ایک پتھر دل کائنات

فرنینڈو پسوا کے یہ الفاظ ہوا میں لٹکے ہوؤں کو اچانک زمین پر پٹخ دینے جیسے ہیں۔ "میں نے زندگی سے بہت کم مانگا، اور اس تھوڑے سے بھی مجھ سے انکار کر دیا گیا۔" یہ کوئی شاندار المیے کا اعلان نہیں، نہ کسی بادشاہ کی تخت سے محرومی کی داستان ہے۔ یہ تو ہم جیسے عام، بے نام، بے چہرہ وجودوں کی آہ ہے جو زندگی کی بنیادی، زمینی، تقریباً حقیر سمجھی جانے والی خواہشات کے لیے بھی ترستے رہ جاتے ہیں۔ کون سی عظیم خواہشات تھیں جو پسوا کو منع ہوئیں؟ ایک قریبی کھیت کا نظارہ – ہریالی کی ایک جھلک، فطرت کے ساتھ لمحہ بھر کی یگانگت۔ سورج کی ایک کرن – وہ بنیادی روشنی اور حرارت جو کائنات مفت بانٹتی ہے۔ تھوڑا سا سکون – اندرونی ہلچل سے ذرا سی راحت۔ روٹی کا ایک ٹکڑا – بقا کی سب سے ابتدائی شرط۔ پھر وہ وجودی بوجھ سے نجات کا احساس – یہ جاننے کا کہ ہم ہیں، مگر اس جانکاری کے مہیب دباؤ میں نہ گھٹتے ہوئے۔ اور آخر میں، سماجی تعلقات کی وہ سادہ سی خواہش: نہ دوسروں سے کچھ مانگنا، نہ دوسروں کا کچھ مانگنا۔ یہ سب کچھ، یہ انتہائی بنیادی، انتہائی انسانی ضرورتیں... انکار کر دی گئیں۔ اور یہ انکار کسی ظالمانہ ارادے سے نہیں، بلکہ اس بے حسی اور سہل انگاری سے آیا جس طرح کوئی بھکاری کو خالی ہاتھ لوٹا دیتا ہے صرف اس لیے کہ اپنا کوٹ کھولنے کی زحمت گوارا نہیں کرنا چاہتا۔ یہی بے حسی، یہی "نفسا نفسی" کا عالمگیر رویہ، اس کائنات کا اصل المیہ ہے جس میں ہم سب سانس لے رہے ہیں۔

پسوا کی اس آہ میں صرف ایک فرد کی ذات کا درد نہیں سمایا ہوا؛ یہ تو جدید انسان کی اجتماعی بیگانگی (Alienation) کا مرثیہ ہے۔ ہماری دنیا، جہاں معلومات اور اشیاء کی فراوانی ہے، جہاں رابطے کے لامحدود ذرائع موجود ہیں، وہیں بنیادی انسانی جذبات اور ضروریات کی تسکین ناممکن سی ہوتی جا رہی ہے۔ ہم سب کھیت کے متلاشی ہیں مگر کنکریٹ کے جنگلوں میں قید۔ ہم سورج کی کرن چاہتے ہیں مگر مصنوعی روشنیوں کے جال میں اُلجھے ہوئے۔ ہم سکون کے متلاشی ہیں مگر ہمارے ذہن اور دل ہر لمحہ میڈیا، اشتہارات، سماجی دباؤ، معاشی خوف اور مستقبل کی فکر کے شور سے گونجتے رہتے ہیں۔ روٹی؟ ہاں، شاید جسم کی بھوک مٹ جائے، مگر روح کی بھوک، معنی کی بھوک، تعلق کی بھوک ہمیشہ سے خالی پیٹ رہ جاتی ہے۔ اور وجود کا بوجھ؟ کون ہے جو اسے محسوس نہیں کرتا؟ ہر صبح بیدار ہونا، روزمرہ کے معمولات کی بھیڑ میں دھکیلے جانا، اپنے آپ سے، اپنے کام سے، اپنے مقصد سے بیگانہ ہوتے چلے جانا – یہی تو ہے وہ "اپنے وجود کو جاننے کا دباؤ" جس سے پسوا نجات چاہتے تھے۔ ہم اس دباؤ میں سانس لیتے ہیں، اسے نارملائز کر لیتے ہیں، مگر یہ ہماری روح کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کرتا رہتا ہے۔

