سَماعِ‌ سُمّی

یہ تحریر والدین اور اولاد کے درمیان جذباتی فاصلے، ناسمجھی، اور الفاظ کے غیر محسوس زخموں پر مبنی ہے۔ ایک وقت تھا جب بچیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، آج انہیں الفاظ کے ذریعے ذہنی قبر میں اُتار دیا جاتا ہے۔ والدین نادانستہ طور پر اپنی اولاد کے جذبات کو نظرانداز کرتے، ان کا دوسروں سے موازنہ کرتے، اور انہیں وہ بننے پر مجبور کرتے ہیں جو وہ نہیں ہیں۔

تحریر ایک التجا ہے — والدین کے لیے کہ وہ صرف پرورش نہ کریں بلکہ اولاد کے جذبات کو بھی سُنیں، سمجھیں اور اپنائیں۔ ساتھ ہی اولاد کو بھی سکھایا گیا ہے کہ والدین کا احترام ہر حال میں فرض ہے۔ یہ تحریر نہ صرف ایک آئینہ ہے بلکہ ایک پکار بھی — احساس کی، محبت کی، اور وقت دینے کی۔

کبھی کبھی الفاظ محض صوتی اظہار نہیں ہوتے، بلکہ وہ آہنی میخیں ہوتے ہیں، جو شعور کی تختی پر دائمی طور پر پیوست ہو جاتے ہیں۔

بعض حکایات، نوحہ بن کر لبوں سے نہیں پھوٹتیں،
بلکہ وہ مغموم نگاہوں کی ساکت لغزش میں،
یا تنہائی کے کسی مدفون کونے میں
خامشی کے تمثال بن کر دفن ہو جاتی ہیں۔

جہاں شور مفقود ہوتا ہے، وہاں ایک سادہ سا لفظ —
مثلاً "ناکام"، "بےکار"، "دوسروں جیسا بنو" —
اذہان کے نہاں خانوں میں ایسا زہر گھول دیتا ہے
جس کا تریاق شاید عمر بھر دستیاب نہیں ہوتا۔

ماں باپ، لاعلمی کے پردے میں،
جب اولاد کے وجود پر موازناتی جملوں کی کوڑے برساتے ہیں،
تو وہ الفاظ، دفنکلام کی صورت اختیار کر لیتے ہیں —
ایسا مہلک کلام، جو نہ صرف خودی کو مسخ کرتا ہے
بلکہ روح کو چیرتا ہوا، انسان کو ذہنی مفلوجی کی دہلیز تک لے آتا ہے۔

والدین کا منصب صرف اولاد کو جنم دینے اور جسمانی طور پر پروان چڑھانے تک محدود نہیں ہوتا — بلکہ اُن کے قلبی زخموں کا مرہم بننا، ان کے دکھوں کا مداوا کرنا اور ان کے جذبات کی پاسداری کرنا بھی والدین کے فرائضِ عظیم میں شامل ہے۔

ہم جانتے بھی نہیں، مگر ہمارے ادا کردہ الفاظ اکثر ہماری اولاد کی آواز سلب کر لیتے ہیں۔
الفاظ فقط حروف نہیں ہوتے، یہ کبھی زخم بن کر روح میں پیوست ہو جاتے ہیں۔
ان کی کاٹ خنجر سے زیادہ تیز، اور اُن کا اثر برسوں تک دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔

اکثر والدین، نادانستہ طور پر، لفظوں کی صورت میں ایسے نشتر چلاتے ہیں جو اولاد کے حوصلے کو کچل دیتے ہیں۔
وہ اُنہیں گھائل کر دیتے ہیں، انہیں ذہنی اضطراب، کمتری کے احساس اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی طرف دھکیل دیتے ہیں —
اور یوں ایک ذہین، حساس، اور خوبصورت روح "ذہنی طور پر غیر مستحکم" ہو جاتی ہے۔

خدارا!
اپنی اولاد کو جیسا اللہ نے بنایا ہے، اُسی حالت میں قبول کریں۔
دوسروں کی خوبیوں کا عکس اپنی اولاد پر مت تھوپیں۔
ہر انسان اپنی فطرت، اپنی صلاحیت، اور اپنی شناخت کے ساتھ منفرد ہے۔

ممکن ہے جو خوبی آپ کی اولاد میں ہو، وہ آپ کے پسندیدہ مثالی بچے میں نہ ہو۔
اور ممکن ہے آپ کی اولاد اُن سے کہیں زیادہ باکمال ہو — مگر وہ ابھرتی نہیں، کیونکہ اسے مسلسل تقابل کی چھاؤں میں رکھا گیا ہے۔

اولاد کو وقت دیں، ان سے ہم کلام ہوں، ان کی بات سنیں۔
اگر وہ خطا کرے، تو پیار سے، شفقت سے اُنہیں راہ دکھائیں — کیونکہ غصہ، ڈانٹ اور بار بار کی موازنہ بازی صرف ان کے اندر ایک سناٹا بسا دیتی ہے۔

یہ خاموشی رفتہ رفتہ اُس کو اندر سے کھا جاتی ہے،
وہ چیختی نہیں، مگر ٹوٹتی ہے —
وہ چلاتی نہیں، مگر اندر ہی اندر مرتی ہے، تڑپتی ہے۔

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک فرمانبردار، مودب بچہ بدلحاظی اور گستاخی کی راہ پر چل نکلتا ہے۔

