ذوالفقار علی بخاری — ادبِ اطفال کا روشن ستارہ

عامرعباس ناصراعوان صاحب

اگر قلم میں تاثیر ہو، نیت میں اخلاص ہو، اور مزاج میں انکساری، تو وہ شخصیت قاری کے دل پر نقش چھوڑ دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک نادر و نایاب شخصیت کا نام ہے ذوالفقار علی بخاری، جنہوں نے اپنی انتھک محنت، فکری وسعت اور قلبی خلوص کے ذریعے خود کو نہ صرف پاکستان بلکہ سرحد پار بھی منوایا۔ وہ ادب کے ان خادموں میں شامل ہیں جن کی تحریر صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک کارواں ہے، جو ذہنوں کو روشن کرتا، دلوں کو گرماتا اور روحوں کو تازگی بخشتا ہے۔

ذوالفقار علی بخاری کا تعلق اس نسل سے ہے جنہوں نے صرف خواب نہیں دیکھے، بلکہ اُن خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا سلیقہ بھی سیکھا۔ آج ان کا نام ادبِ اطفال کے معتبر، مخلص اور متحرک ادیبوں میں شامل ہے۔ ان کی تخلیقات میں بچوں کی معصومیت، زندگی کی حقیقت، معاشرتی ذمہ داریاں اور فکری پختگی یکجا ہو کر قاری کو ایک نئی دنیا کی سیر کرواتی ہیں۔

ادب کا آغاز: شوق سے شعور تک

ذوالفقار علی بخاری کا ادبی سفر ایک شوق کی صورت میں شروع ہوا، لیکن جلد ہی انہوں نے اس شوق کو سماجی شعور میں بدل دیا۔ اُن کی اولین تحریر ماہنامہ ہمدرد نونہال میں شائع ہوئی، جس پر انہیں انعامی کتاب بھی ملی—یہ خوشی صرف ایک انعام کی نہیں بلکہ خود اعتمادی کی پہلی سیڑھی تھی۔

سن 2019 وہ اہم سنگ میل ثابت ہوا جب انہوں نے باقاعدہ طور پر ادبِ اطفال کی جانب اپنا قدم بڑھایا۔ ماہنامہ پھول میں شائع ہونے والی پہلی کہانی نے ان کے اندر اس جذبے کو مہمیز دی کہ بچوں کے لیے مسلسل اور معیاری انداز میں لکھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک بار ایک غیر معیاری کہانی دیکھی تو دل میں طے کیا کہ بچوں کے ادب کو صرف مشغلہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک مقدس ذمہ داری ہے۔

تحریری سرمایہ: لفظوں کی کھیتی سے علم کے خوشے

ذوالفقار علی بخاری نے مختلف اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں انفرادیت کے رنگ بھرے۔ ان کی چند معروف کتب درج ذیل ہیں:

قسمت کی دیوی (افسانوی مجموعہ)

جی دار (خودنوشت)

آخری وار اور تلاشِ گمشدہ (بچوں کے ناول)

تشہیر کہانی (تجارتی کہانیوں کا مجموعہ)

کٹی پتنگ (ڈرامہ)

عالمی ادیبِ اطفال اردو ڈائریکٹری

ہوائی چپل کی سیر (نیشنل بک فاؤنڈیشن سے شائع شدہ)

ان کا ناول "آخری وار" حب الوطنی سے معمور ہے اور پاک فوج سے اُن کی جذباتی وابستگی کا اظہاریہ ہے۔ خودنوشت "جی دار" نہ صرف اُن کی زندگی کی جھلک ہے بلکہ وہ نوآموز ادیبوں کے لیے ایک مکمل رہنما کتاب بن چکی ہے۔

ایوارڈز اور اعزازات: عوامی محبت کا اثبات

ادبی خدمات پر انہیں کئی ملکی اور غیرملکی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں نمایاں ایوارڈز درج ذیل ہیں:

فضیلت جہاں گولڈ میڈل (2023ء)

الوکیل کتاب ایوارڈ (2023ء)

علامہ اقبال گولڈ میڈل (2022ء)