اور پھر وہ آخری خواہش: دوسروں سے کچھ نہ مانگنا اور دوسروں کا کچھ نہ مانگنا۔ یہ تنہائی کا اعلان نہیں، بلکہ آزادی کا خواب ہے۔ ایک ایسی آزادی جہاں انسانی تعلق رضاکارانہ ہو، جبری نہ ہو۔ جہاں ہمیں مسلسل دوسروں کی توقعات پوری کرنے، ان کی منظوری حاصل کرنے، ان کے معیارات پر پورا اترنے کی دوڑ میں نہ گھسیٹا جائے۔ جہاں ہمیں اپنی ضرورتیں، اپنی کمزوریاں، اپنا سادہ وجود بھی مانگتے ہوئے شرمندگی نہ محسوس ہو۔ مگر کیا یہ ممکن ہے؟ سماج، خاندان، دوست، رشتے دار، یہاں تک کہ اجنبی بھی – سب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ہم سے کچھ نہ کچھ مانگتا رہتا ہے: وقت، توجہ، جذبات، مالی تعاون، وفاداری، مخصوص طرز عمل۔ اور ہم خود بھی، چاہے کتنی ہی انا کی بات کیوں نہ کریں، دوسروں سے مانگتے ہیں: محبت، تفہیم، حمایت، تسلی۔ پسوا کی یہ خواہش دراصل ان سماجی جبروں سے مکمل آزادی کی خواہش ہے، جو شاید انسان کے لیے ناممکن ہے، کیونکہ ہم بنیادی طور پر سماجی وجود ہیں۔ مگر یہ ناممکنیت ہی اس خواہش کو اتنا کربناک، اتنا "دینے سے انکار" کے قابل بنا دیتی ہے۔ ہم سماجی تعلقات کے جال میں اس طرح پھنسے ہیں کہ نہ تو مکمل طور پر اس سے آزاد ہو سکتے ہیں، نہ ہی اس میں مکمل طور پر سکون پا سکتے ہیں۔

پسوا کا موازنہ ایک بھکاری کے ساتھ ایک ایسی سچائی کو بے نقاب کرتا ہے جو ہمیں چبھتی ہے۔ بھکاری کا سوال صرف چند سکے نہیں ہوتا؛ وہ ہماری انسانیت، ہماری ہمدردی، ہمارے وقت، ہماری توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کا سوال ہمارے آس پاس کے مصنوعی حفاظتی خول، ہماری "مصروفیت" اور ہماری خود غرضی کو چیلنج کرتا ہے۔ اسے نظر انداز کرنا آسان ہے کیونکہ اس کا وجود ہمیں ہمارے اپنے وجود کی غیر یقینی، ہماری اپنی ممکنہ محتاجی کی یاد دلاتا ہے۔ ہم "کوٹ کھولنے" سے گریز کرتے ہیں – یعنی اپنی آسودگی، اپنی بے فکری، اپنے تعصبات کو چھوڑنے، اپنے آپ کو کھولنے، اپنی انسانی حساسیت کو برتنے کی زحمت نہیں کرنا چاہتے۔ کائنات (یا اس کے نام پر چلنے والے نظام، تقدیر، خدا کا تصور – جو بھی ہو) ہمارے سامنے کھڑے پسوا جیسے وجود کے لیے وہی بے حس شہری بن جاتی ہے۔ اسے ہماری بنیادی ضرورتیں پوری کرنا ایسا ہی مشکل لگتا ہے جیسے ہمیں اپنا کوٹ کھولنا۔ یہ انکار ظلم نہیں، بلکہ بے عملی، بے حسی، اور ایک گہری بے چارگی اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ یہ احساس کہ کائنات کا نظام، یا سماجی ڈھانچہ، یا ہماری اپنی نفسیات ہی ایسی ہے جو ہمیں دوسروں کے بنیادی درد کو دور کرنے سے روکتی ہے، انتہائی مایوس کن ہے۔

