بنت جنت
(منتظرِ کُن مہدی حسن, Karachi)
والدہ
مجھے بنتِ جنت (میری ماں) نے بگاڑا ہے میری والدہ بہت زیادہ پڑھی لکھی خاتون نہیں تھیں انہیں صرف قرآن پاک اور لوگوں کی آنکھوں میں چھپے جزبات پڑھنا آتے تھے۔انتہائی سادہ خاتون تھیں وہ اتنی سادہ کہ بھوک پیاس برداشت کر کے ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرنا اور کبھی خاوند کو کسی بھی قسم کی کمی کی شکایت نہ کرنا۔اتنی سادہ خاتون کی اگر کوئی عورت ان کے ساتھ زیادتی کر کے چوکھٹ پر آجائے تو ایسا پرجوش استقبال کرتی تھیں گویا یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کو علم ہی نہیں جو کچھ برائی ان کے ساتھ ہو چکی ہے۔ اتنی سادہ خاتون جنہیں یہ بھی علم نہی تھا کہ کام کرنے کے بعد تھکنا بھی ہوتا ہے۔ انہیں یہ معلوم نہی تھا کہ بہو کی برا رویہ بیٹے کو بھی بتانا ہوتا ہے تاکہ اس کو سچائی معلوم ہو سکے۔ انہیں لگتا تھا کہ میرا شوہر کا گھر ہی میرا گھر ہے میرے بچے ہی میرا سب سرمایا ہیں۔ ان کو علم نہی تھا کہ کیسے شوہر کو اس کی کم آمدنی کا احساس دلانا ہے بلکہ خود محنت کرتی اور دن رات بچیوں کا جہیز اکٹھا کرتی تھی تاکہ شوہر کو surprise دوں اور وہ خوش ہو جائے۔ اتنی سادہ کہ مار کھا کر بھی کمرے سے مسکرا کر نکلتی تھی تاکہ شریکہ مذاق نہ اڑاسکے۔ میکے میں ہمیشہ اچھا لباس اور مسکرا کر جاتی تھی تاکہ ان کے بہن بھایئوں کو اندورنی غریبی کا احساس نہ اور شوہر کی عزت بنی رہے۔ بہت سادہ خاتون تھی بروز جمعہ محلے کی عورتوں کو جمع کر کے صلوات تسبیح پڑھایا کرتی تھیں۔ سادگی کا عالم یہ تھا کہ کھانا پہلے بنا کے رکھنا نہی آتا تھا بلکہ ہمیشہ شوہر کو کھانا تازہ اور گرم دیتی چاہے جون جولائی کی سخت دھوپ ہو یا دسمبر میں نفلی روزے کے لیے آدھی رات کو سحری بنانا۔ گاؤں میں گیس نہی تھی دو تین گھنٹے پہلے اٹھ کر ٹھنڈے چولہے میں آگ جلانے لگتی تھی۔ انسان تو دور جانوروں کا اتنا احساس کے اکثر ہماری آنکھ نہی کھلتی تھی یا دوپہر کو کھیلنے چلے جاتے تو رو پڑتی کہ بھوکا جانور اللہ سے شکایت کرتا ہے انکو پانی پلاتیں چارہ ڈالتی۔ پھر اپنے ہاتھ دکھاتی تھی کہ ان میں درد رہتا ہے۔ اور میں اتنا بد نصیب مجھے لگتا تھا دنیا کی ہر عورت بغیر احسان جتائے یہ سب کام کرتی ہے۔ اتنی سادہ کہ ساس اور نند کے رشتے کا علم ہی نہی بلکہ شوہر غصّے کے تیز تھے تو ان کو سمجھاتی تھیں کہ اپنی والدہ سے اپنی بہنوں سے اچھا سلوک کیا کریں۔ بہن بیٹی گھر سے کبھی خالی ہاتھ نہ جائے، استطاعت سے زیادہ پیسے یا کپڑے دے کر رخصت کرنا۔ خواب میں بھی کسی مردہ کو دیکھ لیں تو ایک کپڑوں کا جوڑا غریبوں میں بھجوا دیتی تھیں۔ کوئی گھر میں داخل ہوتا تو دور سے استقبال کرتیں۔ ہر انسان کو فرداً فرداً محبت کرتی۔ اتنی سادہ کہ اگر معلوم ہو جائے کہ فلاں انسان یتیم ہے چاہے جوان ہی کیوں نہ جذباتی ہو جاتی تھیں۔بیٹوں کی اس انداز سے تربیت کرتیں کہ بھائی باہر سے آئے تو سب سے پہلے کھانے دو۔ ہر وقت بھائیوں کے کپڑے دھلے اور تیار ملیں۔ صفائی اور سلیقہ شعار اتنی کا عید کو رات جاگ کر کچے گھروں میں لپائی کیا کرتیں تھیں تاکہ عید کی صبح غریب گھر سے امیری کی خوشبو مہکے۔ میکے جاتی تو اپنی بھا بھیوں کے آدھے کام اپنے ذمہ لے لیتی۔ اکثر کہا کرتی تھیں کہ کام کہ وجہ سے ہی انسان کی عزت بنتی ہے کام سے کبھی مت گھبرانا۔ سخاوت اس قدر کی کبھی بچوں سے پیسے نہ مانگے اگر میں کبھی دے دیتا تو کہتی تمہیں ضرورت ہونگے اپنا خیال نہی رکھتے۔کبھی کسی اولاد کو یا کسی بھی شخص کے لیے بد دعا طعنہ یا برے الفاظ نہی کہے۔ اتنی سادہ کہ نماز پڑھتی تو دو نفل ماں باپ کے نام دو نفل استاذہ کے نام اور پتا نہ کا کس کے نام کے نفل پڑھتی۔ انہوں نے میرے سامنے ایک ایسی اعلیٰ ظرف خاتون کا عملی کردار پیش کیا کہ مجھے لاشعوری طور پر یہ محسوس ہوا کہ ماں یا ایک عورت ایسی ہی ہوتی ہے مگر میری زندگی میں آئی ہر ایک عورت نے چاہے وہ کسی بھی شکل کسی بھی رشتے میں ہو یہ احساس دلایا کہ وہ بنتِ جنت ایک ہی خاتون تھیں جنہوں نے مجھے حقیقت سے دور رکھ کر بگاڑ دیا ہے۔
بستی نہی خدائ اب میرے مکان میں مدت ہوئی ہے ماں کی مجھے زیارت کیے ہوئے از قلم: منتظر کن مہدی حسن
|