زندگی کی جنگ — ایک سچے سفر کی داستان
(Ali Rizvi, Woodbridge, Virginia, USA)
ہمت۔ جستجو۔ محنت اور لگن۔ امریکہ ایک خوابوں کی دنیا |
|
|
زندگی کی جنگ — ایک سچے سفر کی داستان
باب اول: خاندانی سائے اور سایوں کی حقیقت میری پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو بظاہر تعلیم یافتہ تھا، مگر اخلاقی دیوالیہ پن کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا۔ میرے والد، ایک وقت میں پاک فوج میں کمیشنڈ افسر تھے، جنہوں نے ۲nd لیفٹیننٹ کے طور پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور میجر کے رینک تک پہنچ کر فوج کو خیر باد کہہ کر سول سروس اختیار کر لی تھی۔ جب میں اس دنیا میں آیا، میں ان کی تیسری اولاد تھا — درمیان میں پیدا ہونے والا وہ بچہ جسے نہ ماں باپ کی توجہ ملی، نہ بزرگوں کی شفقت۔
ہم ناظم آباد، کراچی میں مقیم تھے، جہاں میرے دادا دادی بھی ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ میرے بڑے بھائی، جن کی رنگت سفید اور جاذب نظر تھی، کو گھر کا شہزادہ سمجھا گیا۔ دادا دادی نے انہیں اپنی پرورش میں لے لیا، یوں میں صرف اپنی ماں کے حصے میں آیا — وہ ماں، جو خود زندگی کے ہر قدم پر ظلم، تحقیر اور محرومی کی ماری ہوئی تھی۔
اسے کبھی فریج کا پانی پینے کی اجازت نہ تھی، نہ اُس کے لیے علیحدہ کھانے کی سہولت۔ اکثر اوقات باسی روٹیاں اُس کا نصیب بنتیں، کہ رزق کا ضیاع "گناہ" سمجھا جاتا، مگر عزت نفس کو کچلنا شاید کوئی جرم نہ تھا۔ خوراک کی قلت کے سبب وہ اپنا دودھ بھی مجھے نہ پلا سکیں۔ دادا دادی ہر روز میرے والد کو جھوٹے الزامات کی فہرست سناتے — کبھی بدتمیزی، کبھی گستاخی، کبھی ناقص کھانا۔ اور میرے والد، اُن باتوں پر یقین کرکے ماں پر ہاتھ اٹھاتے، اُسے ذلیل کرتے۔ میں ننھی آنکھوں سے یہ سب دیکھتا، مگر سمجھنے سے قاصر رہتا۔
دادا کی سخت گیری یہاں تک پہنچی کہ اگر کھانا وقت پر نہ ملتا تو وہ اسے غصے سے اٹھا کر پھینک دیتے۔ بھائیوں اور پھوپھی زادوں کو کہانیاں سناتے، اور میں دروازے کے باہر کھڑا، صرف سننے کی اجازت رکھتا۔ میری حدیں والدین کے کمرے اور باورچی خانے تک محدود تھیں۔
باب دوم: محرومیوں کا بوجھ میں اپنی ماں کے قریب تھا، اور شاید یہی قربت میرے لیے جرم بن گئی۔ روز نت نئے الزامات میرے خلاف تراشے جاتے — کبھی چوری، کبھی نافرمانی، کبھی سازش۔ میرے دادا جب بھی پنشن یا والد کی طرف سے بھیجے گئے پیسے وصول کرتے، تو وہ پیسے اپنی بیٹیوں یعنی میری پھوپیوں کو دے دیتے۔ مگر یہ الزام لگایا جاتا کہ میں نے وہ پیسے چوری کیے، اور اپنی ماں کو دے دیے۔
ماں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مجرم ٹھہرایا جاتا — بات بے بات مار کھانی پڑتی۔ نہ صفائی کا موقع دیا جاتا، نہ سچ سننے کا۔ جیسے فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہو، اور صرف سزا باقی ہو۔ یہ سب روز کا معمول تھا — ماں کی بے گناہی، میری خاموشی، اور ان کے طعنے و تشدد۔
