امتِ مسلمہ: بیداری کی گھڑی اور ہماری ذمہ داری
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, Islamabad)
|
عنوان: امتِ مسلمہ: بیداری کی گھڑی اور ہماری ذمہ داری تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
امتِ مسلمہ آج ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ وہ قوم جو کبھی علم و حکمت، عدل و انصاف اور طاقت و عظمت کی علامت تھی، آج اپنے ہی وجود کے بحران سے دوچار ہے۔ الحمد للہ ہم اس امت کا حصہ ہیں جس نے دنیا کو تہذیب سکھائی۔ دمشق اور قاہرہ علم و حکمت کے ایسے مراکز تھے جہاں سے دنیا روشنی حاصل کرتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں نے طب، فلکیات، ریاضی اور کیمیا میں ایسے کارنامے انجام دیے جن کی مثال نہیں ملتی۔ مسلم امہ نے کبھی اسپین سے لے کر ہندوستان تک علم کی شمعیں روشن کیں۔ بغداد اور قرطبہ کے مکتبے دنیا بھر کے طالب علموں کے لیے مرکزِ علم تھے۔ ابنِ سینا، الرازی، الخوارزمی جیسے سائنسدانوں نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی۔ صلاح الدین ایوبی جیسے جرنیلوں نے باطل قوتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کا درس دیا۔ہماری مساجد صرف عبادت گاہیں نہیں تھیں بلکہ درسگاہیں بھی تھیں جہاں سے لاکھوں تشنگانِ علم سیراب ہوتے تھے۔ لیکن آج؟ ہم علم سے دور، تحقیق سے بے بہرہ اور اتحاد سے محروم ہیں۔ عدل و انصاف ہمارا شعار تھا، اخوت اور بھائی چارہ ہماری پہچان تھی۔ اغیار بھی معترف ہیں کہ ہماری تاریخ شاندار ہے، ہمارے اسلاف نے دنیا کو روشنی دی، لیکن آج ہم خود تاریکی میں بھٹک رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اس غفلت کی نیند سوئے رہیں گے؟ کب ہماری آنکھیں کھلیں گی؟ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اپنی فکری، اخلاقی اور عملی غفلت کو ترک کیا، شعور و بیداری کی راہ اپنائی اور اپنی اقدار کو زندہ کیا تو وہ دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہوئی۔ لیکن افسوس! آج امتِ مسلمہ، جسے قرآن مجید میں"خیرِ امت" کہا گیا ہے، گہری نیند میں سوئی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اے امتِ مسلمہ! تو کب جاگے گی؟ آج ہماری آبادی تقریباً دو ارب سے زائد ہے، وسائل کی کوئی کمی نہیں، معدنی ذخائر، تیل، گیس، زرخیز زمینیں، نوجوان افرادی قوت، سب کچھ موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلمان قوم عالمی سطح پر مظلوم، محکوم، منتشر اور غیر مؤثر دکھائی دیتی ہے۔ امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی کمزوری اس کی آپس کی تقسیم ہے۔ قومیت، فرقہ بندی اور علاقائی تعصبات نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ حالانکہ قرآن ہمیں "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا" (اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو) کی تعلیم دیتا ہے۔ مسلم امت نے جب تک علم، تحقیق اور اجتہاد کو اپنایا، وہ ترقی کرتی رہی۔ لیکن جیسے ہی امت نے علم کی جگہ جمود اور غفلت شعاری کو اختیار کیا، وہ پیچھے رہ گئی۔ دیانت، صداقت، عدل، خدمتِ خلق، اور اخوت جیسے اسلامی اوصاف آج ہمارے معاشروں سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ جھوٹ، کرپشن، ظلم اور مفاد پرستی نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ امت کو ایسی قیادت نصیب نہیں جو نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے امت کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکے۔ اکثر مسلم حکمران عیاشیوں اور صرف اپنے اقتدار کی بقا میں مصروف ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ ہمیں اجتماعی طور پر کچھ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہر فرد اور ہر قوم کو اپنی غلطیوں کا ادراک کرنا ہوگا۔ آج ہر دردمند مسلمان کے دل میں اتحاد امت کا نعرہ گونج رہا ہے۔ یہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک پکار ہے، ایک فریاد ہے، ایک التجا ہے کہ امتِ مسلمہ اپنی موجودہ غفلت کی چادر اتار پھینکے اور اپنی عظمت رفتہ کو پہچانے۔ ایک وہ وقت تھا جب یہ امت دنیا کی رہبری اور قیادت کی علمبردار تھی، اور ایک آج کا دن ہے جب یہ امت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، بے سمت اور اغیار کے رحم و کرم پر ہے۔ فلسطین میں مظلوموں کی چیخیں، کشمیر میں بے بسی کا عالم، ایران پر اسرائیل کا حالیہ حملہ اور وحشیانہ بمباری۔ دیگر اسلامی ممالک کو دیکھیں تو وہاں بھی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بد انتظامی ہے۔ ہم آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ غیر مسلم اقوام ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم تماشا دیکھ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ امت جو کبھی دنیا پر راج کرتی تھی، آج اس قدر بے حس ہو چکی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے نمایاں دین سے دوری؟ ہم نے قرآن و سنت کے حقیقی پیغام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہمارا دین محض رسم و رواج بن کر رہ گیا ہے، جبکہ اس کی تعلیمات میں ہر شعبہ زندگی کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ جب تک ہم قرآن کو مضبوطی سے تھامے نہیں رکھیں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنا رہنما نہیں بنائیں گے، تب تک ہماری حالت نہیں بدلے گی۔علم سے بیزاری؟ ایک وہ وقت تھا جب علم مسلمانوں کی میراث تھا، مگر آج ہم نے علم کی قدر کھو دی ہے۔ جدید علوم سے دوری اور تحقیق و جستجو کا فقدان بھی ہماری پسماندگی کی بڑی وجہ ہے۔ ہمیں دینی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت حاصل کرنی ہوگی تاکہ ہم ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکیں۔ ہمارے درمیان اتحاد و یگانگت کا فقدان ہے جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں ایک امت بنایا تھا مگر ہم نے خود کو ہزار ٹکڑوں میں تقسیم کر لیا۔ ہمیں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ قیادت کا بحران؟ امتِ مسلمہ کو ایسی قیادت کی اشد ضرورت ہے جو بصیرت افروز ہو، خود غرضی سے پاک ہو اور امت کے حقیقی درد کو سمجھتی ہو۔ جب تک صحیح رہنمائی میسر نہیں ہوگی، امت اپنی منزل نہیں پا سکے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ امت پھر سے بیدار ہو؟ جی ہاں، بالکل ممکن ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ ہمیں تحقیق و جستجو کی روح کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا تاکہ ہم دنیا کو نئی راہیں دکھا سکیں۔ اخوت و محبت کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا ہوگا اور مظلوموں کا ساتھ دینا ہوگا۔ ہمیں دین کے بنیادی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اجتہاد کا دروازہ کھولنا ہوگا تاکہ آج کے جدید مسائل کا اسلامی نقطہ نظر سے حل پیش کیا جا سکے۔ جب تک ہم اقتصادی طور پر دوسروں پر انحصار کرتے رہیں گے، ہماری آزادی اور خود مختاری خطرے میں رہے گی۔ ہمیں مضبوط معیشتیں قائم کرنی ہوں گی جو ہماری ضروریات کو پورا کر سکیں۔ اے امتِ مسلمہ! وقت آ گیا ہے کہ تو اپنی بے حسی کو توڑے اور اپنی حقیقی پہچان کو جانے۔ تیرے اسلاف نے تاریخ رقم کی ہے اور تو بھی یہی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امتِ مسلمہ کے پاس وسائل، آبادی، اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ ضرورت صرف عزم، ہمت، اور اللہ پر توکل کی ہے۔ اگر ہم آج بیدار ہو جائیں، تو کل تاریخ ہمیں دوبارہ عظمت کی منزل پر فائز دیکھے گی۔ جیسا کہ بھارت کے خلاف پاکستان نے معرکہ بنیان مرصوص میں شاندار کامیابی حاصل کی اور ایران نے اسرائیل کی جارحیت کے جواب میں حوصلہ دکھایا، ویسے ہی پوری امت کو متحد ہو کر ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا ورنہ طاغوتی طاقتیں ایک ایک کر کے تختہ مشق بنایا رہی ہیں اور آئندہ بھی بناتی رہیں گی۔ |