دنیا کی پہلی ٹرین سے پاکستان ریلوے تک کا سفر
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
ریل کے ایجاد کی کہانی اور برصغیر پاک و ہند میں ریل کے سفر کے آغاز سے لے کر موجودہ وقت تک عروج و زوال پر مبنی ایک مفصل رپورٹ! |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) انسانی ترقی کی تاریخ میں کچھ ایجادیں ایسی ہیں جنہوں نے دنیا کے نقشے اور وقت کے تصور کو بدل کر رکھ دیا۔ ان ہی میں سے ایک "ریل گاڑی" یعنی ٹرین ہے، جو نہ صرف سفر کو سہل بناتی ہے بلکہ معیشت، ثقافت اور ترقی کی نئی راہیں بھی کھولتی ہے۔ دنیا کی پہلی ٹرین جو انقلابِ سفر کی شروعات کا باعث بنا 27 ستمبر 1825 کا دن دنیا کی ٹرانسپورٹیشن ہسٹری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دن برطانیہ میں دنیا کی سب سے پہلی مسافر بردار ٹرین نے اسٹاکٹن سے ڈارلنگٹن کے درمیان اپنا سفر شروع کیا۔ اس کا موجد جارج اسٹیفنسن تھا اور اس تاریخی انجن کو "لوکوموشن نمبر 1" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ ریل گاڑی بھاپ کے انجن سے چلتی تھی اور اپنے پہلے سفر میں 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں کامیاب رہی۔ اس دور میں جب گھوڑوں اور بیل گاڑیوں کو ہی سفر کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا تھا، ٹرین کا یہ سفر ایک سائنسی انقلاب تھا۔ یہی وہ ایجاد تھی جس نے صنعتی انقلاب کو عملی شکل دی اور دنیا کو نئی ترقی کی طرف گامزن کیا۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ برصغیر میں ریل کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔ برصغیر میں ریلوے سسٹم کی بنیاد برطانوی راج کے دور میں رکھی گئی۔ انگریزوں نے اس خطے کی وسعت، وسائل کی ترسیل، فوجی نقل و حرکت اور تجارتی مفادات کے تحت ریل سسٹم کو متعارف کروایا۔ برصغیر میں سب سے پہلی ٹرین 16 اپریل 1853 کو بمبئی (ممبئی) سے تھانے تک چلی۔ یہ تقریباً 34 کلومیٹر کا فاصلہ تھا، جس میں 14 ویگنوں پر تقریباً 400 مسافر سوار تھے۔ پاکستان کی سرزمین پر پہلی ٹرین کراچی سے کوٹری تک چلی یہاں ایک وضاحت ضروری ہے: پاکستان 1947 میں آزاد ہوا، لیکن اس سے پہلے یہ خطہ برطانوی ہندوستان کا حصہ تھا۔ چنانچہ جو ریلوے لائنیں موجودہ پاکستان میں تھیں، وہ انگریزوں کے قائم کردہ ریلوے نظام کا حصہ تھیں۔اسی پس منظر میں، موجودہ پاکستان کی سرزمین پر سب سے پہلی ٹرین 13 مئی 1861 کو چلی، یہ ٹرین کراچی سے کوٹری تک تقریباً 169 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی تھی۔ یہ ایک تاریخی سنگِ میل تھا، جس نے سندھ کے میدانی علاقوں میں نقل و حمل کا نیا باب کھولا۔ کراچی، جو اس وقت ایک ابھرتی ہوئی بندرگاہ تھی، کوٹری کے ذریعے اندرونِ سندھ سے جوڑنے کا مقصد تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا اور برطانوی راج کا کنٹرول مضبوط کرنا تھا۔ پاکستان میں ریلوے نے کئی عشروں تک اہم کردار ادا کیا۔ 1960 کی دہائی میں یہ شعبہ عروج پر تھا۔ ہزاروں کلومیٹر لمبی ریلوے لائن، سیکڑوں اسٹیشنز، ہزاروں ملازمین اور عوام کے لیے ایک سستا اور قابلِ بھروسا ذریعہ سفر۔ بدقسمتی سے 1980 کے بعد پاکستان ریلوے مسلسل زوال کا شکار رہا۔ ناقص پالیسیوں، بدعنوانی، جدید کاری کی کمی اور نجی ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے اسے پیچھے دھکیل دیا۔ کئی اہم روٹس بند کر دیے گئے اور متعدد اسٹیشن ویران ہو گئے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں دوبارہ ریلوے کی بحالی کے لیے کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ سی پیک (CPEC) کے تحت ML-1 منصوبہ، جو کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کی مکمل بحالی اور اپ گریڈیشن کا خاکہ پیش کرتا ہے، امید کی ایک نئی کرن ہے۔ ریل صرف سفر نہیں، ایک ثقافت کا نمونہ ہے، ریل گاڑی صرف سفر کا ذریعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے اور ثقافت کا حصہ ہے۔ بچوں کا اسٹیشن پر جا کر انجن دیکھنا، ٹرین کے سفر میں کھڑکی سے باہر مناظر کا نظارہ، پلیٹ فارم پر چائے، اخبار اور سامان والے مناظر یہ سب یادیں آج بھی زندہ ہیں۔ پاکستانی ادب، فلم اور موسیقی میں بھی ریل ایک علامت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ "گاڑی کو چلانا بابو، ذرا آہستہ چلانا" جیسے نغمے عوام کی زبان پر آج بھی زندہ ہیں۔ ریل گاڑی نے دنیا کو جوڑنے میں جو کردار ادا کیا، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ پاکستان میں ریلوے صرف ماضی کا ایک ورثہ نہیں بلکہ مستقبل کا ایک روشن راستہ بھی ہے اگر اسے درست سمت میں ترقی دی جائے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ریل نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں، نئی نسل کو اس سے جوڑیں اور اس تاریخی سرمائے کو دوبارہ زندہ کریں۔ کیونکہ جو قومیں اپنے ماضی کی بنیاد پر مستقبل تعمیر کرتی ہیں، وہی ترقی کی اصل راہوں پر گامزن ہوتی ہیں۔ |
|