قیدی جو آزاد تھا

ایک ایسی دنیا میں جہاں سچ بولنا جرم بن چکا ہو، وہاں
ایک شخص ڈٹ کر کھڑا ہے۔ جنیدایک سادہ مگر بے باک انسان جو اس نظام کا شکار بن گیا ہے جو سچ کو دبانے اور خاموشی کو انعام دینے پر یقین رکھتا ہے۔

جب طاقتور لوگ حق کی آواز سے خوفزدہ ہو جائیں، تو وہ دھونس، تشدد اور تنہائی جیسے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
لیکن اگر دل نہ ٹوٹے، حوصلہ نہ ہارے تو کیا ظلم کا اندھیرا کبھی چراغ بجھا سکتا ہے؟

یہ کہانی صرف درد کی نہیں، بلکہ یقین، ثابت قدمی اور اس اندرونی آگ کی ہے جو سچ بولنے والوں کے سینے میں جلتی ہے۔

آئیے اُس دنیا میں قدم رکھیں جہاں زبان کھولنا سب کچھ چھین سکتا ہے… اور خاموش رہنا شاید اُس سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔


Scene 1

ایک کمرے میں باپ اور بیٹا بیٹھے بات کر رہے ہیں۔ باپ کا نام جنید ہے اور بیٹے کا نام حسن ہے

بیٹا: بابا، آج آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔
بابا: ہاں بیٹا، میں واقعی پریشان ہوں۔
بیٹا: لیکن کیوں بابا؟ کیا ہوا ہے؟
بابا: مجھے آنے والے وقت کی فکر ہے… اور یہاں کے کچھ لوگ مجھے دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
بیٹا: دھمکیاں؟ لیکن کیوں؟ آپ نے ایسا کیا کیا ہے؟ آپ تو بس لوگوں کو اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں۔ یہی تو آپ کا کام ہے، بابا۔
بابا: ہاں بیٹا۔ لیکن یہاں کے بااختیار لوگ اور زیادہ تر عوام یہ سب پسند نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اُنہیں حق اور سچ کی طرف بلائے۔
بابا: تم فکر نہ کرو۔ ہمارا رب ضرور ہمارے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔ اب تم زیادہ مت سوچو اور آرام سے سو جاؤ۔ میں کچھ دیر قرآن پڑھوں گا۔
بابا: اب میں نہیں رک سکتا۔ میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں۔ اب میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ جب میرے رب نے مجھ پر حق اور سچ واضح کر دیا، تو اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Scene 2

اگلے دن، ناظم کے حکم پر جنید کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے بیڑیوں میں جکڑ کر ناظم کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر
تشدد کیا گیا۔

ناظم: ہاں، اب کچھ سمجھ آئی؟ یا ابھی اور مار کھانی ہے؟

جنید نے نظریں جھکائیں، اس کے ہونٹ پھٹے ہوئے تھے، کندھے ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔ وہ کچھ بولے بغیر، زمین پر نظریں گاڑے کھڑا تھا۔

ناظم: او میرے سپاہیو، اس کا منہ تو مجھے ہی کھلوانا پڑے گا!

سپاہی نے زور سے ڈنڈا مارنا شروع کر دیا۔ ہر ضرب کے ساتھ جنید کا جسم جھٹکے سے ہلتا، مگر وہ پھر بھی چپ رہا۔

ناظم: اچھا، اب رُک جاؤ۔ دیکھتا ہوں کہ اب کیا بولتا ہے۔ کچھ عقل آئی یا نہیں؟

جنید نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں، ہونٹوں پر خون جَم چکا تھا۔ اس نے سیدھا ناظم کی طرف دیکھا۔

جنید: جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہو سکتا۔ میں مر جاؤں گا لیکن سچائی سے دستبردار نہیں ہوں گا۔

ناظم: ارے، یہ تو بہت ضدی ہے! لے جاؤ اسے نیچے تہہ خانے میں۔ وہاں سب کا منہ کھل جاتا ہے۔ جاؤ، لے جاؤ!

