آخر عورت کیا ہے؟ تحریر: علیزہ افضل تاریخ: 2025/07/30 عورت کیا ہے؟.... عورت محض ایک جسم ہے؟.....کیا وہ ایک کردار ہے جو کسی مخصوص دائرے میں ادا کیا جاتا ہے؟ یا پھر عورت ماں، بہن، بیوی، بیٹی جیسے رشتوں کے تعارف کا نام ہے؟ اس میں عورت کیا ہے؟ اُس کا اپنی ذات پر کیا حق ہے؟ کیا یہی سب ہے عورت؟ کیا عورت معاشرے میں چلنے کا دوسرا نام ہے؟.... کیا باپ، بھائی اور شوہر کی نظر میں عورت عزت اور غیرت کا نشان ہے؟ کیا عورت اولاد کی نظر میں صرف تربیت کا ایک ذریعہ ہے؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب تلاش کرنا باقی ہے... کہ آخر عورت کیا ہے؟ عورت صرف رشتوں تک محدود نہیں، نہ ہی وہ کسی مخصوص کردار یا جسمانی خد و خال تک محدود ہے۔ کیا یہ سوچ کافی ہے کہ عورت کو صرف ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے رشتوں سے پہچانا جائے؟ صرف اتنا سوچنا کافی نہیں کہ عورت بھی ایک مکمل انسان ہے... جذبات، احساسات، سوچ، اُس کا وجود، اُس کی خواہشات اور اپنے خواب ہیں۔ لیکن یہ سب رشتوں کی نظر ہوتے ہیں۔ جو کہ اُس کی زندگی کا حصہ ہیں مگر پہچان نہیں۔ اُس کی پہچان اُس کے خود اعتمادی میں، اُس کے نظریے میں ہے اور اُس کی آواز میں ہے جو اکثر رشتوں کے سائے میں دب کر رہ جاتی ہے۔ اگر واقعی میں عورت ایک انسان ہے تو کیا انسان کی حیثیت سے اُسے اپنے فیصلے کرنے میں آزادی ہے؟ کیا اُسے اپنے لیے سوچنے، جینے اور بولنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے؟ مگر افسوس حقیقت میں عورت سے تمام حقوق رشتوں کی بنیاد پر چھین لیے گئے ہیں۔ اُس کی پہچان سلب کر لی گئی ہے، اُس کی رائے کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ کسی بھی حیثیت سے عورت کو آزادی میسر نہیں۔ ان سب کی صرف ایک بڑی وجہ ہے... ہم خود، ہمارا معاشرہ اور ہماری سوچ، ہماری اقدار ہی وہ رکاوٹیں ہیں جو عورت کے وجود کو محدود کر رہی ہیں۔ عورت کو وہ بنایا جا رہا ہے جو وہ درحقیقت کبھی تھی ہی نہیں۔ دَورِ حاضر عورت کے لیے خود شناسی، خود اعتمادی، اپنے حقوق کی پہچان اور اپنی سوچ کو آزاد کرنے کا وقت ہے۔ اب معاشرے اور عورت دونوں کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اُسے صرف رشتوں یا جسمانی تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ ایک مکمل اور باشعور انسان کے طور پر تسلیم کیا جائے جسے ہر پہلو میں جینے اور فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ عورت کی پہچان کیا ہے؟ اُسے کیا ہونا چاہیے؟ میری نظر میں عورت نہ غلام ہے، نہ کنیز، نہ کسی کی جاگیر اور نہ ہی کوئی خریدا ہوا سامان، بلکہ عورت ایک مکمل انسان ہے... صرف انسان... بس اتنا ہونا ہی اُس کی عزت، وقار اور آزادی کے لیے کافی ہے۔ عورت کا ہونا محض ایک وجود ہونا نہیں بلکہ ایک خوبصورت احساس ہے، ایک روشنی ہے، ایک مکمل کائنات کا ہونا ہے۔ وہ کسی کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ وہ اپنی ذات میں مکمل، باوقار اور بااختیار ہے۔ ایک ایسا احساس ہے جو خاموشی میں بولتا ہے، قربانی میں جیتا ہے اور ہر رنگ میں زندگی کو مکمل کرتا ہے۔ ایک ایسی روشنی ہے جو ماں کی دعا میں، بیٹی کی مسکراہٹ میں اور کہیں ایک خاموش سہارا بن کر دلوں میں جگہ بناتی ہے۔ عورت کی قید رشتوں تک محدود نہ کی جائے، اُسے انسانیت کے طور پر تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر معاشرہ ترقی کی راہ پر چلتا ہے تو سب سے پہلے عورت کو اُس کے انسان ہونے کا درجہ دینا ہوگا کیونکہ عورت مکمل تسلیم کیے بغیر کوئی تہذیب مکمل نہیں اور کوئی سماج حقیقی انصاف پر قائم نہیں رہ سکتا۔ |