کراچی میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور نوجوانوں پر اس کے اثرات
(Muhammad Arslan, Karachi)
تحریر : سید شہباز علی
کراچی، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب کہلاتا ہے، آجکل ایک انتہائی تشویشناک مسئلے سے دوچار ہے — وہ ہے بیروزگاری۔ ملک کے دیگر شہروں کی نسبت یہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ روزگار کے مواقع انتہائی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق کراچی کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 22 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ ڈگری ہولڈرز نوجوان، جنہوں نے مختلف جامعات سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، دربدر پھر رہے ہیں، لیکن ان کے لیے موزوں ملازمت کا حصول خواب بن چکا ہے۔ اگر بیروزگاری کے اسباب کی بات کی جائے تو صنعتوں کا خاتمہ، سیکیورٹی اور سیاسی عدم استحکام، تعلیم و ہنر میں فرق (یونیورسٹیوں کا نصاب صنعتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے جس کی وجہ سے نوجوان مارکیٹ کی ڈیمانڈ پر پورا نہیں اترتے)، سفارش و رشوت کا کلچر، لسانیت، سر فہرست اسباب ہیں، نوجوانوں پر بے روزگاری کے اثرات کی بات کی جائے توذہنی دباؤ اور ڈپریشن ، جرائم کی طرف رجحان، مایوسی اور ذہنی دباؤ، معاشرتی ناہمواری، فارغ وقت کا غلط استعمال، تعلیم و تربیت میں خلا وغیرہ سر فہرست ہیں ۔۔بیروزگاری جہاں معاشی مسائل کو جنم دیتی ہے، وہیں معاشرے میں بے راہ روی، بے حیائی اور اخلاقی تنزلی کا سبب بھی بنتی جا رہی ہے۔ جب نوجوانوں کے پاس مصروفیت، روزگار یا مثبت سرگرمیاں نہیں ہوتیں، تو وہ اکثر ایسی راہوں پر چل نکلتے ہیں جہاں سے واپسی مشکل ہو جاتی ہے، اگر ممکنہ حل کی بات کی جائے تو نئے صنعتی زونز کا قیام، یونیورسٹیوں میں انٹرن شپ پروگرامز اور انڈسٹری لِنکج، چھوٹے کاروبار کے لیے بلاسود قرضے، سرکاری اداروں میں میرٹ پر بھرتی کا نظام نافذ کرنا،اور سب سے بڑھ کر انڈسٹریل ایریاز میں سیاسی دباؤ وہ لسانیت کے خاتمے سے کچھ بہتری ممکن ہے ، بیروزگاری صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک معاشرتی اور نفسیاتی بحران بھی ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں اگر نوجوان طبقہ ہی مایوسی کا شکار ہو جائے تو یہ شہر ترقی نہیں کر سکتا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت اور نجی شعبے مل کر نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کریں، تاکہ وہ نہ صرف اپنا مستقبل بہتر بنا سکیں بلکہ ملک کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ |
|