اعضاء کا عطیہ، خیبرپختونخوا کا جواد خان بازی لے گیا

ہے زندگی کا مقصد ،اوروں کے کام آنا
اس کا فلسفہ خیبرپختونخوا کے بچے جواد خان نے ایسے سمجھایا جسے سمجھنے کیلئے الفاظ کی ضرورت نہیں!
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
کبھی کبھار زندگی ایسے کرداروں سے روشناس کراتی ہے جو مختصر وقت کے لیے دنیا میں آتے ہیں، لیکن اپنے عمل اور فیصلوں سے ایسا انمٹ نقش چھوڑ جاتے ہیں جو رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والا چودہ سالہ جواد خان انہی میں سے ایک تابندہ مثال ہے۔ وہ ایک ایسا درخشاں چراغ تھا جو اپنی زندگی میں تو شاید ایک عام بچے کی مانند تھا، لیکن اپنی موت کے بعد وہ انسانیت کے لیے ایسا مینارِ ایثار بن گیا جس کی روشنی برسوں تک راستہ دکھاتی رہے گی۔
یہ پاکستان کے طول و عرض میں پہلا موقع تھا کہ خیبرپختونخوا جیسے روایتی معاشرتی بندھنوں اور مذہبی حساسیت رکھنے والے صوبے میں کسی بچے کے اہل خانہ نے بعد از مرگ انسانی اعضاء عطیہ کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ یہ اقدام محض ایک طبی فیصلہ نہیں تھا بلکہ ایک ثقافتی، سماجی اور روحانی انقلاب کی شروعات تھی۔
حادثاتی طور پر زخمی ہو کر جاں بحق ہونے والے جواد خان کے والد نورداد خان نے، غم و صدمے کے انتہائی نازک لمحے میں، ایسا فیصلہ کیا جو عام انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے دو گردے، جگر اور دونوں آنکھوں کے قرنیے عطیہ کرنے کی رضامندی دی، جس کی بدولت پانچ ایسے مریضوں کو نئی زندگیاں مل گئیں، جو بظاہر زندگی کی امید کھو چکے تھے۔ ایک جانب ان کا اپنا لخت جگر زندگی کی بازی ہار رہا تھا اور دوسری جانب وہ دوسروں کے لیے زندگی کی کرن بن رہا تھا۔
یہی وہ مقام تھا جہاں ایک باپ نے اپنے بیٹے کے غم کو انسانیت کی خدمت میں بدل کر ایثار کی معراج پر قدم رکھا۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس بے مثال فیصلے کو اس قدر سراہا کہ جواد کے والد نورداد خان کو وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں منعقدہ تقریب کا مہمان خصوصی بنا دیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ صوبے کی تاریخ میں آج تک کسی وزیر اعلیٰ نے تقریب کی صدارت کا حق کسی اور کو نہیں دیا، لیکن آج نورداد خان وہ واحد انسان ہیں جنہیں اس منصب پر بٹھایا جا رہا ہے، کیونکہ انہوں نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے جو حکومتی سطح پر بھی ایک انقلاب کا آغاز ہے۔
یہ تقریب نہ صرف خراج تحسین کی علامت تھی بلکہ آئندہ کے لیے ایک قومی بیانیے کی بنیاد بھی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ جواد خان کے نام سے ایک سرکاری اسپتال منسوب کیا جائے گا، ان کے گاؤں کے لیے سڑک تعمیر کی جائے گی اور تعلیمی نصاب میں جواد کے ایثار اور قربانی پر ایک خصوصی باب شامل کیا جائے گا۔ اس اعلان کی معنویت صرف تعلیمی نہیں بلکہ اخلاقی اور نظریاتی ہے، یہ نئی نسل کو ایثار، قربانی اور انسانیت کا سبق سکھانے کا ذریعہ بنے گا۔
اس موقع پر آرگن ڈونیشن رجسٹریشن سسٹم کا بھی باضابطہ آغاز کیا گیا، جس میں راشد درانی نامی ایک اور شہری نے رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن کر کے صوبے کے دوسرے اعضاء عطیہ کرنے والے فرد ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس عمل سے یہ پیغام واضح ہوا کہ جواد خان کے خاندان نے ایک ایسا دروازہ کھول دیا ہے جس سے اب اور لوگ بھی انسانیت کے اس راستے پر قدم رکھ سکتے ہیں۔
تقریب میں نہ صرف محکمہ صحت کے حکام، ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹوڈنٹس کی بڑی تعداد شریک ہوئی بلکہ مذہبی سکالرز، اقلیتی نمائندے اور مختلف سماجی حلقوں کے افراد نے شرکت کر کے یہ ثابت کیا کہ اعضاء عطیہ کرنے جیسے اقدامات اب ہمارے معاشرے میں قبولیت پا رہے ہیں۔ معروف مذہبی سکالر قبلہ ایاز نے اس موقع پر مذہبی نقطہ نظر سے واضح کیا کہ انسانی جان بچانا ایک عظیم عمل ہے، اور اگر کسی کی موت دوسرے کی زندگی کا ذریعہ بن جائے تو یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔
جواد کے والد نورداد خان نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ بیٹے کی موت ان کے لیے ناقابل برداشت صدمہ تھا، لیکن جب انہوں نے ہسپتال میں ان مریضوں کی حالت دیکھی جن کی زندگیاں اعضا کے بغیر موت کے دہانے پر تھیں تو انہوں نے بیٹے کا غم پی کر انسانیت کی خدمت کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے اس مشن کو آگے بڑھانے کے عزم کا بھی اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کا عمل مزید لوگوں کے لیے مثال بنے گا۔
یہ واقعہ محض ایک خاندان کی قربانی کی داستان نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے ضمیر کو جگانے کی پکار ہے۔ آج جواد خان کی قربانی سے متاثر ہو کر اگر ہزاروں لوگ بھی اعضا عطیہ کرنے کی جانب مائل ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکیں گی، وہ زندگیاں جو صرف ایک گردے یا ایک آنکھ کے قرنیے کے انتظار میں موت کے قریب پہنچ جاتی ہیں۔ہم سب پر لازم ہے کہ اس عظیم مشن کا حصہ بنیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اعضا عطیہ کرنے کے عمل کو صرف ایک طبی عمل نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنی سماجی اور مذہبی ذمہ داری کا درجہ دیں۔ جواد خان کی مختصر زندگی نے جو پیغام دیا ہے، وہ یہی ہے کہ!
"زندگی وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے، اور موت وہی ہے جو دوسروں کو نئی زندگی عطا کرے۔"

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 137 Articles with 83667 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.