تعلیم میں بھی امتیاز روا رکھا گیا۔ میرے بھائی کو چچا اور پھوپھی کی مکمل حمایت حاصل رہی، جبکہ میں ہمیشہ تنہا چھوڑا گیا، جیسے کسی نے میرے ذہن کے چراغ کو بجھا دینے کی قسم کھا لی ہو۔ میں سب کو خوش کرنے کی کوشش کرتا، ہر چہرے پر مسکراہٹ لانے کی امید لیے جیتا رہا، مگر محبت، قبولیت اور شفقت میرے مقدر میں نہ آئی۔
باب سوم: ہجرت — ایک نیا آغاز میری زندگی میں ایک فیصلہ کن موڑ تب آیا جب میں نے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا۔ خاموشی سے امریکی امیگریشن لاٹری کے لیے درخواست دی۔ اللہ کی رحمت ہوئی اور میرا نام نکلا۔ ویزا انٹرویو کی اطلاع ملی تو میرے والد کو پہلی بار پتہ چلا۔ ماں نے رخصت کرتے وقت آنکھوں میں آنسو لیے کہا: "بیٹا، ناکامی کے ساتھ واپس مت آنا۔" یہ الفاظ میری زندگی کا مشن بن گئے۔
باب چہارم: نیویارک میں تنہائی کی پہلی رات میں 1500 ڈالر لے کر امریکہ پہنچا، جو میرے والد نے یہ سوچ کر دیے تھے کہ اگر کچھ نہ بنا تو واپسی کا ٹکٹ تو ہو۔ نیویارک میں والد کے کزن کے حوالے کیا گیا، جنہوں نے نیو جرسی کے ایک بھارتی ریسٹورنٹ میں ملازمت دلائی۔ لیکن وہاں کا ماحول میرے لیے ناقابل برداشت تھا — گندگی، فحاشی، شراب، سگریٹ اور نازیبا تصاویر۔
میں نے جب کام چھوڑنے کی بات کی، تو والد کے کزن نے سختی سے کہا کہ اگر واپس آئے تو صرف ایک رات رکنے کی اجازت ہو گی۔ اگلے دن سڑک پر نکلنا پڑے گا۔
میں نیویارک کی سڑکوں پر اکیلا تھا، راہ چلتے اجنبیوں سے پتہ پوچھتا رہا۔ ایک چینی ریسٹورنٹ کے مالک نے ہمدردی سے فون کال کی اجازت دی۔ خوش قسمتی سے وہ جگہ کزن کے گھر سے صرف دو بلاک دور تھی۔ وہ مجھے لینے آ گیا، مگر اگلی صبح نکال دیا گیا۔
باب پنجم: کولوراڈو کا سفر — 36 گھنٹے، تنہا رات بھر میں کمرے میں روتا رہا۔ ماں کے الفاظ یاد آئے۔ خود سے کہا: "یہ ہار کا وقت نہیں۔"
کولوراڈو میں میرے چچا مقیم تھے۔ انہیں فون کیا، میری حالت سن کر اُن کی آواز بھرّا گئی۔ کہا: "بیٹے، بیوی سے اجازت لے لوں، پھر بلا لیتا ہوں۔"
آدھے گھنٹے بعد اجازت ملی۔ میں فوراً گری ہاؤنڈ بس میں سوار ہو کر کولوراڈو روانہ ہو گیا — 36 گھنٹے کا طویل اور تھکا دینے والا سفر۔
باب ششم: برف میں چلتا ایک نیا انسان چچا نے گھر میں پناہ دی، مگر صاف کہا کہ روزگار ڈھونڈو، کرایہ دو، اور گھر کے کام کرو۔ میں نے سر جھکا کر سب قبول کیا۔ تین دن کے بعد ایک گیس اسٹیشن پر ملازمت ملی۔ روز 8 میل پیدل چلتا — کبھی برف میں، کبھی بارش میں۔
منیجر بدتمیز اور نسل پرست تھا، گالیاں دیتا۔ ایک دن، پاپائےز ریسٹورنٹ کی خاتون مینیجر نے یہ منظر دیکھا، اور کمپنی کو رپورٹ کی۔ منیجر فارغ ہوا اور مجھے نئی ملازمت ملی۔ میں نے خوشی سے قبول کیا، کیونکہ یہ پہلے سے بہتر تھا۔
پاپائےز میں کام کرنے کے ساتھ ایک سہولت یہ ملی کہ رات کو مفت فاؤنٹین سوڈا مل جاتا۔ مگر افسوسناک بات یہ تھی کہ اکثر یہی فاؤنٹین سوڈا میری واحد غذا بن جاتی، کیونکہ چچا کے بچوں نے جو کھانا ہوتا، وہ سارا کھا لیتے، حالانکہ چچا نے وعدہ کیا تھا کہ میرے قیام میں کھانے کی سہولت شامل ہو گی۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ مجھے شاید ہی کبھی مکمل کھانا نصیب ہوا۔