تو کیا اس سب کے بعد امید کی کوئی کرن باقی رہ جاتی ہے؟ پسوا کا یہ اقتباس تو گہرے سیاہ سمندر میں ڈوبتے ہوئے ایک پتھر کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ مگر شاید امید کا پہلو اسی انکار کو پہچاننے میں پنہاں ہے۔ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری سادہ ترین خواہشیں بھی کس قدر مشکل سے پوری ہو پاتی ہیں، تب ہی شاید ہم ان کی قدروقیمت کو سمجھنے لگتے ہیں۔ شاید وہ پل جب کھیت کی ہریالی نظر آ جائے، سورج کی کرن چہرے کو چھو لے، روٹی کے ساتھ ساتھ ذہن کو تھوڑا سکون مل جائے، یا کوئی ایسا لمحہ آ جائے جب ہمیں دوسروں کے بوجھ تلے نہ دبا ہوا محسوس ہو – یہی لمحے اس تاریک پس منظر میں چمکنے والے ہیرے بن جاتے ہیں۔ شاید آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی مانگے ہی نہ، بلکہ یہ کہ ہم دینے اور لینے کے جبر سے آزاد ہو کر، اپنی مرضی سے، اپنی انسانی حساسیت کی بنیاد پر، دوسرے انسانوں سے ربط قائم کر سکیں۔ شاید "کوٹ کھولنے" کی ذرا سی کوشش – اپنی بے حسی کو چیلنج کرنا، کسی دوسرے کی بنیادی ضرورت کو پہچاننا اور اگر ممکن ہو تو پورا کرنے کی کوشش کرنا (چاہے وہ ایک مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو، ایک کان ہی کیوں نہ ہو جو سنے) – ہی اس کائناتی بے حسی کے خلاف ہماری چھوٹی سی لیکن حقیقی بغاوت ہو سکتی ہے۔

فرنینڈو پسوا کی یہ آہ صرف اس کی اپنی نہیں۔ یہ ہر اس انسان کی آہ ہے جو خود کو اس وسیع و عریض کائنات میں تنہا، بے یارومددگار، بنیادی سہولیات سے بھی محروم اور سماجی توقعات کے بوجھ تلے کچلا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے وجود کا نوحہ ہے جو زندگی کے سادہ ترین تحائف کے لیے بھی ترس گیا۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خوشی کبھی کبھار عظیم کامیابیوں میں نہیں، بلکہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پنہاں ہوتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتیں، جن کے لیے ہم شکر گزار نہیں ہوتے، جنہیں زندگی ہم سے چھین لے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم کس قدر غریب ہو چکے ہیں۔ پسوا کا یہ انکار ہمارے اپنے وجود کے انکار کی طرف اشارہ ہے۔ اور شاید، صرف شاید، اس انکار کو پہچان لینا، اس پر سوچ بچار کرنا، اس درد کو محسوس کرنا ہی پہلا قدم ہے اس بے حسی کو توڑنے کی طرف، جس نے ہمیں اور ہماری کائنات کو ایک ایسے بھکاری میں تبدیل کر دیا ہے جو اپنے ہی گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور اندر سے کوئی آواز آتی ہے، "آج نہیں پڑوسی، کل آنا۔" مگر کل کب آتا ہے؟ اور کیا وہ کل کبھی اس بھکاری کے لیے روشنی، سکون، روٹی، اور اپنے وجود کے بوجھ سے ذرا سی راحت لے کر آئے گا؟ پسوا کا سکوت شاید اسی سوال کا جواب ہے۔
 

فیصل رضا
About the Author: فیصل رضا Read More Articles by فیصل رضا: 21 Articles with 6336 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.