واقعہ اِفک کے زمانہ کا تعین
واقعہ اِفک کے متعلق مؤرخین کے کئی اقوال ہیں کہ یہ سنہ ماہِ شعبان 5ھ میں
غزوہ مُرَیسیع کے بعد پیش آیا جبکہ بعض مؤرخین کے مطابق یہ سنہ 6ھ میں پیش
آیا۔
سنہ 5ھ کے متعلق قول قوی ہے کیونکہ اِس واقعہ میں حضرت سعد بن معاذ رضی
اللہ عنہ کی موجودگی کا پتا چلتا ہے جبکہ وہ اِسی سال کے اواخر میں ماہِ
ذوالحجہ 5ھ/ اپریل/مئی 627ء میں فوت ہوگئے تھے .
اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں موجود تھا حو غزوہ مُرَیسیع کے
بعد ماہِ ذوالقعدہ 5ھ/ مارچ 627ء میں پیش آیا تھا۔
سو واقعہ اِفک کےسنہ 5ھ میں پیش آنے کا قوی ثبوت حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ
عنہ کی وفات کا ہے جو اِس واقعہ کے 5 ماہ بعد فوت ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ مُرَیسیع سے واپسی پر مدینہ_منورہ ماہِ
رمضان 5ھ کی رؤیتِ ہلال کے وقت پہنچے تھے، علاوہ ازیں اِس واپسی پر حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مہینہ بیمار رہیں، غالباً اِمکان ہے کہ سورۃ النور
کی آیات 11 تا 20 جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شانِ اقدس میں نازل
ہوئیں، ماہِ شوال 5ھ/ فروری/ مارچ 627ء میں نازل ہوئیں۔ اِس طرح ماہ شوال
کو یہ نسبت خاص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔
تاریخی اوراق بتاتے ہیں کہ
بروز پیر 12 ربیع الاول 11ھ مطابق 8 جون 632ء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے مدینہ_منورہ میں واقع مسجد نبوی سے ملحقہ حجرہ_عائشہ میں وفات
پائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک اُس وقت 18 سال تھی۔ آپ 9 سال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے وفات پائی تب آپ کی عمر 18 سال تھی.اور قریباً رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال 6 ماہ 5 یوم (قمری) اور 46 سال 1 ماہ 5
یوم (شمسی) تک بقید حیات رہیں۔
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے 9 سال، خلافت راشدہ کے مکمل 30 سال اور
امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے 17 سالوں کی وہ عینی
شاہد تھیں۔اِس تمام عرصہ میں آپ کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے، کبھی آپ لوگوں
کو مناسک حج کی تعلیم دیتی نظر آتی ہیں، اور کبھی آپ عبادات و ایمانیات کے
متعلق تعلیم دیتی ہیں، کبھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس
کے روشن پہلو بیان فرماتی ہیں اور کبھی امت میں اصلاح کے واسطے مہمل و
کجاوے میں مسند نشیں نظر آتی ہیں۔ گویا اِس تمام مدت میں آپ کی شخصیت محور
و مرکز بنی ہوئی تھی، اور تمام مملکت اسلامیہ میں آپ بحیثیت مرکز و محور
تسلیم کی جاتی تھیں، خلافت راشدہ کے اختتام پر اور اُموی خلافت کے زمانہ
میں یہ شانِ جلالت اوجِ کمال پر رہی۔ حرم نبوت کی یہ شمع اپنی آب و تاب سے
ملت اسلامیہ کو ہر وقت روشن کرتی رہی، اِس بات کا اندازا اِس سے کیا جاسکتا
ہے کہ جس روز آپ کا اِنتقال ہوا تو مدینہ_منورہ میں کثرت اژدھام کی وجہ سے
عید کا گماں ہونے لگا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کو خلیفہ اول منتخب کیا گیا اور اُنہیں خلیفۃ الرسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے لقب سے پکارا
گیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بروز پیر 12 ربیع الاول 11ھ/ 8 جون 632ء کو
خلیفہ منتخب ہوئے اور بروز پیر 22 جمادی الثانی 13ھ/ 22 اگست 634ء کو مدینہ
منورہ میں اِنتقال فرمایا۔ آپ کا عہدِ خلافت 2 سال 3 ماہ 10 دن بلحاظ قمری
سال کے ہے۔
ربیع الاول 11ھ/ جون 632ء میں حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر
ہوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے بعد ازواج
المطہرات نے چاہا کہ حضرت عثمان_بن_عفان رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر حضرت
ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں تاکہ وہ وراثت کا مطالبہ
کرسکیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے یاد دلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:
میرا کوئی وارث نہ ہوگا، میرے تمام متروکات صدقہ ہوں گے۔ یہ سن کر سب خاموش
ہوگئیں۔
تاریخی اوراق ہی بتاتے ہیں کہ
بروز بدھ 25 ربیع الاول 41ھ/ 28 جولائی 661ء کو حضرت امام حسن ابن علی رضی
اللہ عنہ نے خلافت حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان کو سپرد کردی۔
سنہ 41ھ سے سنہ 60ھ تک تقریباً 20 سال تک حضرت امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی
اللّٰہ مسلم دنیاء پر حکمرانی کرتے رہے، حضرت امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی
اللّٰہ کی مدت خلافت کے اِختتام سے 2 سال قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے
58ھ/ 678ء میں وفات پائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کم و بیش 18 سال حضرت امیر معاویہ بن ابوسفیان
کی خلافت میں بسر کیے، اور یہ تمام زمانہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے
خاموشی سے گزارا، مگر کئی مواقع پر یہ سکوت ختم بھی ہوتا رہا بلکہ آپ براہِ
راست حکمران پر تنقید کرلیا کرتی تھیں، ایسے کئی مواقع تاریخ میں محفوظ
ہوچکے ہیں۔
ایک بار امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے ملنے گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تم اِس طرح بے خطر تنہا میرے گھر آ
گئے، ممکن تھا کہ میں کسی کو چھپا کر کھڑا کر دیتی کہ جیسے ہی تم آتے وہ
تمہارا سر اُڑا دیتا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ دارالامان ہے، یہاں آپ ایسا نہیں
کرسکتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ایمان قتل
ناگہانی کی زنجیر ہے۔ پھر دریافت کیا کہ میرا برتاؤ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟ آپ
بولیں: ٹھیک ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میرا اور اُن (یعنی
بنو ہاشم) کا معاملہ چھوڑ دیجئیے، اللہ کے ہاں سمجھا جائے گا۔
صحابی رسول حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد
خلافت میں کوفہ میں علوی فرقہ کے سرکردہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے
طرفدار تھے۔ کوفی کے والی نے کچھ لوگوں کی شہادت پر اُن تمام اشخاص کو
گرفتار کروا کر دمشق بھیج دیا۔
حجر بن عدی یمن کے خاندان حجر سے تعلق رکھتے تھے، کوفہ عرب کے بڑے بڑے
قبائل کا مرکز بن چکا تھا، خود قبیلہ کندہ یہاں موجود تھا، لیکن کسی نے حجر
بن عدی کی حفاظت میں انگلی تک نہ اُٹھائی، تاہم حجر بن عدی کا صحابہ میں
اِس قدر نہایت اقتدار تھا کہ تمام ملک عرب میں اِس واقعہ کے خلاف ناگواری
محسوس کی گئی۔ رئیسانِ قبائل نے اُن کے حق میں سفارش کی لیکن قبول نہ ہوئی۔
مدینہ منورہ خبر پہنچی تو اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی
طرف سے ایک قاصد اُن کی سفارش میں دمشق روانہ فرمایا لیکن افسوس کے قاصد کے
پہنچنے سے قبل ہی حجر بن عدی قتل کیے جاچکے تھے۔ کچھ عرصہ بعد حب امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے اور آپ سے ملاقات کو آئے تو حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے جو گفتگو کی وہ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ
سے متعلق تھی، آپ نے فرمایا: "معاویہ! حجر کے معاملہ میں تمہارا تحمل کہاں
تھا؟ حجر کے قتل میں تم خدا سے نہ ڈرے؟" امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب
دیا: اِس میں میرا قصور نہیں، قصور اُن کا ہے جنہوں نے گواہی دی۔ حجر بن
عدی رضی اللہ عنہ کی شہادت مع اُن کے اصحاب کے 51ھ/ 671ء میں بمقام دمشق
میں ہوئی۔
سنہ 56ھ/ 676ء میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد یزید کو اپنا
جانشین مقرر کیا۔
مروان_بن_حکم مدینہ منورہ کا والی تھا، مجمع عام میں اُس نے یزید کا نام