ادب اطفال ایوارڈ (2021 و 2022ء)

چلڈرن لٹریری ایوارڈ (2022ء، بطور بہترین انٹرویو نگار)

ان کے نزدیک سب سے بڑا ایوارڈ اُن کے قارئین کی محبت اور اعتماد ہے، جسے وہ ہر قسم کے تمغوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

نظریۂ ادب: کردار، خلوص اور تعمیرِ ذہن

ذوالفقار علی بخاری کا ادبی نظریہ یہ ہے کہ ادب صرف دل بہلانے کا ذریعہ نہیں بلکہ انسان سازی کا فن ہے۔ وہ حسد، تکبر اور منفی رویوں کو ادیب کے شایانِ شان نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک ایک سچا ادیب وہی ہے جو دوسروں کو ساتھ لے کر چلے، ان کی رہنمائی کرے اور اُن کے فکری قد کاٹھ میں اضافہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اردگرد نوجوان لکھنے والوں کا ایک حلقہ موجود ہے جو ان سے فیضیاب ہوتا ہے۔

تنقید کا سامنا اور ردعمل

ان پر تنقید بھی ہوئی، مگر ان کا اندازِ فکر مثبت رہا۔ ان کا کہنا ہے:

"تنقید تب ہوتی ہے جب آپ کچھ اچھا کر رہے ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے کام پر نظر رکھتا ہوں اور منفی تنقید کو مثبت اصلاح میں بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔"

معاشرتی شعور اور سماجی موضوعات

بخاری صاحب کا قلم نہ صرف بچوں کی دنیا میں رنگ بھرتا ہے بلکہ معاشرتی موضوعات پر بھی گہری نظر رکھتا ہے۔ انہوں نے خواتین کے حقوق، میاں بیوی کے تعلقات، اعتماد کے فقدان اور بچوں کی تربیت جیسے نازک مگر اہم مسائل کو اپنی تحریروں میں اجاگر کیا ہے۔ ان کے نزدیک اعتماد اور لچک کسی بھی رشتے کے لیے ناگزیر ہیں۔

ادب، وطن اور جذبۂ خدمت

ان کی تحریروں سے وطن سے محبت جھلکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے:

"وطن سے محبت صرف جذبات کا نام نہیں، عملی خدمت ہی اصل وفاداری ہے۔ ہمیں باہر جا کر تنقید کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہ کر خرابیوں کو ختم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔"

والدین کا اثر اور تربیت کا تسلسل

اپنے والدین، خصوصاً والدہ کے اعتماد کو وہ اپنی کامیابی کا سرچشمہ مانتے ہیں۔ ان کا تعلق والدین سے دوستانہ اور مشفقانہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر والدین بچوں پر توجہ دیں اور اعتماد دیں، تو وہ بڑے سے بڑے مسئلے کا سامنا بھی وقار سے کر سکتے ہیں۔

ادبِ اطفال کے لیے پیغام

نئے لکھنے والوں کے لیے ان کا پیغام سادہ مگر زبردست ہے:

"اپنی قابلیت کو پہچانیے، کسی سے مرعوب مت ہوں، اپنا راستہ خود بنائیے اور ثابت قدم رہیے۔ جو سچ کے لیے کھڑا ہو، اُسے تنہا مت چھوڑیں۔"

اختتامی کلمات

ذوالفقار علی بخاری نہ صرف ایک ادیب ہیں بلکہ ایک فکری معمار، معاشرتی راہبر اور نئی نسل کے لیے امید کا چراغ ہیں۔ ان کی تحریریں ایک جانب ذہن کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور دوسری جانب دل کو چھو لینے کی قوت رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف خود ادب کی راہوں پر چل رہے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی راہیں روشن کر رہے ہیں۔

ادب کی زمین پر ایسے قلمکار کا وجود ایک نعمت سے کم نہیں۔ وہ وقت کی ضرورت بھی ہیں اور فکرِ فردا کے معمار بھی۔

 

Aamir Abbas Nasir Awan
About the Author: Aamir Abbas Nasir Awan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.