زمین کے راز اور انسانی جستجو

اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم حاصل کرنے اور کائنات پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بار بار دعوت دیتا ہے کہ ہم زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر کریں، اور اللہ کی نشانیاں تلاش کریں:

"أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ، وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ، وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ، وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ"
(سورۃ الغاشیہ: 17-20)
"کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح پیدا کیا گیا؟ اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا؟ اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑے گئے؟ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی؟"

یہی آیات انسان کو زمین کے اندر جھانکنے کی دعوت بھی دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے: اگر ہم زمین میں مسلسل کھودتے جائیں تو کیا ہوگا؟

زمین کی گہرائیوں کی تلاش: ایک سائنسی کاوش
صدیوں سے انسان اس بات کا متجسس رہا ہے کہ زمین کے نیچے کیا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق زمین مختلف تہوں پر مشتمل ہے:
کرسٹ (crust)، مینٹل (mantle)، آؤٹر کور، اور انر کور۔
زمین کا مرکز تقریباً 6,371 کلومیٹر کی گہرائی پر ہے، لیکن آج تک ہم اس کا صرف معمولی سا حصہ ہی کھود پائے ہیں۔

▪ کولا سوپر ڈیپ بورہول (Kola Superdeep Borehole) — روس
1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے زمین کی گہرائی میں کھودنے کا ایک عظیم منصوبہ شروع کیا۔ وہ 12.2 کلومیٹر تک کھودنے میں کامیاب ہوئے — جو آج تک کی سب سے گہری کھدائی ہے۔

اہم دریافتیں:
غیر متوقع شدید گرمی (180°C)

چٹانیں جو دباؤ سے نرم پگھلی ہوئی پلاسٹک کی مانند ہو گئیں

دو ارب سال پرانے خوردبینی جرثومے

چٹانوں میں گہرائی سے پانی کا انکشاف

▪ جرمن KTB پروجیکٹ
1980 کی دہائی میں جرمنی نے 9.1 کلومیٹر تک کھدائی کی، تاکہ زلزلوں، فالٹ زونز اور زمینی ساخت کو سمجھا جا سکے۔

▪ جاپان کا چیکیُو منصوبہ
جاپان نے ایک تحقیقاتی جہاز کے ذریعے سمندر کی تہہ سے کھودنے کا آغاز کیا، اور اب تک 7.7 کلومیٹر کی گہرائی تک جا چکے ہیں۔ ان کا ہدف: زمین کی مینٹل تک پہنچنا اور زلزلوں و پلیٹ ٹیکٹونکس کو سمجھنا۔

▪ امریکہ کا پروجیکٹ موہول
1960 کی دہائی میں امریکہ نے سمندر کے نیچے مینٹل تک کھودنے کی کوشش کی، مگر فنڈز کی کمی کے باعث منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔

قرآنی روشنی میں زمین کی تہیں
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ"
(سورۃ الطلاق: 12)
"اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین سے بھی ویسی ہی (تہیں) پیدا کیں۔"

علماء کی رائے ہے کہ اس آیت سے زمین کی سات تہوں کی طرف اشارہ ہے، جو جدید سائنسی دریافتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں فرمایا:

"من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين"
(صحیح بخاری)
"جس نے ایک بالشت زمین ظلم سے لی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک پہنائے گا۔"

یہ سب واضح کرتے ہیں کہ زمین کے نیچے بھی تہ در تہ نظام موجود ہے، جس کی حقیقت مکمل طور پر صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔

سائنسی فائدے اور دینی سوچ
اگرچہ ہم زمین کے مرکز تک نہیں پہنچ سکے، لیکن ان سائنسی منصوبوں سے ہمیں یہ فائدے حاصل ہوئے:

زلزلوں اور پلیٹوں کی حرکت کو سمجھنا

گہرائی میں موجود خوردبینی مخلوقات کی دریافت

زمین کی گرمی اور اندرونی نظام کو جاننا

انسانی ٹیکنالوجی کی حدود کو آزمانا

یہ سب علم کی وہ شاخیں ہیں جنہیں اسلام تفکر و تدبر کی روشنی میں پسند کرتا ہے، بشرطے کہ انسان غرور میں مبتلا نہ ہو، اور علم کو اللہ کی نعمت سمجھے۔

اگر ہم زمین میں کھودتے جائیں، تو ہم زمین کے مرکز تک شاید نہ پہنچ پائیں، لیکن علم کے مرکز تک ضرور جا سکتے ہیں۔ زمین کے راز ہمیں اللہ کی تخلیق، اس کی حکمت، اور ہماری محدود علم کی حیثیت کا شعور عطا کرتے ہیں۔
قرآن کی رہنمائی اور سائنس کی تحقیق ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:

"وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ"
(سورۃ یوسف: 76)
"اور ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 161 Articles with 185949 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.