نادرا کے پاک آئی ڈی ایپ کی خدمات اور ایک اہم پیش رفت

نادرا کے پاک آئی ڈی ایپ کی خدمات اور ایک اہم پیش رفت
تحریر: حافظ محمد صدیق مدنی
ممبر یوتھ پارلیمنٹ پاکستان

نادرا پاکستان کا وہ اہم ادارہ ہے جو شہریوں کی شناختی دستاویزات کی تیاری ان کے ریکارڈ کی حفاظت اور بائیو میٹرک نظام کے ذریعے ایک مربوط ڈیجیٹل سسٹم فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے وقت کے ساتھ ساتھ نادرا نے نہ صرف اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی کوشش کی بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر عوام کو سہولیات دینے کے لیے قابل قدر اقدامات کیے ہیں انہی کوششوں میں ایک بڑی پیش رفت نادرا کی جانب سے پاک آئی ڈی ایپ کا اجرا ہے یہ ایپ ایک ایسا سنگ میل ہے جس نے شہریوں کو ان کے شناختی کارڈ سے متعلقہ بیشتر کاموں میں آزادی اور آسانی فراہم کی ہے اس جدید سہولت کے ذریعے شہری گھر بیٹھے شناختی کارڈ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں درستگی کرا سکتے ہیں تجدید کر سکتے ہیں اور بچوں کے ب فارم سمیت کئی اہم خدمات حاصل کر سکتے ہیں جو ماضی میں ممکن نہ تھیں۔ ماضی قریب تک پاکستان کے اکثر شہری شناختی کارڈ بنوانے کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے رہنے دفاتر کے چکر لگانے اور عملے کے نامناسب رویوں کو برداشت کرنے پر مجبور تھے خاص طور پر بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے اور اس کے سرحدی اضلاع جیسے چمن قلعہ عبداللہ نوشکی لورالائی پشین اور ژوب میں یہ صورتحال نہایت تشویشناک تھی ان علاقوں کے عوام کو نادرا کے دفاتر تک رسائی بھی ایک مسئلہ تھی اور اگر رسائی ہو بھی جاتی تو عملے کے رویے اور عدم تعاون کے باعث وہ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے کئی کئی ماہ تک دھکے کھاتے تھے ان اضلاع کے کئی بزرگ شہری ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے پچاس سال گزار دیے لیکن اب تک شناختی کارڈ حاصل نہ کر سکے کیونکہ انہیں یا تو دفتر نے مسترد کر دیا یا ان کے خاندان کی رجسٹریشن میں مسائل پیدا ہوئے جنہیں حل کرنے کی زحمت کسی نے نہ کی۔ چمن ضلع کی مثال لی جائے تو یہاں کا نادرا دفتر محدود سہولیات کے ساتھ ایک بڑی آبادی کو سہولت دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ کوشش ناکافی ہے اور جب عملہ غیر پیشہ ورانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو عوام میں ادارے کے خلاف بے اعتمادی جنم لیتی ہے شہری شکایت کرتے ہیں کہ عملے کا برتاؤ تحقیر آمیز ہے ان کے سوالوں کا جواب نہیں دیا جاتا اور کئی بار سفارش یا رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا خواتین کو علیحدہ لائنیں نہیں ملتیں بزرگ شہری گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں اور جب ان کی باری آتی ہے تو کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر انہیں اگلے دن آنے کو کہہ دیا جاتا ہے یوں عام آدمی جو تعلیم یافتہ نہیں ٹیکنالوجی سے نابلد ہے اور وسائل کا فقدان رکھتا ہے وہ مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ پاک آئی ڈی ایپ جیسی سہولت ان شہریوں کے لیے واقعی باعث رحمت ہے جو شہری علاقوں میں رہتے ہیں جن کے پاس اسمارٹ فونز انٹرنیٹ اور بنیادی تعلیم موجود ہے وہ بآسانی گھر بیٹھے شناختی کارڈ کے لیے آن لائن درخواست دے دیتے ہیں ان کا بائیو میٹرک تصدیق بھی ڈیجیٹل ہو جاتا ہے اور ڈاک کے ذریعے ان کا کارڈ ان کے دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چمن نوشکی یا دالبندین جیسے علاقوں کے عام دیہاتی شہری جو نہ انگریزی سمجھتے ہیں نہ موبائل ایپ استعمال کر سکتے ہیں کیا وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس کا جواب اکثر صورتوں میں نفی میں ہے کیونکہ ان کے پاس سہولیات نہیں ان کو سکھانے والا کوئی نہیں اور اگر وہ کسی دکاندار یا ایجنٹ کی مدد سے ایپ کے ذریعے درخواست دیتے ہیں تو انہیں کئی گنا زیادہ فیس ادا کرنا پڑتی ہے اور ان کا ڈیٹا اکثر غلط درج ہو جاتا ہے جسے بعد میں درست کروانا ایک اور آزمائش بن جاتی ہے۔ بلوچستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بجلی اور انٹرنیٹ کا نظام مستحکم نہیں وہاں آن لائن سسٹم بیکار ہو جاتا ہے لہٰذا ان علاقوں کے لیے نادرا کی اصل ذمے داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ نہ صرف آن لائن سسٹم کو فروغ دے بلکہ روایتی نظام کو بھی شفاف اور سہل بنائے موبائل رجسٹریشن وینز کے ذریعے ایسے علاقوں تک رسائی حاصل کی جائے جہاں نادرا دفاتر موجود نہیں اور جہاں موجود ہیں وہاں عملے کی تربیت کی جائے تاکہ وہ شہریوں سے عزت کے ساتھ پیش آئیں ان کی رہنمائی کریں اور ان کے مسائل کا حقیقی حل نکالیں۔ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ نادرا نے بہت سی جدید سہولیات متعارف کرائی ہیں جن میں آن لائن فارم سبمیشن شناختی دستاویزات کی ڈیجیٹل اپ لوڈنگ آن لائن فیس جمع کروانے کی سہولت اور کارڈ کی ہوم ڈلیوری شامل ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سہولیات کا فائدہ تبھی مکمل طور پر ممکن ہے جب نادرا اپنے دفاتر کا نظام بہتر کرے اور پورے ملک کے شہریوں کو یکساں سہولیات فراہم کرے اب وقت آ گیا ہے کہ ادارہ شہریوں کو صارف کی حیثیت سے دیکھے اور اپنی خدمات کو ایک پبلک سروس کے طور پر پیش کرے نہ کہ ایک اقتداری ادارے کی طرح جو عوام پر احسان جتائے نادرا کا عملہ اگر اس بات کو سمجھ لے کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور ان کا کام سہولت دینا ہے تو یقیناً عوام کی شکایات میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ بلوچستان کے کئی اضلاع میں یہ شکایات عام ہیں کہ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے دو دو تین تین بار درخواست دینا پڑتی ہے اور ہر بار کوئی نئی اعتراض سامنے آ جاتا ہے بعض اوقات خاندان کے دوسرے افراد کی رجسٹریشن کو بہانہ بنا کر کسی ایک فرد کا شناختی کارڈ روک دیا جاتا ہے بائیو میٹرک تصدیق میں معمولی فرق یا چہرے کی شناخت میں تکنیکی خرابی کو بنیاد بنا کر درخواست گزار کو ہفتوں انتظار کروایا جاتا ہے ایسے میں وہ عام شہری جو دیہاڑی دار مزدور ہے یا مزدوری کے لیے بیرون ملک جانا چاہتا ہے وہ شدید مالی و ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے اس کے کاغذات مکمل ہونے کے باوجود نادرا کا سسٹم اس کے لیے دیوار بن جاتا ہے جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ نادرا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ شناختی کارڈ نہ صرف ایک دستاویز ہے بلکہ یہ ایک شہری کی پہچان اور اس کے بنیادی حقوق تک رسائی کا ذریعہ ہے جس شہری کے پاس شناختی کارڈ نہیں وہ تعلیم صحت روزگار بینکنگ سفری اور دیگر اہم سہولیات سے محروم ہو جاتا ہے لہٰذا نادرا کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر شہری کو وقت پر شفاف اور عزت دار طریقے سے شناختی کارڈ فراہم کرے خاص طور پر ان شہریوں کو جو معاشرتی و اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں جو زبان یا ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں اور جو برسوں سے محرومی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ ہم حکومت پاکستان وزیر داخلہ نادرا کے چیئرمین اور متعلقہ اعلیٰ حکام سے مؤدبانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ نادرا کی کارکردگی پر از سر نو غور کریں بلوچستان اور دیگر پسماندہ علاقوں میں خصوصی موبائل رجسٹریشن مراکز قائم کریں نادرا دفاتر کے عملے کی تربیت کے لیے لازمی کورسز متعارف کروائیں شکایتی نظام کو مؤثر بنائیں اور ہر شہری کو عزت و احترام کے ساتھ خدمات فراہم کرنے کو ادارے کا مشن قرار دیں ساتھ ہی ساتھ نادرا کی پاک آئی ڈی ایپ کی تشہیر کے لیے حکومتی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ عام شہری بھی اس سہولت سے واقف ہو اور مستفید ہو سکے دیہی علاقوں میں نادرا کی خدمات فراہم کرنے کے لیے مقامی زبانوں میں رہنمائی مواد تیار کیا جائے اور تعلیمی اداروں و مقامی تنظیموں کی مدد سے اس نظام کو سادہ اور قابل فہم بنایا جائے تاکہ ہر پاکستانی شہری خواہ وہ کسی بھی علاقے میں ہو کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنے شناختی کارڈ کا حق حاصل کر سکے۔ اگر نادرا اپنی خدمات کو شہریوں کی توقعات کے مطابق بنانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ نہ صرف ادارے کے اعتماد میں اضافہ کرے گا بلکہ ایک خوشحال مضبوط اور منصفانہ پاکستان کی بنیاد بھی رکھے گا جہاں ہر فرد کو مساوی مواقع حاصل ہوں گے اور شناخت ایک حق بن کر سامنے آئے گی نہ کہ امتحان ہے۔

 

Hafiz Mohammad Siddiq Madani
About the Author: Hafiz Mohammad Siddiq Madani Read More Articles by Hafiz Mohammad Siddiq Madani: 63 Articles with 73808 views Mohammad Siddiq Madani from Chaman Pakistan .
Columnist and Writer of Pak
Chief Editor.
Monthly Albahr Chaman
office Weternary Hospital Road P.O B
.. View More