جدید عالمی چیلنجز اور پاکستان کی معاشی بصیرت

ایوان اقتدارسے

دنیا اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی کشیدگی، یوکرین جنگ کا تسلسل، تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے ترقی پذیر ممالک کے لیے نئی معاشی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ عالمی معیشت میں غیر یقینی صورتحال کے باعث نہ صرف عالمی سرمایہ کاری سست ہوئی بلکہ تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے مالی سال 2026ء کا آغاز ایک نئے عزم، نئے چیلنجز اور نئی توقعات کے ساتھ ہوا ہے۔پاکستان میں میاں محمد شہبازشریف کی قیادت میں قائم حکومت نے نہایت حساس حالات میں اقتدار سنبھالا، جہاں مہنگائی، مالیاتی دباؤ، زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی، اور صنعتی زوال جیسے بڑے مسائل درپیش تھے۔ تاہم قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ابتدا ہی سے ایک واضح معاشی حکمت عملی اپنا لی۔ مالی سال 2025ء کے نتائج اور 2026ء کے بجٹ کے اہداف اسی سنجیدہ کوشش کا تسلسل ہیں۔
وزارت خزانہ کی ماہانہ اکنامک اپڈیٹ جون 2025ء کے مطابق مالی سال 2025ء میں جی ڈی پی میں 2.68 فیصد اضافہ ہوا، جو موجودہ معاشی حالات میں ایک امید افزا رجحان ہے۔ مہنگائی کی شرح 11.8 فیصد سے کم ہو کر 3.5 فیصد تک آ گئی ہے، جو بلاشبہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا حکومت کی مالیاتی پالیسیوں، اسٹیٹ بینک کی خودمختارانہ حکمت عملی اور سبسڈی ریفارمز کو جاتا ہے۔ترسیلات زر میں تقریباً 29 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اپنی معیشت پر اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ حکومت نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ، بینکاری سہولتوں کی بہتری، اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کے ذریعے ترسیلات کو بڑھانے کے لیے مؤثر پالیسیاں اپنائیں۔
اگرچہ برآمدات میں 4 فیصد اضافہ ہوا، لیکن درآمدات میں 11.5 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ عالمی سطح پر مہنگائی اور درآمدی بل میں اضافہ ہے۔ درآمدات کا حجم 54.1 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جب کہ تجارتی خسارہ 24.4 ارب ڈالر رہا۔ حکومت نے اس خسارے کو کم کرنے کے لیے ”میک ان پاکستان“ پالیسی کو فروغ دیا ہے جس کے تحت مقامی صنعت کو درآمدی اشیاء کا متبادل تیار کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔سال 2025ء کے اختتام پر زرِمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جو کہ عالمی اداروں کی مقرر کردہ حد کے مطابق ہے۔ اس استحکام کی بڑی وجہ 3.4 ارب ڈالر کے چینی قرضوں کی تجدید ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے قرضوں پر مکمل انحصار کی پالیسی سے ہٹ کر متبادل ذرائع سے آمدن بڑھانے پر توجہ دی ہے۔ اس ضمن میں سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے حاصل شدہ مفاہمتی معاہدے اور سرمایہ کاری وعدے پاکستان کے لیے معاشی تقویت کا باعث بنیں گے۔
گزشتہ برس کے مقابلے میں منافع کی بیرونِ ملک منتقلی میں 17 فیصد اضافہ ہوا، جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا ثبوت ہے۔ تاہم اس منافع کی بڑی مقدار کا ملک سے باہر جانا معاشی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ”ری انویسٹمنٹ اسکیم“ کا آغاز کیا ہے، تاکہ غیر ملکی کمپنیاں منافع کی ایک مخصوص شرح کو ملک میں دوبارہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال کریں۔بڑی صنعتوں کی شرح نمو میں 1.5 فیصد کمی تشویش ناک ضرور ہے، مگر حکومت نے اس شعبے کی بحالی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ شرح سود میں کمی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں ریلیف، اور بینکوں کے نجی قرضوں میں اضافہ ان پالیسیوں کا حصہ ہے۔ خصوصی اکنامک زونز میں نئی سرمایہ کاری، ٹیکس مراعات، اور برآمدی صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر سہولتوں کی فراہمی بھی حکومت کے صنعتی ویژن کی عکاس ہے۔مالی سال 2026ء کے بجٹ میں 26 فیصد محصولات میں اضافہ کیا گیا، مگر مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس نظام پر سوالیہ نشان اب بھی موجود ہے۔ حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا ہے، جس سے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹیکس نیٹ میں توسیع ممکن ہو سکے گی۔بلاواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کم کرنے اور براہ راست ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے لیے بھی اصلاحات کی جا رہی ہیں، جو کہ پائیدار ترقی کے لیے ضروری قدم ہے۔
بجٹ 2026ء میں حکومت نے ایک متوازن پالیسی اختیار کی ہے۔ ایک طرف ترقیاتی اخراجات کو برقرار رکھا گیا ہے تو دوسری طرف غریب اور متوسط طبقے کے لیے صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں نئی اسکیمیں شامل کی گئی ہیں۔”یوتھ اکنامک انیشی ایٹو“،”صحت کارڈ“ کی بحالی، اور خواتین کو کاروبار کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی موجودہ حکومت کے معاشی وژن کا عملی مظہر ہے۔
پاکستان کو آج بھی کئی معاشی چیلنجز کا سامنا ہے: تجارتی خسارہ، محصولات کا دباؤ، مہنگی درآمدات، اور کمزور برآمدی صلاحیت۔ مگر خوش آئند پہلو یہ ہے کہ حکومت نے ان مسائل کا صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کا آغاز بھی کر دیا ہے۔وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی قیادت میں حکومت نے جو معاشی اصلاحات شروع کی ہیں، وہ اگر اسی تسلسل سے جاری رہیں تو آئندہ چند برسوں میں پاکستان نہ صرف مالیاتی خودمختاری کی جانب بڑھے گا بلکہ علاقائی سطح پر ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت بھی رکھے گا۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 39 Articles with 25682 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.