جب چچا کے گھر مہمان آتے تو مجھے باہر نکلنے کو کہا جاتا۔ میں واک مین اور پانی کی بوتل لے کر سائیکل پر نکل جاتا۔ ایک دن چچی کو چائے نہ پوچھنے پر جھگڑا ہوا، اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب الگ ہو جانا ہے۔ دن میں فیکٹری، رات کو پاپائےز — یہ دو نوکریاں کر کے جلد ہی میں نے ایک بیڈروم کا چھوٹا اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا۔
باب ہفتم: روشنی کی کرن میری پہلی کار آئی۔ امی کا فون آیا کہ والد بیمار ہیں۔ پاکستان گیا، نکاح ہوا۔ واپسی پر بیوی کی امیگریشن کروائی۔ کولوراڈو میں معاشی بحران آیا، نوکری ختم ہو گئی۔ ورجینیا میں خالہ زاد بھائی سے رابطہ کیا، اس نے محبت سے بلایا۔
$500 اور گاڑی لے کر نکلا۔ اوہائیو میں گاڑی خراب ہو گئی، برف باری ہو رہی تھی۔ ایک سفید فام ٹرک ڈرائیور نے لفٹ دی، میری لینڈ کے علاقے ہیریسن برگ میں اتارا۔ ہوٹل میں رات گزاری، جہاں مالک پاکستانی تھا۔ اس نے مہربانی کی، ناشتہ کروایا اور ہوٹل سے باہر چھوڑا۔ اگلے دن خالہ زاد بھائی آ گئے۔
باب ہشم: نیا آغاز، نئی پہچان ورجینیا میں وال مارٹ میں نوکری ملی۔ نئی کار لی، بیوی آ گئی، بیٹا پیدا ہوا، بیٹی ہوئی۔ دن رات کی محنت رنگ لائی۔ کمپنی میں ترقی ہوئی، مینیجر بنا۔ اپنا گھر خریدا۔ بیوی اور بچے امریکی شہری بنے۔
بعد میں خالہ زاد بھائی کی بیوی بھی امریکہ آ گئیں، اور ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں — گویا ہم ان کا گھر چھیننا چاہتے ہوں، حالانکہ ہم باقاعدہ کرایہ دیتے تھے۔ ان کا دل نہ لگا، وہ پاکستان واپس چلی گئیں — اپنے شوہر سے لڑ کر۔
خالہ زاد بھائی کی وفات کے وقت کوئی رشتہ دار موجود نہ تھا۔ میں نے ان کی مکمل اسلامی تدفین کا بندوبست کیا۔ ان کی بیوی پہلے ہی واپس جا چکی تھیں۔
باب نواں: محبت کی کہانی 1994 میں ہم ناظم آباد سے ملیر کینٹونمنٹ فوجی علاقے منتقل ہوئے۔ سیاسی عدم استحکام، فسادات، اور ایم کیو ایم کارکنوں کے قتل عام کے باعث والد نے اپنا اسکول تبدیل کیا۔ میں نے ملٹری پبلک اسکول میں داخلہ لیا جہاں فوجی ماحول میں پروان چڑھا۔
وہ لڑکی، جو میرے دل کی دھڑکن تھی، ایک ریٹائرڈ میجر کی بیٹی تھی، میرے والد کے دوست کی عزیز۔ ہمارے گھر ایک دوسرے کے قریب تھے اور ہم نوجوانی میں قریب آ گئے۔ ہم نے اکثر مل کر وقت گزارا، باتیں کیں، اور ایک دوسرے کی سوچ کو سمجھا۔ لیکن مذہبی اور فرقہ وارانہ خلفشار نے ہمارے تعلقات کو ختم کر دیا۔ وہ اپنی مرضی کے بغیر شادی کر گئی، اور میں دل شکستہ ہوا۔
میں نے شادی کی، ایک وفادار اور ساتھ دینے والی بیوی کے ساتھ، لیکن نوجوانی کی محبت کی یادیں میری روح میں بسی رہیں۔
باب دسواں: شاعری کے چند اشعار ہر درد میں چھپی ہے ایک کہانی، ہر آنسو میں چھپی ہے زبانی۔
محبت کا دامن تھامے رکھا، اندھیروں میں روشنی کی کہانی۔
رہتا ہوں تنہا سناٹے میں، دل کے در پر آ کے کھڑی کہانی۔
یہ زندگی کی جنگ ہے، اے دوستو، جو ہر لمحہ دیتی ہے نئی کہانی۔
|
|