میں نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ والدین، بھرے بازاروں میں، محفلوں میں، اور خلقت کے سامنے اپنی اولاد کو سرزنش کرتے ہیں — تند و تیز لہجوں میں جھڑکنا، دوسروں کی اولاد سے تقابل کرنا، اور زبان کے تیروں سے خوداعتمادی کو چھلنی کر دینا اب معمول بن چکا ہے۔

کیا یہی اصلاح کا طریقہ ہے؟ کیا آپ یہی کام تنہائی میں محبت آمیز سختی سے نہیں کر سکتے؟
بچوں کو تنہائی میں فہم و فراست سے سمجھایا جائے تو وہ بجھ جاتے ہیں، سنبھل جاتے ہیں۔
مگر جب ان کی خطاؤں کو مجمعِ عام میں مزاحیہ قصے بنا کر سنایا جائے — صرف مہمانوں کو محظوظ کرنے کے لیے — تو وہ لمحے ان کے قلب و شعور پر زہر بن کر جم جاتے ہیں۔

یہ ہنسی مذاق نہیں، یہ ذہنی زہر ہے — جو رفتہ رفتہ ان کی شخصیت کو مسموم کر دیتا ہے۔
خدارا! ان کے دکھوں کا تماشا نہ بنائیں، ان کے ساتھ ان کے دکھوں میں شریک ہوں۔
انھیں تنہائی میں تنبیہ کریں، فہم دیں، وہ ضرور سمجھیں گے — کیوں کہ اولاد کبھی بری نہیں ہوتی، وہ تو صرف اس تربیت کی آئینہ دار ہوتی ہے جو آپ نے دی۔

اور یاد رکھیے، اُن پر شریعت نے صبر فرض کیا ہے؛
اولاد کو کہا گیا ہے:
اگر والدین تمھیں جھڑکیں، دھتکاریں، گالیاں دیں، حتیٰ کہ گھر سے نکال دیں —
تب بھی تمہیں "اُف" تک کہنے کی اجازت نہیں۔

اب سوال یہ ہے:
جو اولاد اتنا کچھ سہنے پر مجبور ہے،
کیا آپ پر لازم نہیں کہ آپ شفقت، فہم اور وقار کے ساتھ ان کے جذبات کا لحاظ کریں؟
کیونکہ جو بیج آپ بوتے ہیں، کل کو وہی فصل بن کر آپ کے سامنے آئے گی — یا تو سایہ دار درخت، یا کانٹوں سے بھری ویرانی۔


ژندہ درگور نہ سہی، فِکر کی گِلّی میں دفن ہیں،
تلخ نوا سے زِہن، روزانہ مفلوج و مدفن ہیں۔
قول و لحن کے خنجر، نسوانی وجدان پہ تیشے،
زخمِ زباں سے بدتر، تقدیر کے کفن ہیں۔


یہ سچ ہے کہ الفاظ کا زہر، اولاد کے دل و دماغ کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ بار بار کی تنقید، دوسروں سے تقابل، اور مجمعِ عام میں تذلیل اُن کے اندر خودی کو دفن کر دیتی ہے۔ مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اسلام میں والدین کا مقام بے مثال ہے۔

قرآن ہمیں سکھاتا ہے:
"اور اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو..."
اور یہاں تک کہ اگر وہ ظلم کریں، زیادتی کریں، تب بھی اولاد کو حکم دیا گیا:
"ان کے سامنے اُف تک نہ کہو..."

اسلام نے والدین کو عزت کا تاج دیا ہے، مگر اسی دینِ رحمت نے والدین کو بھی یہ سکھایا ہے کہ:
"اولاد تمہاری ملکیت نہیں، اللہ کی دی گئی امانت ہے"
جنہیں محبت، توجہ، اور ہمدردی کے ساتھ سنوارنا ہے — نہ کہ ڈانٹ، تقابل اور الفاظ کے کوڑے مار کر توڑ دینا ہے۔

والدین کا حق اپنی جگہ عظیم ہے، مگر اولاد کے جذبات کا احترام بھی لازم ہے۔
کیونکہ جہاں ماں کے قدموں تلے جنت ہے، وہیں اولاد کے دل میں چھپی دعا بھی والدین کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
والدین سے گزارش ہے…
کہ وہ صرف اولاد کو بڑا نہ کریں، بلکہ اُن کے دلوں میں اُترنے کی کوشش بھی کریں۔
وقت صرف سانسوں کو گننے کا نام نہیں — وقت دینا، ان کی باتیں سننا،
ان کی خاموشیوں کو پڑھنا، ان کے بے ربط جملوں میں چھپی چیخوں کو محسوس کرنا…
یہی اصل قربت ہے۔

اولاد کے دل میں جگہ الفاظ سے نہیں، احساس سے بنتی ہے۔
کبھی بس ایک جملہ —
"بیٹا! تم ٹھیک ہو؟ دل کی بات مجھ سے کہو…"
یہ ایک جملہ بہت کچھ بدل سکتا ہے۔

اور اولاد سے بھی عرض ہے…
کہ محبت اور احترام ایک قرض ہوتا ہے —
جو ماں باپ نے راتوں کی نیند، دنوں کا سکون اور خواہشوں کا خون کر کے تم پر صرف کیا ہے۔
والدین کامل نہیں ہوتے، مگر وہ تمہارے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں۔

اگر والدین سیکھیں کہ اولاد کو سننا بھی محبت ہے،
اور اولاد سمجھے کہ والدین کو عزت دینا عبادت ہے —
تو یہ رشتہ نہ ٹوٹے گا، نہ تھکے گا، بلکہ صدیوں کے لیے ایک خوشبو بن جائے گا۔

 

Sana Tahira Ramzan
About the Author: Sana Tahira Ramzan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.