GMT اور وقت بیچنے والی خاتون "مسز گرین وچ"

وقت کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، ازل سے ابد تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، ماضی میں وقت کی اہمیت ،پوچھنے پر قیمت کی ادائیگی ہوتی تھی لیکن گزرتے وقت کا کسی کو احساس نہیں 🤔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
ہم روزانہ کئی بار گھڑی دیکھتے ہیں، موبائل پر وقت چیک کرتے ہیں، کمپیوٹر کی سکرین پر لمحہ بہ لمحہ گزرتے وقت کو محسوس کرتے ہیں، اور یہ سب کچھ ہمارے لیے بالکل مفت ہوتا ہے۔ مگر کبھی آپ نے یہ سوچا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا، جب لوگوں کو صرف یہ جاننے کے لیے کہ "ابھی کتنے بجے ہیں"، پیسے دینے پڑتے تھے؟
نہ یہ کوئی مذاق ہے، نہ فرضی قصہ۔ یہ گرین وچ کی وہ حیرت انگیز مگر حقیقی کہانی ہے جو وقت کی قدر و قیمت کا عملی ثبوت ہے۔ اور اس کہانی کی مرکزی کردار تھیں "مسز گرین وچ" ، وہ خاتون جنہوں نے حقیقتاً "وقت بیچا"!
یہ کہانی ہے اس وقت کی جب وقت بتانا بھی ایک کاروبار تھا!انیسویں صدی کے آغاز کی بات ہے۔ یہ وہ دور تھا جب جیب میں گھڑی رکھنا صرف اشرافیہ کا شوق تھا۔ عام آدمی تو وقت کا محتاج رہتا تھا۔
اس وقت لندن کے مشہور قصبے گرین وچ میں اگر کسی کو وقت معلوم کرنا ہوتا تو وہ کسی دیوار پر نصب گھڑی کی تلاش نہیں کرتا بلکہ سیدھا ایک مخصوص مکان کا رخ کرتا۔ یہ مکان ایک عورت کا تھا جنہیں سب لوگ احترام سے "مسز گرین وچ" کہتے تھے۔یہ خاتون اپنی کھڑکی کے پیچھے کھڑی ہوتیں، ایک مخصوص گھڑی ان کے ہاتھ میں ہوتی، اور جب کوئی ان سے وقت پوچھتا تو وہ گھڑی دیکھ کر وقت بتاتیں اور بدلے میں کچھ پیسے لیتی تھیں۔
یہ صرف ان کا ذاتی شوق نہیں تھا، بلکہ ایک خاندانی پیشہ تھا۔ ان کے بزرگ بھی یہی کام کرتے آئے تھے۔ وہ نسل در نسل "وقت بتانے" کا کاروبار کرتے چلے آ رہے تھے۔ لوگوں کی زندگی کا انحصار اسی گھڑی پر ہوتا، خاص طور پر تاجر، مزدور، اسکول جانے والے بچے، اور حتیٰ کہ ریلوے ملازمین تک، سب وقت جاننے کے لیے اسی دروازے پر دستک دیتے۔مسز گرین وچ، وقت کی نگہبان تھی، یہ پیشہ کوئی چند سال نہیں بلکہ تقریباً ڈیڑھ صدی تک جاری رہا۔
مسز گرین وچ نے اس روایت کو اس وقت تک نبھایا، جب تک کہ 1943 میں دنیا بدل نہیں گئی۔تب تک گھڑیاں ہر شخص کی کلائی پر بندھ چکی تھیں، سستے گھڑی ساز آ چکے تھے، اور وقت جاننے کے لیے کسی دروازے پر جانا ضروری نہیں رہا تھا۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عورت نے تنہا ڈیڑھ صدی کے معاشرے کو "وقت" مہیا کیا اور یہ محض وقت نہیں، بلکہ زندگی کی ترتیب، نظم، اور نظام تھا۔
جب وقت بتانے کی ذمہ داری ایک فرد پر ہو، تو غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ مسز گرین وچ نہ صرف وقت بتاتیں، بلکہ اپنی گھڑی کو ہر روز گرین وچ رصدگاہ (Observatory) کے وقت سے ہم آہنگ کرتیں، تاکہ کوئی فرق نہ رہے۔
گرین وچ ، دنیا کے وقت کا مرکز ہے ، گرین وچ صرف ایک قصبہ نہیں بلکہ وقت کی دنیا کا نقطہ آغاز ہے۔ یہاں سے نکلتی ہے وہ فرضی لکیر جسے دنیا گرین وچ مین ٹائم (GMT) کہتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے دنیا بھر کے وقت کو ناپنے کا عالمی نظام شروع ہوتا ہے۔ GMT کو زیرو ٹائم زون کہا جاتا ہے، یعنی پوری دنیا کے ممالک اپنے وقت کا حساب اسی GMT کے مطابق آگے یا پیچھے کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر مراکش / اسپین = GMT+0 (یہی اصل وقت) پاکستان = GMT+5 (اگر مراکش میں رات 12 بجے ہوں، تو پاکستان میں صبح کے 5 بجے ہوں گے) آسٹریلیا = GMT+10 (رات 10 بج رہے ہوں گے) کینیڈا / امریکہ = GMT-5 (ابھی شام 7 بجے ہوں گے)
اس نظام نے دنیا کے اوقات کو ایک ترتیب دی، ہوائی جہازوں کی پروازیں، بین الاقوامی اجلاس، عالمی نشریات، سب اسی وقت کے نظام پر منحصر ہیں۔
وقت جو کبھی بکتا تھا، آج بے قیمت ہو چکا؟ مسز گرین وچ کی کہانی ہمیں ماضی کا ایک انوکھا منظر دکھاتی ہے، جب وقت کی اتنی اہمیت تھی کہ لوگ اسے "خریدتے" تھے۔
آج ہم گھنٹوں موبائل اسکرین پر بیٹھے رہتے ہیں، سوشل میڈیا پر "وقت گزار دیتے ہیں"، اور کبھی کبھی سوچتے بھی نہیں کہ ہم نے کتنا قیمتی وقت ضائع کر دیا! کبھی جو وقت صرف چند سیکنڈ کے بدلے پیسے لے کر بتایا جاتا تھا، آج وہی وقت ہماری مٹھی میں بند ہے لیکن ہم نے اسے سنبھالنا چھوڑ دیا ہے۔
وقت کا سودا اب بھی جاری ہے! مسز گرین وچ وقت "بیچتی" تھیں، اور لوگ "خریدتے" تھے لیکن آج وقت چپ چاپ "چوری" ہو جاتا ہے کبھی نیند میں، کبھی سکرولنگ میں، کبھی فضول باتوں میں۔
اصل سوال یہ ہے کہ
آج بھی وقت کی قیمت ہے، مگر کیا ہم اسے چکانے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم وقت کی قدر صرف اس وقت کریں گے، جب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا؟
یہ کہانی صرف ایک عورت کی نہیں، بلکہ ہم سب کے طرزِ زندگی کا آئینہ ہے۔ وقت ہمیشہ قیمتی تھا، قیمتی ہے، اور قیمتی رہے گا بس اسے جاننے، ماننے اور سنبھالنے والا چاہیے۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 117 Articles with 78309 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.