سپاہی نے جنید کو گھسیٹا اور اندھیرے تہہ خانے میں پھینک دیا۔

Scene 3

ناظم اپنی کابینہ سے مخاطب ہوتا ہے:

ناظم:
میں اپنے علاقے میں کسی مذہبی شخص کو تبلیغ کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔
یہ لوگ بس باتیں کرتے ہیں، گمراہ کرتے ہیں۔
مجھے کوئی شخص دین کی بات کرتے نظر نہ آئے۔
یہ میرا حکم ہے، یہی میرا قانون ہے۔
میرے علاقے میں مذہب کی تبلیغ جرم ہے — سنگین جرم۔
عبادت کرنی ہے تو چپ کر کے کرو، کسی کو کچھ سنانے کی اجازت نہیں۔
اپنے گھروں میں جاؤ، خاموشی سے۔

ناظم (وقفہ لے کر):
کیا کسی کو کچھ کہنا ہے؟
کوئی سوال ہے؟

کابینہ کے سارے افراد سر جھکائے بیٹھے رہے... جیسے زبانیں بند ہو چکی ہوں۔

Scene 4

جنید تہہ خانے میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اس سے بات کرنے والا قیدی اشرف ہے۔

اشرف: میاں، کس بات پر تمہیں یہاں لایا گیا ہے؟ اور میں تو تمہیں جانتا بھی ہوں...

جنید خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔

اشرف: تم تو ایسے نہیں تھے۔ آخر تم نے کیا کیا؟

جنید: میں یہاں اس لیے ہوں کیونکہ میں نے کچھ نہیں کیا۔

اشرف: بھلا کوئی یوں ہی قید کیا جاتا ہے؟ یا شاید تم بتانا نہیں چاہتے... ٹھیک ہے، جیسے تمہاری مرضی۔

اسی دوران باہر سے سپاہی کی آواز آتی ہے۔

سپاہی: اچھا، یہ باتیں بند کرو اور چپ چاپ سو جاؤ۔ اب جو ہونا ہے، وہ صبح تک معلوم ہو جائے گا۔

Scene 5

ایک دم دروازہ زور سے کھلتا ہے۔
کئی ظالم چہرے کوٹھری میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں، آنکھوں میں سفاکی۔ وہ خاموشی سے جنید کو گھسیٹ کر اُلٹا لٹکا دیتے ہیں۔ اس کے کپڑے نوچ لیے جاتے ہیں۔

ایک جلات، سخت لہجے میں:
"اب بتا... کہاں ہے تیرا رب؟ نیندیں حرام کیں تُو نے سب کی۔ آج تجھے اُس کا جواب ملے گا!"

پہلا وار۔
جنید کی چیخ۔
"اااہ۔۔۔ یا اللہ... مدد۔۔۔!"

دوسرا وار، تیسرا، چوتھا۔
خون بہنے لگتا ہے، لیکن جلاتوں کے ہاتھ نہیں رکتے۔
ایک جلات نمک اُٹھاتا ہے۔
زخموں پر چھڑکتا ہے۔

"یہ لے... اب محسوس ہوا؟ اب ملا مزہ؟"

جنید کے ہونٹ کپکپاتے ہیں۔
"یا اللہ... میرا دل مضبوط رکھ۔ میرے قدم نہ ڈگمگائیں۔ میں تیرے راستے پر ہوں، مجھے ٹوٹنے نہ دینا۔"
ایک اور وار۔
اس بار جسم کی سکت جواب دے جاتی ہے۔
جنید بے ہوش ہو جاتا ہے۔
مگر وہ پھر بھی مارتے رہتے ہیں... جیسے اُس کے سچ نے اُن کے دلوں کی سچائی کو ننگا کر دیا ہو۔

Scene 6

ناظم، جو پورے علاقے پر اختیار رکھتا ہے، اُس کی اپنی ایک فیملی ہے. اُس کی بیوی، ماریہ۔

ماریہ: میں نے سنا ہے کہ آپ نے جنید نامی شخص کو گرفتار کروایا ہے؟

ناظم: ہاں، تو؟ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟

ماریہ: وہ اس علاقے کا ایک معزز اور شریف انسان ہے۔

ناظم: اچھا! تم اسے کیسے جانتی ہو؟

ماریہ تھوڑا گھبرا گئی، اور آہستہ سے بولی:

ماریہ: ایک دن میں راستے سے گزر رہی تھی، اُس وقت اُن کی تقریر سننے کا موقع ملا... وہ سادہ اور سچ بولتے ہیں۔ میں ان کی ہر بات سے متفق نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں۔

ناظم: تو تم اُس کا ساتھ دے رہی ہو؟ ٹھیک ہے، صرف تمہارے کہنے پر میں اُسے ایک اور موقع دوں گا۔ اگر وہ میری بات مان گیا، تو نہ صرف اُسے چھوڑ دوں گا بلکہ اُسے اس سے بہتر مقام بھی دوں گا۔

ماریہ کے چہرے پر اب سکون ہے۔

Scene 7

کچھ مہینے پہلے۔۔۔
جنید ایک سادہ اور باکردار انسان تھا، جو لوگوں کو سچ بولنے، عدل کرنے اور اللہ کے احکامات پر چلنے کی تلقین کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا۔ جنید کی باتوں نے نوجوانوں کے دل بدلنے شروع کر دیے تھے۔
وہ قرآن کی روشنی میں لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتا اور برائی سے روکتا تھا۔ اُس کی باتوں میں سچائی تھی، لہجے میں نرمی اور دل میں درد۔
جنید نے کئی بار کہا
یہ دنیا ایک امتحان ہے، اور ہمیں قرآن کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ بے انصافی قرآن کے اصولوں کے خلاف ہے۔
جنید کا یہ پیغام تیزی سے پھیلنے لگا۔ عوام بیدار ہونے لگے، نوجوان اس کے گرد جمع ہونے لگے۔

جنید کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن، حق، اور اللہ کی طرف بلاتا تھا۔ اور باطل کو سب سے زیادہ خطرہ ہمیشہ حق سے ہی ہوتا ہے۔


جنید جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا سوچ میں گم ہے۔ وہ اپنے ماضی کے لمحات یاد کر رہا ہے۔ کچھ وقت پہلے


جنید اپنے لوگوں سے مخاطب ہے:

جنید:
کبھی سوچا ہے کہ ہم سارا دن صرف دنیا کے پیچھے کیوں دوڑتے ہیں؟
دنیا کمانا غلط نہیں، جب تک یہ حلال طریقے سے ہو اور ضرورت پوری کرنے کے لیے ہو۔
مگر کیا ہم صرف اسی لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ کھانا، پینا اور سونا؟
یہ تو جانور بھی کرتے ہیں، اور شاید ہم سے بہتر کرتے ہیں۔
تو پھر خدا نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟
کبھی اس پر غور کیا ہے؟

پھر کسی اور جگہ…

نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہماری ذمہ داری ہے۔
مگر یہ وہی کر سکتا ہے جس نے پہلے خود کو سنوارا ہو، خود کو پہچانا ہو۔
تب جا کر وہ دوسروں کی اصلاح کا اہل بنتا ہے۔

اسی دوران، ایک سپاہی آتا ہے…

سپاہی:
چلو جنید، تمہارا بلوا آ گیا ہے۔ اب چلنا ہے۔


Scene 8

جنید کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر ناظم کے سامنے لایا گیا۔ ناظم شراب میں مشغول تھا۔

ناظم:
ہاں جنید، اب بتاؤ کچھ سمجھ آئی یا ابھی بھی وقت چاہیے؟

جنید نے خاموشی اختیار کی اور نظریں نیچے رکھیں۔

ناظم:
دیکھو، اب تو تمہارے حق میں سفارش بھی آ گئی ہے۔ جانتے ہو کس نے کی ہے؟

یہ سن کر جنید نے حیرت سے ناظم کی طرف دیکھا۔

ناظم (قہقہہ لگاتے ہوئے):
ہاہاہا! تمہیں یقین نہیں آ رہا نا؟
یہ سفارش میری اپنی بیوی کی ہے، بے غیرت!
اب تو شرم سے مر جانا چاہیے تمہیں۔

