لاہور کا پانی اور ہماری بے خبری

لاہور کا پانی اور ہماری بے خبری

ایوان اقتدارسے

لاہور کا پانی صرف آج کا مسئلہ نہیں، آنے والی نسلوں کے بقا کا سوال ہے۔ اگر ہم نے آج بھی آنکھیں بند رکھیں، تو کل نہ صرف پانی ناپید ہو گا، بلکہ بیماریوں، ہجرت اور معاشی تباہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ وقت ہے سنجیدگی کا، عملی اقدام کا، اور اجتماعی شعور کا۔ کیونکہ اگر ہم نے پانی نہ بچایا، تو پانی ہمیں چھوڑ دے گا۔لاہور، جو کبھی دریاو¿ں، نہروں اور تازہ ہوا کی سرزمین کہلاتا تھا، آج پانی کی کمی، آلودگی اور بدانتظامی کا شکار ہے۔ شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی پھیلاو¿، زیر زمین پانی کے حد سے زیادہ استعمال اور حکومتی نااہلی نے صاف پانی کے بحران کو جنم دیا ہے۔ اگر فوری اور پائیدار اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ دہائیوں میں لاہور کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
لاہور میں روزانہ تقریباً 1.2 بلین لیٹر پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، جبکہ ریچارج (واپس زمین میں جانے والا پانی) اس سے کہیں کم ہے۔ گھریلو صارفین، صنعتیں، ہاو¿سنگ سوسائٹیز اور زراعت سبھی زیر زمین پانی کے بڑے صارف ہیں۔گھروں میں بہتے نلکے، گاڑیوں کی پائپ سے دھلائی، ناکارہ پائپ لائنز اور لیکیج جیسے عوامل پانی کے ضیاع کا سبب ہیں۔ واسا اور متعلقہ اداروں کے پاس نہ مکمل ڈیٹا ہے نہ مربوط حکمت عملی۔بہت سی صنعتیں اپنا کیمیکل ملا آلودہ پانی بغیر کسی صفائی کے زمین میں جذب کر دیتی ہیں یا نالوں میں بہا دیتی ہیں، جو زمینی پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔
مون سون کی بے ترتیبی اور بارشوں میں کمی کی وجہ سے قدرتی ریچارج کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور سموگ جیسے مسائل اب صرف خبروں کی سرخیاں نہیں، بلکہ ہر لاہوری کی سانسوں میں گھل چکے ہیں۔ ایسے میں لاہور ہائیکورٹ کی سموگ تدارک کیس کی سماعت نے بہت سے سست اداروں کو جگانے کی کوشش کی ہے۔عدالت کے ریمارکس ”واٹر میٹرز لگیں گے اور بل آئیں گے تو لوگوں کو سمجھ آ جائے گی کہ پانی ضائع نہیں کرنا“لاہور کے روزمرہ مناظر کو سامنے رکھتے ہوئے بالکل بجا ہیں۔ ہم نے پانی کو مفت کی شے سمجھ رکھا ہے۔ صبح شام نلکوں سے پائپ لگا کر گاڑیاں دھونا، گلیوں میں فٹ پاتھ دھونا، اور پینے کے صاف پانی کو غیر ضروری جگہوں پر بہانا، معمول کی بات بن چکی ہے۔
عدالت کی ہدایت ہے کہ واٹر سپرنکلرز کا استعمال یقینی بنایا جائے۔ یہ ایک چھوٹا مگر مو¿ثر قدم ہو سکتا ہے، اگر اس پر صحیح عمل درآمد ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ واسا اور پی ایچ اے جیسے اہم ادارے آپس میں تنازعات ختم کرنے کو تیار نہیں، جس کے باعث زیر زمین پانی کا مو¿ثر استعمال ممکن نہیں ہو رہا۔ اگر یہی حال رہا تو لاہور میں پانی کا مسئلہ سنگین ترین شکل اختیار کر سکتا ہے۔پی ڈی ایم اے کی فعالیت، اور سی بی ڈی کا واٹر ٹینک ایک اچھی مثال ضرور ہیں، لیکن ان کوششوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ عدالت کا واسا کی خراب مشینری پر تشویش ظاہر کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ صرف پالیسی یا ارادوں کا نہیں بلکہ عملی نالائقی اور لاپرواہی کا بھی ہے۔ٹریفک وارڈنز جیسے اداروں کی حالت بھی لاہور کے انتظامی ڈھانچے کا ایک اور چہرہ ہے۔ وہ سڑکوں پر دھوئیں، گرد اور گرمی میں کام کر رہے ہیں، اور ان کے ہیلتھ الاو¿نس پر سوال اٹھانا بالکل بجا ہے۔لاہور کے شہریوں کو بھی سوچنا ہو گا۔ کیا ہم تب ہی سدھریں گے جب میٹر لگے گا اور بل آئے گا؟ کیا ہم اس حد تک غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں کہ ہمیں سزا یا جرمانے کے بغیر بات سمجھ نہیں آتی؟یہ شہر ہمارا ہے، اس کی فضا، اس کا پانی، اور اس کا مستقبل بھی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر بیدار ہوں، ورنہ آنے والی نسلیں لاہور کو ایک”شہر عبرت“ کے طور پر یاد کریں گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر بھر میں بارش کے پانی کو زمین میں واپس لے جانے کے لیے ریچارج ویلز بنائے جائیں، خاص طور پر پارکوں، کھیل کے میدانوں اور خالی پلاٹوں میں۔ استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کر کے ٹوائلٹس، باغبانی اور صفائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ صنعتی فضلہ اور آلودہ پانی کے اخراج پر سخت مانیٹرنگ، جرمانے اور صفائی پلانٹس کی لازمی تنصیب حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔پانی کو نعمت سمجھنا ہماری اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے۔سکولوں، کالجوں، مساجد اور میڈیا کے ذریعے عوام میں پانی کے مسئلے پر شعور پیدا کیا جائے۔واسا کو جدید مشینری، تربیت یافتہ عملہ اور بہتر فیلڈ مانیٹرنگ سسٹم دیا جائے۔ ادارے کی کارکردگی کو سالانہ جانچا جائے اور ناقص کارکردگی پر سخت کارروائی کی جائے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 30 Articles with 21987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.