"صحرا میں برف بنانے کا ہنر" تاریخ کے جھروکوں سے

ماضی میں صحرائی لوگ گرمی کی شدت کا مقابلہ کیسے کرتے تھے، اس پر چشم کشا معلومات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش حاضر خدمت ہے!
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
تاریخ کے جھروکوں سے جھانکیں تو انسان کی اختراعی سوچ ہمیشہ حیران کن رہی ہے۔ جدید دنیا میں جب ہم ریفریجریٹر، فریزر اور ایئر کنڈیشنر کے محتاج ہو چکے ہیں، اُس وقت ایک لمحے کے لیے یہ تصور کیجیے کہ دو ہزار چار سو سال پہلے، نہ بجلی تھی، نہ گیس، نہ ہی کوئی مصنوعی ٹھنڈک پیدا کرنے والا نظام، لیکن پھر بھی قدیم فارسی سلطنت نے صحراؤں کے بیچوں بیچ ہزاروں ٹن برف بنانے، اسے مہینوں تک محفوظ رکھنے اور گرمیوں میں استعمال کرنے کا حیرت انگیز حل دریافت کر لیا تھا۔ اس حیرت انگیز تعمیراتی ایجاد کو یخچل (Yakhchal) کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے "برف کا گڑھا"۔
یخچل فارسی انجینئرنگ کا ایک شاہکار تھا، جو ماحولیاتی ہم آہنگی اور سادہ مگر مؤثر سائنسی اصولوں پر مبنی تھا۔ اس کا گنبد نما ڈھانچہ زمین کے اوپر نمایاں ہوتا، جبکہ اس کے نیچے گہرائی میں ایک وسیع ذخیرہ خانہ (cold storage chamber) ہوتا۔ یہ گنبد اکثر 15 سے 20 میٹر اونچا ہوتا، اور اندرونی ذخیرہ گاہ زمین کی سطح سے 5 سے 6 میٹر نیچے تک جاتی تھی۔
گنبد کی دیواریں ایک خاص قسم کے مواد سے تیار کی جاتی تھیں جسے "سرُوج" کہا جاتا تھا۔ یہ مٹی، راکھ، انڈے کی سفیدی، گائے کے بال، اور چونا ملا کر تیار کی جاتی تھی، جو اسے حرارت سے محفوظ رکھنے والا زبردست موصل (insulator) بناتی تھی۔ یہ دیواریں کئی فٹ موٹی ہوتی تھیں اور سورج کی شدید تپش کو اندر داخل نہیں ہونے دیتی تھیں۔
یخچل کے مکمل نظام کی بنیاد قدرتی پانی کے ذرائع پر تھی۔ موسم سرما کے دوران جب ایران کے شمالی اور مغربی علاقوں میں پہاڑوں کی برف پگھلتی، تو یہ پانی نہروں اور چھوٹے کنوؤں کے ذریعے یخچل تک پہنچایا جاتا۔ ان نہروں کو اس انداز سے ڈیزائن کیا جاتا تھا کہ پانی کا بہاؤ آہستہ ہو، تاکہ پانی ٹھنڈا رہے اور جلد جم جائے۔ بعض یخچل ایسے مقامات پر بنائے جاتے جہاں رات کے وقت درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جاتا، جو برف بنانے کے عمل کے لیے قدرتی ماحول فراہم کرتا تھا۔
یخچل کے اندر موجود چھوٹے تالاب یا ذخیرہ گاہیں رات کے وقت پانی سے بھری جاتیں۔ صحرا میں دن کے اوقات اگرچہ شدید گرم ہوتے ہیں، لیکن راتوں کا درجہ حرارت نہایت کم ہو جاتا ہے، یہی وہ لمحہ ہوتا تھا جب قدرتی انجماد کا عمل شروع ہوتا۔ سرد راتوں کی مدد سے پانی آہستہ آہستہ جم جاتا، اور اگلی صبح اسے بڑی احتیاط سے کاٹ کر گہرے تہہ خانے میں منتقل کیا جاتا۔یہ عمل پورے موسم سرما میں مسلسل جاری رہتا۔ ہر رات پانی جما کر اسے محفوظ کیا جاتا، حتیٰ کہ ایک مکمل تہہ خانہ برف سے بھر جاتا۔ بعض یخچل کئی سو ٹن برف ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
برف کو ذخیرہ کرنے کے لیے یخچل کی اندرونی ساخت میں قدرتی وینٹیلیشن (ہوا کی آمد و رفت) کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ یہ ہوا باہر سے اندر کی نسبت ٹھنڈی ہوتی، اور یوں برف زیادہ دیر تک منجمد رہتی۔ اس کے علاوہ بعض یخچلوں کے اطراف میں لمبی دیواریں بنائی جاتی تھیں جو سورج کی روشنی کو تالابوں تک پہنچنے سے روکتی تھیں۔
یخچل کا نچلا حصہ زمین کے اندر ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر ٹھنڈا رہتا تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں برف کے بڑے بڑے بلاکس محفوظ کیے جاتے تھے، اور درجہ حرارت طویل عرصے تک منفی سطح پر برقرار رہتا تھا۔
جب گرمی اپنے عروج پر ہوتی، تو یہی یخچل عوام کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوتے۔ یہاں سے نکالی گئی برف نہ صرف شاہی محلوں میں شربتوں اور مشروبات کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال ہوتی، بلکہ عام لوگوں کو بھی معقول قیمت پر مہیا کی جاتی۔ بعض علاقوں میں اس برف سے دوائیں محفوظ رکھی جاتیں، اور بخار یا جُھلسنے کے علاج کے لیے برف کا استعمال کیا جاتا تھا۔
یہ بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بعض شاہی جشن یا تہواروں کے لیے خصوصی یخچل استعمال کیے جاتے تھے، جہاں سے برف نکال کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کی جاتی۔
یخچل صرف ایک تاریخی ورثہ یا تعمیراتی فن کا مظہر نہیں، بلکہ یہ ہمیں پائیدار ترقی (Sustainable Development) کا عملی سبق بھی دیتا ہے۔ آج جب دنیا توانائی کے سنگین بحران، موسمیاتی تبدیلی، اور عالمی حدت جیسے مسائل سے دوچار ہے، تو یخچل جیسے روایتی حل ہمیں سکھاتے ہیں کہ کس طرح ہم قدرتی وسائل کا سمجھداری سے استعمال کر کے ماحول دوست نظام قائم کر سکتے ہیں۔
ایران میں آج بھی کئی قدیم یخچل اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں، جو سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام اور ماہرین ماحولیات کے لیے تحقیق کا میدان ہیں۔ ایران کے شہر کرمان، یزد، اور کاشان میں موجود یخچل آج بھی اپنی گواہی دے رہے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے انسان فطرت سے ہم آہنگ ہو کر کیسے زندگی کو سہل بناتا تھا۔
یخچل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانی عقل اگر فطرت کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے، تو وہ کسی بھی ماحول میں سہولیات پیدا کر سکتی ہے۔ صحرا میں برف بنانا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے، لیکن فارسی قوم نے اسے ممکن بنا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ آج کی جدید دنیا کو ایسے ہی سادہ، مؤثر اور ماحول دوست حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے، شاید یہی ماضی کا علم، ہمارا مستقبل بچا سکے۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 112 Articles with 77610 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.