ناظم (ذرا سنجیدہ ہو کر):
خیر، وہ چاہتی ہے کہ تمہیں چھوڑ دیا جائے،
اور میں تمہیں یہ موقع دے سکتا ہوں…
صرف شرط یہ ہے کہ تم میری بات مان لو۔
نہ صرف تمہیں آزاد کروں گا، بلکہ کابینہ میں بھی شامل کرونگا۔
کیونکہ مجھے یقین ہے، تم مجھے دھوکہ نہیں دو گے۔

ناظم:
تو اب بتاؤ، تمہارا فیصلہ کیا ہے؟
اور یاد رکھو جو کہہ دو گے، واپس نہیں لے سکو گے۔

جنید نے سر اٹھایا، آسمان کی طرف دیکھا، اور گہرا سانس لیا۔

جنید:
میرا جواب وہی ہے
میں اپنے راستے سے نہیں ہٹوں گا۔

ناظم (غصے سے):
افسوس ہے، تمہارے دماغ میں گوبر بھرا ہے۔
سپاہی!

(غصے سے چیختے ہوئے):
کل صبح سے پہلے، اسے لٹکا دینا یہ میرا حکم ہے!

Scene 9

جنید اندھیری کوٹھڑی میں ہے، جہاں سے اُسے موت کے گھاٹ اُتارا جائے گا — یعنی پھانسی دی جائے گی۔

ناظم کی بیوی ماریہ اس سے ملاقات کے لیے آتی ہے۔

ماریہ:
لگتا ہے تمہیں اپنی زندگی کی کوئی پروا نہیں!
میں نے بڑی مشکل سے تمہارے لیے سفارش کی، لیکن تم نے مجھے اپنے شوہر کے سامنے شرمندہ کر دیا۔
میں ہی بے وقوف تھی جو تم سے ہمدردی کی۔

جنید خاموش ہے۔ اُس کی نظریں زمین پر جمی ہوئی ہیں۔

ماریہ:
اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
چلے جاؤ، لٹک جاؤ شاید تمہیں واقعی زندگی سے محبت نہیں۔

جنید (پہلی بار بولتا ہے):
زندگی خدا کی امانت ہے، نعمت ہے… اور آزمائش بھی۔
کیا میں اس چند لمحوں کی زندگی کے لیے اپنی اصل زندگی قربان کر دوں؟
نہیں، یہ بے وقوفی ہوتی۔
اگر سب جان کر بھی ایسا کرتا، تو مجھ سے بڑا جاہل کوئی نہ ہوتا۔

موت تو برحق ہے۔
آج میری باری ہے، کل کسی اور کی ہو گی۔
یہ دنیا تو ایک مسافر خانہ ہے
اصل گھر تو ابھی آنا باقی ہے۔

ماریہ:
تم جیسے لوگوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔
میں تمہیں سمجھدار سمجھتی تھی، لیکن غلط تھی۔

جنید:
میں سمجھدار ہی ہوں…
اسی لیے یہ کہہ رہا ہوں، بیگم صاحبہ!

ماریہ خاموشی سے پلٹ جاتی ہے۔

Scene 10

جنید کو پھانسی گھاٹ کی طرف ہتھکڑیوں میں لے جایا جا رہا ہے۔
وہ دل ہی دل میں کہہ رہا ہے:

جنید (دل میں):
"میں آزادی کی طرف جا رہا ہوں...
میں اپنے رب سے ملنے جا رہا ہوں...
میں اصل زندگی کی طرف جا رہا ہوں...
مجھے کوئی پچھتاوا نہیں...
میرا دل مطمئن ہے...
میں پھانسی پر چڑھنے جا رہا ہوں،
لیکن مجھے یقین ہے کہ یہی درست ہے...
یہ انجام نہیں...
یہ آغاز ہے...
اب اصل زندگی شروع ہوگی...


The End.
 

Adnan Durez
About the Author: Adnan Durez Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.