بطور جانشین امیر معاویہ پیش کیا تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ (
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی تھے ) نے اُٹھ کر مخالفت کی،
مروان_بن_حکم نے اُن کو گرفتار کرنا چاہا ، وہ دوڑ کر اپنی بہن حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہو گئے۔
مروان_بن_حکم گھر کے اندر گھسنے کی جرات نہ کرسکا، کھسیانا ہوکر بولا: یہی
وہ ہے جس کی شان میں یہ آیت اُتری: وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ
لَكُمَا،
تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اوٹ کے پیچھے سے فرمایا:
ہم لوگوں (یعنی آل ابوبکر) کی شان میں اللہ نے کوئی آیت نہیں اُتاری، بجز
اِس کے کہ میری برات فرمائی۔
(یہ سورۃ الاحقاف کی آیت 17 ہے جس کا ترجمہ ہے: اور جس شخص نے اپنے ماں باپ
سے کہا کہ اُف اُف! ) اِس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یزید کی جانشینی سے
خوش نہ تھیں۔
تاریخی اوراق ایک اور تاریخی پہلو کا ذکر کرتے ہیں کہ
حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ماہِ ربیع الاول 49ھ/ اپریل 669ء میں
مدینہ منورہ میں وفات پائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ حجرہ عائشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
مدفون ہیں۔
حجرہ عائشہ کے ایک گوشہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ حضرت حسن بن علی رضی
اللہ عنہ نے اِسی گوشہ میں مدفون ہونے کی وصیت کی تھی اور مزید یہ کہا تھا
کہ اگر کوئی تدفین میں مزاحمت کرے تو جنگ و جدل کی ضرورت نہیں، مجھے میری
والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے قریب قبرستان بقیع الغرقد میں دفن کر
دینا۔ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ فوت ہوگئے تو آپ رضی اللّٰہ کے بھائی
حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے اِس وصیت کی تکمیل کرنا چاہی تو مروان بن حکم
مخالفت پر اُتر آیا اور کہنے لگا کہ جب یہاں باغیوں نے حضرت عثمان بن عفان
رضی اللہ عنہ کو دفن نہ ہونے دیا تو کسی اور کو بھی اجازت نہیں ہوسکتی۔
مروان بن حکم بنو اُمیہ کی معیت میں ہتھیار لگائے باہر نکل آیا اور حضرت
حسین بن علی رضی اللہ عنہ بنو ہاشم کی معیت میں ہتھیار لگائے سامنے آگئے،
قریب تھا کہ خونریز جنگ و جدل کی اِبتداء ہوجاتی مگر درمیان میں حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آ گئے اور مروان بن حکم سے کہا: نواسہ اگر اپنے نانا
کے پہلو میں دفن ہوتا ہے تو تم کو اِس میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ اور حضرت
حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی: امام مرحوم کی یہ بھی تو
وصیت تھی کہ اگر میری تدفین میں کوئی مزاحمت ہو تو جنگ و جدل سے پرہیز کیا
جائے۔ غرض یہ کہ امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تدفین قبرستان بقیع
الغرقد میں اُن کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں کی گئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس سارے معاملہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
کا طرز عمل کیا تھا؟ بعض شیعی مؤرخین نے اِس واقعہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا کے کردار کو منفی انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے جو دراصل بے سرو
پا کذاب روایات ہیں اور شیعی مؤرخیں کی یہ بے سرو پا روایات گستاخئ حرم
نبوی (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) پر دلالت کرتی ہیں۔ اِن تمام بے سرو پا
روایات کا کوئی راوی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سند۔
اِن شیعی روایات کی بناء پر یہ کہا گیا ہے کہ تدفین حضرت حسن بن علی رضی
اللہ عنہ کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود سفید خچر پر سوار ہو کر حضرت
حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے جنازہ کو روکنے کے لیے نکلیں۔ سپاہیوں نے تیر
چلائے اور اِتنی دیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی آئے اور اُنہوں
نے کہا: ابھی جنگ جمل کی شرم ہمارے خاندان سے مٹی نہیں کہ تم ایک اور جنگ
کے لیے آمادہ ہو۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واپس چلی گئیں۔
یہ موضوع روایت ابن جریر طبری کی تاریخ الرسل والملوک کی ایک فارسی ترجمہ
میں جو برصغیر میں اُنیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں طبع ہوا تھا، پڑھنے کو
ملتی ہے۔
اصل نسخہ عربی میں یہ روایت ہی موجود نہیں بلکہ یہ تو شیعی مؤرخین کا فارسی
ترجمہ میں اضافہ کیا ہوا ہے، اِس فارسی ترجمہ میں دراصل کئی اضافے موجود
ہیں جن میں کئی ضعیف اور کذاب روایات بیان کی گئی ہیں جو عربی کے اصل نسخہ
میں موجود نہیں ہیں۔ فارسی کے مترجم نے اِس کتاب کے مقدمہ میں اِس بات کی
تصریح بھی کردی ہے کہ بعض روایات موضوع اور من گھڑت ہیں جو فارسی کے اِس
ترجمہ میں اضافہ شدہ ہیں یا جن کی کوئی اصل موجود ہی نہیں۔
یعقوبی جو تیسری صدی ہجری کا شیعہ مؤرخ ہے وہ بھی اِس واقعہ کو بغیر کسی
سند کے بیان کرتا ہے۔ بغیر کسی سند کے کوئی واقعہ مصدقہ نہیں ہوسکتا۔ اصل
واقعہ کے بیان کے بعد کہ در حقیقت فعل مروان بن حکم کا تھا، قیل یعنی ضعفِ
روایت کے ساتھ صیغہ کے ساتھ اِس کا ذکر کیا گیا لیکن یہ نہیں لکھا گیا کہ
اُنہوں نے نعوذ باللہ تیر چلائے یا جنگ کی۔
تمام معتبر کتب ہائے تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا نے بطیب خاطر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تدفین کی اجازت دے دی
تھی۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سعید ابن ابی العاص جو والی مدینہ
منورہ تھا، اُس نے بھی تدفین سے نہیں روکا، مگر مروان بن حکم چند افراد کو
لے کر فساد برپا کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ امام موصوف نے یہ وصیت کی تھی کہ اگر
میری تدفین میں جنگ و جدل کا خطرہ ہو تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان یعنی
بقیع میں دفن کردینا۔
مروان بن حکم کی اِس شرارت سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو نہایت غصہ
آیا اور آپ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بذریعہ زور حجرہ عائشہ میں دفن
کرنے پر تیار ہوگئے اور اپنے بھائی کی وصیت سے گو اِنحراف کرنا چاہا۔
محدث ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں اور امام جلال الدین سیوطی نے تاریخ
الخلفاء میں ایک راوی سے روایت بیان کی ہے جو امام موصوف حضرت حسن بن علی
رضی اللہ عنہ کی وفات کے اُن کے پاس موجود تھا:
حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ وصیت فرماتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین
عائشہ رضی اللہ عنہا سے درخواست کی تھی کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے ساتھ اپنے گھر (یعنی حجرہ عائشہ) میں دفن ہونے کی اجازت دیں، اُنہوں نے
مجھے اجازت دے دی، لیکن معلوم نہیں کیا اُنہوں نے شرما شرمی میں مجھے اجازت
دی یا نہیں۔ میرے مرنے ک بعد اُن سے جا کر پھر اجازت لینا، اگر وہ خوشی سے
اجازت دیں تو وہیں دفن کرنا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ تم کو ایسا کرنے سے
روکیں گے، اگر واقعتاً وہ روکیں تو اِس میں اُن لوگوں سے ردوکد کرنے کی
ضرورت نہیں، مجھے بقیع میں دفن کردینا۔
جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت حسین بن علی رضی
اللہ عنہ نے جا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت طلب کی، اُنہوں نے
کہا: بخوشی۔مروان بن حکم کو واقعہ معلوم ہوا تو اُس نے کہا: حسین (رضی اللہ
عنہ) اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) غلط کہتے ہیں، حسن (رضی اللہ عنہ) کبھی
