) سرٹیفائیڈ کوچز کی تعداد نہایت کم ہے۔اکثر کوچز اپڈیٹڈ ٹریننگ میتھڈز سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
کئی بڑے شہروں میں اولمپکس سائز ٹریک نہیں۔ خیبر پختونخوا میں تو اکثر اضلاع میں صرف میدان ہی دستیاب نہیں۔اتھلیٹس کو ماہانہ وظیفہ، انشورنس یا نوکری کی گارنٹی نہیں دی جاتی۔ اس کے برعکس کرکٹ، ہاکی یا فٹبال جیسے کھیلوں میں کچھ نہ کچھ سپورٹ موجود ہے کوچز کو دفتر میں بٹھا کر گراو¿نڈ سے دور کر دیا گیا ہے۔ ضلعی سطح پر اسپورٹس فنڈز صرف کاغذوں میں خرچ ہوتے ہیں۔زیادہ تر اتھلیٹ بے یار و مددگار، بغیر کسی کوچ یا میڈیکل سپورٹ کے خود ہی پریکٹس کرتے ہیں۔ اسکول اور کالج لیول پر گیمز بند یا رسمی ہو گئے ہیں۔
کھیلوں کے ماہرین کے مطابق ضلعی سطح پر اسپورٹس بورڈز کو فعال کیا جائے۔اسکول اور کالج گیمز کو دوبارہ منظم اور باقاعدہ کیا جائے۔اور بجٹ کی نگرانی، ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام اور خواتین کے لیے خصوصی مواقع پیدا کیے جائیں۔ نیشنل لیول پر اتھلیٹکس اکیڈمی کا قیام ضروری ہے اسی طرح کوچنگ پروگرامز کو اپڈیٹ اور ڈیجیٹلائز کرنے سمیت ضلع اور تحصیل لیول پر باقاعدہ مقابلے کروانے ضروری ہیں جبکہ اسکول گیمز کی بحالی اور میڈیا کوریج سمیت کھیلوںکی اداروںکی شفاف احتساب اور فنڈز کی نگرانی ضروری ہے ماہرین کے مطابق سابق کھلاڑیوں کو کوچنگ اور سپورٹ رولز میں شامل کرناایک اہم اقدام ہوگا. ماہرین کے مطابق اتھلیٹکس میں ناکامی صرف ایک کھیل کی شکست نہیں — یہ ایک نظامی ناکامی ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اصلاحات نہ کیں، تو نہ صرف ٹیلنٹ ضائع ہوگا، بلکہ ملک کبھی عالمی اسٹیج پر مقام نہیں بنا پائے گا۔ #athletics #sports #kpk #kp #pakistan #games #
|