خود کو بہتر بنائیں
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
|
جون 2025 کی ایران اسرائیل جنگ نے دنیا پر ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ کسی قوم کی اصل کمزوری اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی کمی، ٹیکنالوجی یا فوجی سازوسامان میں نہیں ہوتی، بلکہ اس کی جڑیں اُس کی داخلی حالت میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس جنگ کے ابتدائی لمحات میں ہم نے دیکھا کہ ایران کو کئی نامور سائنس دانوں، فوجی جرنیلوں اور سیاسی رہنماؤں کی قربانی دینا پڑی۔ ابتدا میں دشمن کو ایران کی صفوں میں موجود غداروں، جاسوسوں اور نظریاتی طور پر بکھرے عناصر نے فائدہ پہنچایا۔
لیکن حیرت انگیز طور پر ایران محض چند گھنٹوں میں سنبھل گیا، اپنی صفوں کو درست کیا، اور دنیا کو یہ سبق دے گیا کہ کوئی قوم ظاہری طور پر کتنی ہی مضبوط ہو، اگر اندرونی کمزوری موجود ہو تو دشمن اُس کا فائدہ اٹھا لیتا ہے، اور اگر اندرونی استقامت پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کر سکتی۔ قرآنی اصول: تبدیلی ہمیشہ اندر سے شروع ہوتی ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔'' (سورۃ الرعد: 11)
امام رازیؒ لکھتے ہیں: "قوموں کی عزت یا ذلت کا دارومدار ان کی ظاہری طاقت یا ساز و سامان پر نہیں بلکہ ان کی داخلی حالت، اخلاق اور نظریاتی یکجہتی پر ہے۔"
ایران کے داخلی مسائل، بے راہ رو افراد اور نظریاتی کمزوریوں نے دشمن کو موقع فراہم کیا، مگر جب قوم نے خود احتسابی کی اور اندرونی صفوں کو درست کیا، تب جا کر خارجی دشمن پر قابو پایا جا سکا۔ یہی اصول فرد، معاشرے اور ملک، سب پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔
انسان کی زندگی میں مثبت سوچ، روشن نگاہ اور دل میں خیر کا جذبہ داخلی استحکام کی بنیاد ہیں۔ نفسیات کے مشہور ماہر ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل اپنی شہرۂ آفاق کتاب "The Power of Positive Thinking" میں لکھتے ہیں: "مثبت سوچ ایک ایسا ہتھیار ہے جو انسان کو مایوسی، کمزوری اور شکست خوردگی سے نکال کر امید، طاقت اور کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس داخلی کیفیت کی اصلاح کو سب سے مقدم قرار دیا ''بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔'' (صحیح بخاری، حدیث: 6064) یعنی انسان کی سوچ اور نیت اگر صاف ہو، تو اُس کی زندگی، تعلقات اور معاشرہ خود بخود بہتر ہو جاتا ہے۔
مشہور اسلامی مفکر علامہ ابن القیمؒ لکھتے ہیں: "جو دل حسنِ ظن، خیرخواہی اور محبت کی روشنی سے منور ہو جاتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں سکون اور کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے، کیونکہ اس میں نفرت، حسد اور بغض کی تاریکی باقی نہیں رہتی۔" (مدارج السالکین، جلد 2، صفحہ 480)
ایران کی حالیہ جنگ کا یہی عملی سبق تھا کہ دشمن کی گولہ باری سے زیادہ نقصان غداروں، جاسوسوں اور نظریاتی بکھراؤ نے پہنچایا۔ یہی اصول ہر فرد اور معاشرے پر لاگو ہوتا ہے۔ جب انسان اندر بدگمانی، نفرت اور حسد پیدا ہو جائے تو وہ خود اپنے وجود کو کمزور کرتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی آنکھوں کو ان چیزوں پر مرکوز رکھے جو امید، روشنی اور مثبت سوچ پیدا کریں۔ اپنے دل میں دوسروں کے لیے بھلائی، خیرخواہی اور محبت کے جذبات رکھے۔ اپنی سوچ کو منفی پہلو، شکایت اور بدگمانی کی بجائے اصلاح، ہمدردی اور تعمیر کی طرف لے جائے۔ یہ وہ معرکہ ہے جو بیرونی معرکہ جیتنے سے پہلے اندرونی طور پر جیتنا لازم ہے
دنیا کی کوئی فوج، معاہدہ یا طاقت اس وقت تک کسی قوم کو محفوظ نہیں بنا سکتی جب تک اُس کے افراد اندر سے کمزور، منتشر اور بدظن ہوں۔
|
|