مردانگی یا ذہنیت؟ وقت آ گیا ہے کہ مرد خود سے سوال کریں
(Muhammad Siddiqui, Hyderabad)
مردانگی یا ذہنیت؟ وقت آ گیا ہے کہ مرد خود سے سوال کریں: چلیے سچ مان لیتے ہیں — ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں "مرد" ہونے کا مطلب ایک خاص ذہنیت اپنانا سمجھا جاتا ہے۔ ایسی ذہنیت جو مرد کو طاقتور، برتر، اور دوسروں پر قابض سمجھتی ہے۔ لیکن اس ذہنیت کی قیمت عورت کو چکانی پڑتی ہے — ہر روز، ہر لمحہ۔ چاہے وہ بازار میں آوازیں کسنے کی صورت میں ہو، یا گھر میں بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی شکل میں؛ دفتر میں جنسی ہراسانی ہو یا "غیرت" کے نام پر قتل — عورتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی جڑ مردانہ ذہنیت ہے، نہ کہ صرف روایات۔ برتری کا زہر بچپن سے شروع ہوتا ہے: لڑکوں کو بچپن میں سکھایا جاتا ہے کہ وہ لڑکیوں سے بہتر ہیں۔ "لڑکیاں روتی ہیں، مرد نہیں"، "مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے"، "عورت تمہاری عزت ہے، اسے قابو میں رکھو". یہ جملے صرف باتیں نہیں، یہ لڑکوں کے دماغ میں عورت کی کمتر حیثیت کو بٹھا دیتے ہیں۔ اور جب بڑا ہو کر وہ کسی عورت پر ظلم کرتا ہے، تو اُسے لگتا ہے وہ حق ادا کر رہا ہے۔ جنسی تشدد خواہش نہیں، طاقت کی نمائش ہے: یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ جنسی زیادتی یا ہراسانی اکثر جنسی خواہش نہیں، بلکہ طاقت اور اختیار دکھانے کا طریقہ ہوتی ہے۔ جب مرد یہ سمجھتا ہے کہ عورت کی رضامندی ضروری نہیں — وہ دراصل یہ سمجھ رہا ہے کہ عورت کی مرضی کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ وجہ؟ ہم نے اُسے کبھی یہ سکھایا ہی نہیں کہ "نہیں" کا مطلب ہوتا ہے نہیں۔ گھر، جو محفوظ ہونا چاہیے، اکثر عورت کی قید بن جاتا ہے: گھریلو تشدد ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ عام اور سب سے زیادہ چھپایا جانے والا جرم ہے۔ جب شوہر بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو اکثر کہا جاتا ہے: "یہ میاں بیوی کا معاملہ ہے"، "تھوڑا غصہ آ گیا ہوگا"۔ یہی خاموشی کل کو کسی کی ماں، بہن یا بیٹی کی جان لے لیتی ہے۔ لڑکا آزاد، لڑکی قید — یہی صنفی امتیاز ہے: ہمارے ہاں بیٹوں کو آزادی دی جاتی ہے، اور بیٹیوں کو بند کیا جاتا ہے۔ بیٹوں کو کہا جاتا ہے: "جہاں دل چاہے جاؤ"، بیٹیوں کو کہا جاتا ہے: "ذرا سا بھی پاؤں باہر نکالا تو بدنامی ہو گی"۔ ایسا کرنے سے ہم بیٹوں کو غرور سکھاتے ہیں اور بیٹیوں کو خوف۔ تبدیلی کہاں سے شروع ہو؟ مرد سے! یاد رکھیں: صرف قانون، تقاریر یا خواتین کی جدوجہد کافی نہیں۔ مردوں کو خود آگے آ کر اس ذہنیت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ بیٹوں کو سکھائیں کہ عورت کمزور نہیں، برابر ہے. جب دوست یا رشتہ دار عورت کی تذلیل کرے، تو چپ نہ رہیں — ٹوکیں. عورت کی بات غور سے سنیں، دفاع میں نہ آئیں، سیکھیں. مردانگی کو رحم، برداشت، اور برابری سے جوڑیں، نہ کہ غصے اور زبردستی سے. آخری بات: عورتوں پر ظلم ہاتھ سے شروع نہیں ہوتا — وہ سوچ سے شروع ہوتا ہے۔ اگر ہم واقعی ایک بہتر، محفوظ اور مہذب معاشرہ چاہتے ہیں تو مردوں کو اپنے اندر جھانکنا ہوگا، اپنی تربیت، رویے اور الفاظ پر غور کرنا ہوگا۔ صرف "بیٹیاں بہادر بناؤ" کافی نہیں — بیٹے بہتر بناؤ۔ کیونکہ جب مرد بدلے گا — تب ہی دنیا بدلے گی۔ |
|