حضورﷺ کی سفارتکاری کا نمونہ
(Dr Zahoor Ahmed Danish, karachi)
|
حضورﷺ کی سفارتکاری کا نمونہ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) دنیا کی تاریخ میں سفارتکاری کو ہمیشہ ریاستی حکمتِ عملی، سیاسی مفادات اور قومی تحفظ کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ مگر جب ہم سیرتِ نبوی ﷺ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک ایسا مثالی سفارتکار نظر آتا ہے، جو صرف معاہدے نہیں کرتا بلکہ قلوب کو فتح کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سفارتکاری صرف سیاسی بصیرت نہیں بلکہ رحمت، حکمت، دانائی، اور عالمی فہم کا بے نظیر امتزاج ہے۔ قارئین : سفارتکاری ممالک کے درمیان بہت اہم پیش رفت ہوتی ہے ۔آپ یو ں کہ لیں کہ سفارت کاری وہ فن ہے جو خاموشی سے تلوار کی دھار کند کر دیتا ہے۔ یہ گفت و شنید کا وہ پل ہے جو دو مختلف کناروں کو جوڑتا ہے۔ سفارت کاری امید کی وہ شمع ہے جو تنازعے کی تاریکی میں بھی روشن رہتی ہے۔ یہ عقل کی وہ طاقت ہے جو طاقت کے استعمال کو مات دے سکتی ہے۔ سفارت کاری دوستی کا وہ بیج ہے جسے اگر بویا جائے تو امن کا پھل دیتا ہے۔ آئیے ہم اس کائنات کی سب سے عظیم سفارتکاری کے بارے میں جانتے ہیں جس نے اس کائنات کو جینے و جینے دینے کا رنگ ڈھنگ سیکھایا۔میرے آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کے چین نانائے حسین ﷺ کی ذات اقدس کی سفارتکاری نے قیامت تک کے انسانوں کے لیے بہترین نمونے چھوڑے ۔اپنی اس تحریر کو لکھنے کی وجہ بھی عرض کرتاچلوں کہ اس وقت عالمی سطح مسلمانوں کی سفارتکاری بہت قابل رحم ہے ۔لہذاہمارے لیے بہترین نمونہ ہستی عظیم رول ماڈل پیارے آقاﷺ کی سفارتکاری بہترین نصاب ہے ۔آئیے جانتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دنیا سے کیسے رابطہ رکھااور نظم و نظام کو کیسے قائم رکھا۔ مکالمے کا احترام رسول اللہ ﷺ نے کبھی طاقت یا بدزبانی کو اولین راستہ نہیں بنایا۔ حدیبیہ کا معاہدہ اس کی روشن مثال ہے۔ جب مشرکین نے "محمد رسول اللہ" لکھنے سے انکار کیا، تو آپ ﷺ نے صبر و حکمت سے کام لیا اور "محمد بن عبداللہ" لکھوا دیا۔ (صحیح مسلم، حدیث: 1783) غیر مسلم بادشاہوں کو دعوتی خطوط: 6 ہجری میں نبی کریم ﷺ نے قیصر روم، خسرو پرویز (ایران)، مقوقس (مصر)، نجاشی (حبشہ) جیسے بادشاہوں کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے۔ یہ خطوط نہ صرف دعوتِ اسلام کا ذریعہ تھے بلکہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد پر مبنی، پرامن دعوتی سفارتکاری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام، جلد 4) نجاشی سے حکیمانہ تعلق: جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، تو نبی ﷺ نے نجاشی کو اعتماد دیا، نہ کہ دباؤ۔ حضرت جعفر طیارؓ نے اس دربار میں جو خطاب کیا، وہ رسول اللہ ﷺ کی نرم، عقلی اور بین المذاہب گفتگو کی تربیت کا مظہر تھا۔ (طبری، تاریخ الأمم والملوک) میثاقِ مدینہ: نبی ﷺ نے مدینہ پہنچتے ہی جو "میثاقِ مدینہ" مرتب فرمایا، وہ تاریخِ انسانی کا پہلا باقاعدہ "ملی معاہدہ" ہے، جس میں مسلمانوں، یہودیوں، قبائل اور اقلیتوں کے حقوق و فرائض طے کیے گئے۔ یہ معاہدہ سفارتکاری، ریاستی نظم، اور مذہبی ہم آہنگی کا شاہکار تھا۔ (ابن ہشام، سیرت، باب: صحیفہ مدینہ) فتح مکہ: عفو و عدل کا اعلان: رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ پر دشمنوں کو عام معافی دی: "اذھبوا فأنتم الطلقاء" — "جاؤ، تم سب آزاد ہو"۔ یہ دنیا کی واحد ایسی فتح تھی جس میں خون کا ایک قطرہ نہ بہا، اور یہی آپ ﷺ کی عالمی اخلاقی قیادت کی دلیل ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام، جلد 4، ص 54) قارئین : آج کی مسلم دنیا میں سفارتکاری یا تو جذباتی نعرہ ہے یا مصلحت کا شکار۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نہ تو امت کے درد پر سفارتی حکمت رکھتی ہے، نہ ہی عالمی منظرنامے پر کوئی پرامن مگر مؤثر موقف دینے کی صلاحیت۔ فلسطین، کشمیر، روہنگیا، شام، لیبیا جیسے مسائل پر مسلم دنیا کی بے حسی، سفارتی لاچاری اور بے وزنی اس کا ثبوت ہے۔جبکہ حضور ﷺ کی سفارتکاری ہمیں سکھاتی ہے کہ:صرف "بیانات" نہیں، برداشت اور عملی اقدامات اہم ہوتے ہیں۔دشمن کے ساتھ بھی عزت و مکالمے کا در کھلا رکھنا حکمت ہے۔سچ، کردار، اور اخلاق بین الاقوامی طاقت بن سکتے ہیں۔ قارئین : رسول اللہ ﷺ کی سفارتکاری "فتح و غلبہ" نہیں، بلکہ دلوں کو مسخر کرنے کا فن تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ حکمت، حلم، اور اخلاق سے بڑی کوئی عالمی طاقت نہیں۔آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہمیں سنے، سمجھے اور تسلیم کرے تو ہمیں نبی ﷺ کی سفارتی سیرت کو جدید زبان میں زندہ کرنا ہوگا۔ یہی ہماری بقا، وقار اور قیادت کی راہ ہے۔دنیا کی تاریخ میں سفارتکاری کو ہمیشہ ریاستی حکمتِ عملی، سیاسی مفادات اور قومی تحفظ کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ مگر جب ہم سیرتِ نبوی ﷺ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک ایسا مثالی سفارتکار نظر آتا ہے، جو صرف معاہدے نہیں کرتا بلکہ قلوب کو فتح کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سفارتکاری صرف سیاسی بصیرت نہیں بلکہ رحمت، حکمت، دانائی، اور عالمی فہم کا بے نظیر امتزاج ہے۔ حضور ﷺ کی سفارتکاری کے نتائج نبی کریم ﷺ کی سفارتکاری نے عالمی سطح پر وہ اثرات مرتب کیے جو نہ صرف عہد نبوی بلکہ آئندہ صدیوں کی اسلامی تاریخ کا رخ متعین کرتے ہیں۔ دعوتی نظام کو عالمی سطح پر متعارف کرایا حضور ﷺ کے خطوط اور سفارتی رابطوں نے اسلام کو صرف عرب نہیں، بلکہ روم، ایران، مصر، اور افریقہ تک پہنچا دیا۔ مذہبی رواداری کی بنیاد رکھی: میثاقِ مدینہ اور حبشہ میں مسلمانوں کی پناہ نے بین المذاہب احترام اور رواداری کی عملی مثال قائم کی۔ امن کو طاقت پر ترجیح دی: صلح حدیبیہ جیسا معاہدہ بتاتا ہے کہ امن، تدبر، اور تحمل میدانِ جنگ سے بڑی فتح کا راستہ ہیں۔ دلوں کو جیتنے کی پالیسی فتح مکہ کے موقع پر معافی اور عزت نے دشمنوں کو دوست بنا دیا۔ یہ وہ حکمت عملی تھی جو لوگوں کو نظریاتی فتح سے قریب لائی، نہ کہ تلوار سے۔ اسلامی سفارتکاری کو ایک ضابطہ دیا نبی کریم ﷺ کے سفارتی اصول آج بھی اقوامِ متحدہ کے چارٹر سے زیادہ بامقصد اور عملی ہیں۔ ان میں انصاف، امانت، اخلاق، شرافت اور مقصدیت جیسے اصول شامل تھے۔ دور حاضر کی سفارتکاری اور مسلمانوں کی کمزوری آج کی مسلم دنیا میں سفارتکاری یا تو جذباتی نعرہ ہے یا مصلحت کا شکار۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نہ تو امت کے درد پر سفارتی حکمت رکھتی ہے، نہ ہی عالمی منظرنامے پر کوئی پرامن مگر مؤثر موقف دینے کی صلاحیت۔ فلسطین، کشمیر، روہنگیا، شام، لیبیا جیسے مسائل پر مسلم دنیا کی بے حسی، سفارتی لاچاری اور بے وزنی اس کا ثبوت ہے۔ سیاسی انتشار اکثر مسلم ممالک داخلی طور پر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں جس سے ان کی خارجی پالیسی کمزور پڑتی ہے۔ علم و فہم کی کمی سفارتکاری کو صرف نمائندگی تک محدود سمجھا گیا ہے، جبکہ اسے ایک فن اور دانش کی سطح پر نہیں اپنایا گیا۔ ذاتی مفادات: مسلم دنیا میں اکثر ممالک کی قیادت قومی یا خاندانی مفاد میں محدود ہے، امت کے وسیع مفاد پر قربانی دینے کا جذبہ کم ہے۔ سائنس، معیشت اور ٹیکنالوجی میں پسماندگی ان میدانوں میں کمزوری نے ہمیں عالمی اسٹیج پر کمزور اور محتاج بنا دیا ہے۔ قارئین : امتِ مسلمہ کی آواز عالمی اداروں میں بے اثر ہو چکی ہے۔مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم پر کوئی منظم عالمی موقف سامنے نہیں آتا۔نوجوان نسل میں اعتماد کی کمی، اور احساسِ کمتری بڑھتی جا رہی ہے۔ سفارتی حکمت علم و حکمت پر مبنی سفارتی تربیت اسلامی ممالک میں سفارتی تربیت کے ادارے قائم کیے جائیں جہاں نبی ﷺ کی سفارتکاری کو جدید انداز میں پڑھایا جائے۔ امت واحدہ کا تصور بحال کیا جائے او آئی سی، عرب لیگ جیسے فورمز کو صرف نمائشی اجلاس کے بجائے حقیقی و متحدہ اقدامات کے لیے استعمال کیا جائے۔ بین الاقوامی میڈیا و بیانیہ پر گرفت: میڈیا، تھنک ٹینک، اور عالمی لابنگ میں مسلم دانشوروں، اسکالرز اور سفارتکاروں کو مؤثر کردار دیا جائے۔ نوجوان قیادت کی تیاری: اسکول، یونیورسٹی، اور مدارس میں سیرت النبی ﷺ پر مبنی قیادت سازی کا نصاب متعارف کرایا جائے۔ بین المذاہب مکالمے کا فروغ: جیسا کہ نبی ﷺ نے نجاشی، مقوقس، اور دیگر غیر مسلم راہنماؤں سے کیا، ویسے ہی آج ہمیں بھی سلیقے، اخلاق اور حکمت سے مکالمے کو فروغ دینا ہو گا۔ قارئین : ہم آخر کب تک اپنی بے بسی کارونا روتے رہیں گے ۔ہمیں ایک موثر سفارتکاری کے ذریعے مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کے لیے کوشش کرنی ہوگی ۔آئیے ۔ہم کچھ ایسی باتیں جو ہماری مسلم سفارتکاری کے لیے موثر ثابت ہوسکتی ہیں ۔دورِ حاضر میں مؤثر سفارتکاری، مسلمانوں کے لیے صرف عالمی تعلقات کی ضرورت نہیں بلکہ بقاء، وقار، اور امت کی وحدت کا تقاضا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے روشنی لیتے ہوئے، مسلمان دنیا کو چاہیے کہ وہ دین، حکمت، اور جدید اصولوں کو یکجا کر کے ایسا سفارتی رویہ اپنائے جو صرف ردعمل پر مبنی نہ ہو، بلکہ قیادت، بیانیہ، اور اقدار پر مبنی حکمت عملی ہو۔نیچے اہم اور مؤثر سفارتی پہلو دیے جا رہے ہیں جو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیے گئے ہیں۔ اسلامی بیانیہ کی واپسی مسلمان صرف مظلوم نہ بنیں، مؤثر اور باوقار بیانیہ پیش کریں۔ہر مسئلے (فلسطین، اسلاموفوبیا، کشمیر) پر صرف جذباتی ردعمل کے بجائے منطقی، عدالتی، اور عالمی زبان میں موقف اختیار کیا جائے۔نبی ﷺ کی دعوتی گفتگو کو نمونہ بنایا جائے، جو نرم، مدلل، اور دلوں کو جیتنے والی تھی۔ علمی و فکری قیادت کی تیاری ہر اسلامی ملک میں اسلامی سفارتکاری، بین الاقوامی تعلقات، اور فکری مکالمہ پر ادارے قائم کیے جائیں۔دینی مدارس اور یونیورسٹیوں میں سیرتِ رسول ﷺ، اسلامی تاریخ، اور بین الاقوامی پالیسی پر یکجا نصاب بنایا جائے۔