دنیا اس وقت ایک ایسے ماحولیاتی بحران کے نازک موڑ پر
کھڑی ہے جس کی سنگینی کا اندازہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
گلوبل وارمنگ — یعنی زمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ — اب کوئی مفروضہ
نہیں، بلکہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت بن چکی ہے۔
پاکستان، جو عالمی کاربن اخراج میں محض 0.9 فیصد کا شریک ہے، اس کے باوجود
ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 سرفہرست ممالک میں
شامل ہے(Global Climate Risk Index 2021, Germanwatch)۔
شدید گرمی اور ریکارڈ شکن درجہ حرارت:
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں گرمی کی شدت نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے
ہیں۔مئی 2024 میں جیکب آباد کا درجہ حرارت 52.2°C تک پہنچا — جو دنیا کے
گرم ترین شہروں میں شامل ہے۔ 2015 میں کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران
1200 سے زائد اموات ہوئیں، جب درجہ حرارت 45°C سے تجاوز کر گیا تھا اور شہر
میں شدید لوڈشیڈنگ تھی(NDMA, 2016)۔
سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کئی علاقے متواتر ہیٹ ویوز کی زد میں
ہیں، جب کہ مناسب پیشگی انتظامات کا فقدان لمحۂ فکریہ ہے۔
شہری ہیٹ آئی لینڈز: پوشیدہ عذاب
پاکستان کے بڑے شہر — خصوصاً لاہور، کراچی، اسلام آباد اور فیصل آباد —
ماحولیاتی اصطلاح میں اب “ہیٹ آئی لینڈز” بن چکے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف
ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے مطابق، شہری علاقوں کا درجہ حرارت دیہی علاقوں
کے مقابلے میں 2 سے 4°C زیادہ ہوتا ہے۔اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
بے ہنگم شہری پھیلاؤ
درختوں کی بے دریغ کٹائی
کنکریٹ کے ڈھانچوں میں اضافہ
گاڑیوں کی تعداد اور ایندھن کا دھواں
زراعت پر ماحولیاتی ضرب
پاکستان کی معیشت کا 19 فیصد انحصار زراعت پر ہے (Pakistan Economic Survey
2023)۔ تاہم، گلوبل وارمنگ کے سبب:
گندم، کپاس اور چاول جیسی فصلیں شدید متاثر ہو رہی ہیں
موسموں کی بے ترتیبی اور وقت سے پہلے گرمی پیداوار کو کم کر رہی ہے
ہر 1°C اضافہ گندم کی پیداوار میں 6–7٪ کمی کا باعث بنتا ہے
یہ رجحان نہ صرف دیہی معیشت کو کمزور کرتا ہے بلکہ قومی غذائی تحفظ کے لیے
بھی خطرہ ہے۔
پانی کی قلت: خاموش آفت
پاکستان 1951 میں فی کس 5,260 مکعب میٹر پانی سے مالا مال تھا۔
آج یہ مقدار گھٹ کر 850 مکعب میٹر تک آ چکی ہے — جو کہ “واٹر اسٹریس” کی
عالمی تعریف سے نیچے ہے (Pakistan Council of Research in Water Resources
- PCRWR, 2023)۔ہمالیائی اور ہندوکش کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے
ہیں۔عارضی طور پر یہ سیلاب لائیں گے؛ مگر طویل المیعاد اثرات پانی کی شدید
قلت کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔
صحت عامہ پر تباہ کن اثرات ۔۔۔ گرمی کی شدت نے صحتِ عامہ پر گہرے اثرات
ڈالے ہیں:
ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی، جلدی اور تنفسی بیماریاں عام ہو چکی ہیں
2023 میں صرف لاہور میں جون کے مہینے میں 8000 سے زائد ہیٹ اسٹروک کیسز
رپورٹ ہوئے (محکمہ صحت پنجاب)۔عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق، 2030 تا
2050 کے دوران گلوبل وارمنگ سے سالانہ 250,000 اموات کا خطرہ ہے، جن کی
بنیادی وجوہات:
ملیریا
غذائی قلت
آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں
ہیٹ اسٹروک ہوں گی
تجاویز: بچاؤ کی راہیں۔
حکومتی سطح پر:
نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 پر مؤثر عملدرآمد
گرین پاکستان پروگرام کا فروغ
ماحول دوست انفراسٹرکچر اور تعمیراتی اصولوں کی ترویج
اداروں اور معاشرتی سطح پر:
اسکول و جامعات میں ماحولیات بطور مضمون شامل کیا جائے
سول سوسائٹی، میڈیا اور مذہبی قائدین شعور اجاگر کریں
ہر شہری کو سالانہ کم از کم 5 درخت لگانے کا ہدف دیا جائے
نتیجہ: آگے کیا کرنا ہے؟
پاکستان کی بقا اب صرف معاشی ترقی یا سیاسی استحکام سے مشروط نہیں، بلکہ
ماحولیاتی تحفظ سے بھی منسلک ہے۔ اگر ہم نے اجتماعی شعور کے ساتھ بروقت
اقدامات نہ کیے، تو یہ سرزمین، جو کبھی زرخیز، سرسبز اور حسین تھی، شدید
گرمی، خشک سالی اور ناقابلِ رہائش ماحول میں تبدیل ہو جائے گی۔
گلوبل وارمنگ ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے — کیا ہم اسے نظر انداز کریں
گے یا ہوش مندی سے اس چیلنج کا سامنا کریں گے؟آیئے! ہم سب مل کر ایک سرسبز،
صاف اور پائیدار پاکستان کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
|