وہاں دفن نہیں کیے جاسکتے، عثمان (رضی اللہ عنہ) کو قبرستان تک میں دفن
کرنے نہ دیا گیا اور حسن (رضی اللہ عنہ) عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر
(حجرہ عائشہ) میں دفن ہوں گے؟۔
(خلیفہ سوم حضرت عثمان_بن_عفان رضی اللہ عنہ کو باغیوں نے بقیع میں دفن
نہیں کرنے دیا تھا مگر اصحاب کبار نے بقیع سے متصل باغ حش کوکب میں آپ کو
دفن کیا، بعد ازاں وہ باغ قبرستان بقیع میں ضم کرلیا گیا تھا، مروان بن حکم
کا اِشارہ اِسی جانب تھا)۔
مروان بن حکم کی مخالفت کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ اُن دِنون امارت مدینہ
منورہ سے معزول تھا، مروان بن حکم کو 48ھ/ 668ء میں امارت مدینہ منورہ سے
معزول کردیا گیا تھا۔ اِس بہانے سے مروان بن حکم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
کی خوشنودی کا طلب گار تھا کیونکہ 35ھ/ 656ء میں جب خلیفہ سوم حضرت عثمان
بن عفان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو باغی اُن کی حجرہ عائشہ رضی اللّٰہ میں
تدفین میں آڑے آئے اور اُنہیں حجرہ عائشہ رضی اللّٰہ میں دفن نہیں کیا گیا
بلکہ تدفین بقیع الغرقد میں کی گئی۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ چونکہ اُموی تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ
عنہ بھی خاندان بنو اُمیہ سے تھے، اِسی لیےمروان بن حکم نے خاندان بنو ہاشم
اور خاندان بنو اُمیہ کی قدیمی مخاصمت کو دوبارہ چھیڑنا چاہا جس میں ہرگز
بھی کامیاب نہ ہوسکا۔
حضرت عروہ_بن_زبیر
رضی الله عنه فرماتے ہیں "میں نے کسی ایک کو بھی معانی قرآن ، احکام حلال و
حرام ، اشعار عرب اور علم الانساب میں حضرت عائشہ رضی الله عنه سے بڑھ کر
نہیں پایا" ۔ حضرت عائشہ رضی الله عنه کی خصوصیت تھی کہ جب کوئی نہایت مشکل
و پیچیدہ مسئلہ صحابہ میں آن پڑتا تھا تو وہ آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے
تھے اور آپ رضی الله عنه
کے پاس اس سے متعلق علم ضرور موجود ہوتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زيادہ فقیہہ اور
صاحب علم ہونے کی بناء پر چند صحابہ کرام پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ فتوے دیا
کرتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ خوش تقریر بھی تھیں۔
مسروق تابعی سے پوچھا گیا: کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرائض میں ماہر
تھیں؟ فرمایا: ہاں! اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے مشائخ و
اکابر صحابہ کرام کو دیکھا کہ آپ سے فرائض کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔
حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے لیے جب کبھی کوئی حدیث مشکل ہوجاتی (یعنی کوئی مسئلہ
درپیش آ جاتا) تو ہم اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس کے بارے
میں پوچھتے تو اُن کے ہاں اِس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔
تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا سے بڑھ کر قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں٘ کی باتیں، اور نسب
کا عالم نہیں دیکھا۔
تابعی حضرت عطاء بن ابی الرباح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام
لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔
تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا
سے بڑھ کر شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔
تابعی حضرت امام زہری (متوفی 124ھ) بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اِس اُمت کی تمام عورتوں کے جن میں اُمہات
المومنین بھی شامل ہوں، علم کو جمع کرلیا جائے تو عائشہ کا علم اُن سب کے
علم سے زیادہ ہے۔
امام ہیثمی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کے تمام رجال ثقہ ہیں۔
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر
بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا۔
|