دانشور، امام، اسکالر اور سفیر ایک فکری لائن پر چلیں، نہ کہ الگ الگ نظریاتی میدانوں میں۔ مسلم ممالک کا متحدہ بلاک OIC کو فعال، بااختیار، اور مستقل عالمی پالیسی ساز ادارہ بنایا جائے۔"اسلامی اقوام متحدہ" یا “عالمی مجلسِ امت” کی طرز پر ایک مرکزی میڈیا، تھنک ٹینک، اور قانونی مشینری قائم ہو۔عالمی سطح پر مسلم سفیروں کے لیے مشترکہ اخلاقی و دعوتی ضابطۂ سفارت مرتب کیا جائے۔ سائنس، معیشت اور میڈیا پر کنٹرول صرف مذہبی گفتگو نہیں، بلکہ معاشی قوت، ٹیکنالوجی، اور میڈیا اثرات بھی ہماری سفارتکاری کا حصہ ہوں۔وقفی مالیاتی ادارے، اسلامی بنکنگ، اور ٹیکنالوجی کے ماہر نوجوان مسلم امہ کے سفارتی بازو بنیں۔ایک متحدہ اسلامی میڈیا نیٹ ورک بنایا جائے جو عالمی سطح پر مسلمانوں کا مؤثر اور باوقار ترجمان بنے۔ بین المذاہب اور بین الاقوامی مکالمے میں قیادت دنیا میں انسانی ہمدردی، امن، ماحولیاتی تحفظ، اور عدل جیسے موضوعات پر اسلامی اصولوں کو عالمی فورمز پر پیش کیا جائے۔ سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں دوسروں کو سمجھنا، سننا، اور مکالمہ کرنا سکھایا جائے۔ اخلاقی قیادت کا احیاء : آج دنیا سیاسی قیادت سے زیادہ اخلاقی قیادت کی تلاش میں ہے۔نبی کریم ﷺ کی سفارتکاری میں عزت، عدل، رحم، اور تحمل کا غلبہ تھا۔مسلمان ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے سفیروں، وزرائے خارجہ، اور ترجمانوں کو اخلاقی قدروں، زبان کے ادب، اور شفاف اندازِ گفتگو کا نمائندہ بنائیں۔ ڈیجیٹل سفارتکاری جدید دنیا میں سفارتکاری صرف سفارت خانوں تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا، ویب سائٹس، آن لائن نیوز، اور تھنک ٹینکس کا میدان ہے۔مسلمان ممالک کو اسلاموفوبیا، فلسطین، انسانی حقوق، خواتین، تعلیم، اور اسلامی تمدن جیسے موضوعات پر اپنے بیانیے کو ڈیجیٹل انداز میں عالمی زبانوں میں پیش کرنا چاہیے۔ تاریخی مظالم کا قانونی تعاقب سیرتِ رسول ﷺ کا اسوہ ہے کہ ظلم پر خاموشی نہیں، مگر حکمت کے ساتھ دفاع کیا جائے۔آج ضرورت ہے کہانٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) میں فلسطین، کشمیر، روہنگیا جیسے مقدمات دائر ہوں۔اسلامی وکلاء، ججز، اور ماہرین قانون کی عالمی ٹیمیں بنائی جائیں۔ ثقافتی سفارتکاری نبی کریم ﷺ کی دعوت میں ثقافت، زبان، ادب اور فنون کا غیر روایتی مگر موثر استعمال ملتا ہے۔آج امت کو چاہیے کہ وہ:قرآن کی خوش الحانی ،اسلامی خطاطی،اسلامی تمدن، لباس، خوراک، مہمان نوازی، تاریخ دنیا کے سامنے ایک تہذیبی دعوت کے طور پر پیش کرے۔ رحمت کا عالمی پیغام رسول اللہ ﷺ کا عالمی تعارف “رحمةً للعالمین” ہے — یہ امت کی Soft Power بن سکتی ہے۔دنیا کو یہ باور کروایا جائے کہ اسلام صرف عبادات کا نہیں، انسانیت کا دین ہے۔ قارئین: دورحاضر میں مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر مجھے محسوس ہواکہ سفارتکاری وہ میدان ہے جس پر ہمیں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔چنانچہ اس حوالے سے ہمارے پیارے آقاﷺ کی سفارتکاری بہترین مثال ہے ۔ہم نے کوشش کی کہ آپ پیاروں تک اپنے علم اور سوچ کی بنیاد پر درست اور بہتر معلومات آپ تک پہنچاسکیں ۔ہماری کوشش آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتو ہماری مغفرت کی دعاضرور کردیجئے گا۔ رابطہ نمبر:03462914283 وٹس ایپ :03112268353
|