گناہوں میں زندگی گزارنے کا انجام
(محمد یوسف میاں برکاتی, کراچی)
گناہوں میں زندگی گزارنے کا انجام
محمد یوسف میاں برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب جہاں قرآن مجید فرقان حمید کی کئی سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کے بہکاوے میں اکر گناہ کرلینے کے بعد صدق دل سے توبہ واستغفار کرنے والوں کے لیئے خوشخبری سنائی ہے وہاں گناہوں میں ملوث رہتے ہوئے توبہ واستغفار کے راستے پر نہ چلنے پر بڑے عذاب کی بھی وعید سنائی ہے جیسے صحیح بخآری ایک حدیث میں ہے کہ جناب حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے:مؤمِن اپنے گناہوں کو اس انداز سے دیکھ رہا ہوتا ہے گویا کہ وہ کسی پہاڑ (Mountain) تلے بیٹھا ہے اور اسے ڈر ہے کہ کہیں یہ پہاڑ اِس کے اوپر نہ آ گرے جبکہ فاسق و فاجِر کے نزدیک گناہوں کا مُعامَلہ ایسا ہے گویا کوئی مکّھی اس کی ناک پر بیٹھی اور اس نے ہاتھ کے اِشارے سے اُڑا دی۔ ( صحیح البخاری 6308) میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب انسان گناہ کرنے کا عادی ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بچنے کے کئی مواقع ملتے ہیں لیکن جب وہ واپس صحیح راستے کی طرف پلٹنا نہ چاہے تو پھر وہ وقت بھی آجاتا ہے جب اس پر کسی اچھی بات کا اثر نہیں ہوتا اور اسے صحیح راستے پر چلنے کی توفیق بھی نہیں ملتی پھر یوں ہی ذلیل وخوار ہوکر وہ جہنم کا حقدار بن جاتا ہے جیسے اس حکایت میں آپ پڑھیں گے جو حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کی معروف کتاب حکایت رومی سے لی گئی ہے پڑھیئے سمجھیئے اور اس حکایت سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مولانا رومی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ایک چمڑا رنگنے والا اتفاق سے ایسے بازار میں پہنچا جہاں اچھی سے اچھی خوشبو والی عطر بکتی تھی لیکن وہ اتنی خوشبو سونگھ کر یکا یک گر کر بے ہوش ہوگیا اور ہاتھ ٹیڑھے ہوگئے۔ عطروں کی خوشبو جو اس کے دماغ میں گھسی تو چکرا کر گر پڑا۔ اسی وقت لوگ جمع ہوگئے۔ کسی نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا اور کسی نے عرقِ گلاب لاکر چھڑکا لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ عطروں کی خوشبو نے اس کا یہ حال کیا تھا اب کوئی سر اور ہتھیلیوں کو سہلاتا اور سوندھی مٹی بھگو کر سنگھاتا کوئی لوبان کی دھونی دیتا تو دوسرا اس کے کپڑے اتار کر ہوا دیتاتھا۔ آخر جب کسی تدبیر سے ہوش میں نہ آیا تو دوڑ کر اس کے بھائی بندوں کو خبر کی کہ تمہاری قوم کا آدمی فلاں بازار میں بے ہوش پڑا ہے۔ کچھ نہیں معلوم کہ یہ مرگی کا دورہ اس پر کیوں کر پڑ گیا یا کیا بات ہوئی کہ وہ سرِ بازار چلتے چلتے اس طرح گر پڑا۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس چمڑا رنگنے والے کا ایک بھائی بڑا سمجھدار اور ہوشیار تھا۔ یہ قصّہ سنتے ہی دوڑا آیا ۔ تھوڑی سی کتے کی لیٹرین آستین میں چھپائے بھیڑ کو چیر کر روتا پیٹتا اس تک پہنچا۔ لوگوں سے کہا کہ ذرا ٹھہرو مجھے معلوم ہے کہ یہ بیماری کیوں کر پیدا ہوئی اور آپ جانتے ہیں کہ سبب معلوم ہوجانے پر بیماری کا دور کرنا آسان ہوجاتاہے اصل میں وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے دماغ کی ایک ایک رگ میں بدبو تہہ بہ تہہ بسی ہوئی ہے۔ وہ مزدوری کی خاطر صبح سے شام تک گندگیوں اور بدبوؤں میں چمڑے رنگتا رہتا ہے چونکہ سالہا سال سے گندگی میں بسر کرتا رہا ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ عطر کی خوشبو ہی نے اس کو بے ہوش کردیا ہو غرض اس جوان نے سب کو ہٹا دیا تاکہ اس کےعلاج کو کوئی دیکھنے نہ پائے اور بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے اس نے اس کے ناک کے قریب جاکر کتے کی لیٹرین سونگھائی جیسے ہی اس کی بدبو اس کے ناک سے ہوتے ہوئی دماغ تک پہنچی تو اسے ہوش آگیا اور کھڑا ہوکر بیٹھ گیا ۔ مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے اس حکایت میں یہ ہی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جو شخص گناہوں کی لذت میں ڈوب چکا ہوں تو اس پر جنت کی خوشبو بھی اثر نہیں کرتی اور ایسے لوگوں کا انجام پھر یہ ہی ہوتا ہے مولانا رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ دوستو! جس کو مشکِ نصیحت سے فائدہ نہ ہو سمجھ لو کہ وہ گناہوں کی بو، سونگھنے کا عادی ہوگیا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ایسی حکایات ہمارے لیئے تحفہ کے طور پر چھوڑ رکھی ہیں جو ہمیں اپنی زندگی کو صحیح راستے پر چلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور ویسے بھی تاریخ اسلام کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں جا بجا ایسے لوگوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے نیک راستہ اور نیک ہدایت ملنے کا باوجود گناہوں کو نہ چھوڑا اور پھر ان کا انجام رہتی دنیا کے لیئے مثال بن گیا قرآن میں فرعون ، قارون اور نمرود وغیرہ جیسے لوگوں کا ذکر ہمیں بڑی تفصیل کے ساتھ ملتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے غرور اور تکبر میں مبتلا ہوکر اللہ تعالیٰ کی ذات کو جھٹلاتے ہوئے خود خدا بن بیٹھے جبکہ راہ ہدایت بھی موجود ہو لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کو کھینچا تو ان کا انجام سب کے سامنے ہے اور یہ ہی گناہوں میں زندگی کو گزارنے کا انجام ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح، اسلامی تاریخ میں ولید بن مغیرہ کا ذکر بھی ملتا ہے جو نبی کریم ﷺ کا سخت دشمن تھا اور مسلسل گناہوں میں مبتلا رہا۔ اس نے قرآن کا مذاق اڑایا اور حق کو جھٹلایا، جس پر اللہ نے اس کے لیے قرآن میں سخت الفاظ نازل فرمائے جس کا ذکر ہمیں قرآن مجید کی سورہ المدثر کی آیت 11 سے 26 تک میں تفصیل کے ساتھ ملتا ہے یہ ہی ولید بن مغیرہ بعد میں ایک معمولی زخم کے سبب ہلاک ہوا جو اس کے غرور و تکبر کے لیے ایک عبرتناک انجام تھا اور رہتی دنیا تک لوگوں کے لیئے ایک مثال بن گیا جس کا ذکر ہم پڑھتے بھی ہیں سنتے بھی ہیں اور اپنے اپنے انداز سے کرتے بھی ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تاریخ اسلام میں ویسے تو بیشمار دشمنان اسلام اور ان کے انجام کا ہمیں ذکر ملتا ہے جن کا تذکرہ قرآن میں بھی موجود ہے اگر ہر ایک ذکر ہم کریں گے تو ہمارا مضمون طویل ہو جائے گا مضوع کی مناسبت اور بات کو سمجھانے کی غرض سے یہاں ایک شخصیت اس کے گناہ اور اس کے انجام کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا جن میں ایک نام " ابو لہب" بھی ہے جو حضور ﷺ کا چچا ہونے کے باوجود اپنی بیوی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ہمیشہ سے ایک بڑا دشمن رہا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ الہب میں اس کے اور اس کے خاندان کی تباہی کا ذکر کیا ہے یہاں میں اس کے متعلق اس واقعہ کو تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جس کا ذکر سورہ کی تفسیر اور قرآن و حدیث میں ہمیں تفصیل کے ساتھ ملتا ہے آغازِ نبوت سے قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے منسوب تھیں۔ بعض روایات کے مطابق نکاح بھی ہوچکے تھے، مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو ابولہب اور اس کا پورا گھرانہ آپ کا بدترین دشمن بن گیا۔ ابولہب نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق دے دیں۔ انھوں نے نہ صرف ایسا ہی کیا بلکہ عتیبہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے شدید گستاخی بھی کی ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں عتیبہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ساتھ جو گستاخیاں کیں ان کا ذکر بھی ہمیں کئی کتابوں میں بڑی تفصیل کے ساتھ ملتا ہے جیسے ابن عساکر نے محمدبن اسحاق کے حوالے سے ابولہب کے بیٹے عتیبہ کے حالات میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ اس کے راویوں میں عثمان بن عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ہبار بن اسود کی زبانی وہ بیان کرتے ہیں کہ ابولہب اور اس کا بیٹا تجارت کے لیے ملک شام کی جانب روانہ ہوئے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ رخت سفر باندھا۔ سفر پر روانگی سے قبل عتیبہ نے کہا: ''بخدا میں محمد کے پاس جاؤں گا اور اس کے رب کے بارے میں اس کے عقائد کی وجہ سے اسے ضرور اذیت پہنچا کر رہوں گا" ۔اس کے بعد وہ حضورؐ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: ''اے محمد میں اس کا انکار کرتا ہوں جس کے بارے میں تم کہتے ہو یہ بات کرتے ہوئے وہ اتنا قریب آگیا جتنا دو کمانوں کے درمیان فاصلے ہوتا ہے اور اس کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے سورہ النجم میں کیا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس بدبخت نے جو گستاخی کرنا تھی وہ تو کی لیکن ایک بہت بڑا جو جرم کیا وہ یہ تھا کہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے چہرہ انور پر تھوکا لیکن اس کی وہ ناپاک تھوک دور جاکر گری حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اس کی اس حرکت پر بددعا دی کہ " یااللہ اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتے کو مسلط فرمادے " اپنی اس گستاخی کو ایک بڑا کارنامہ سمجھ کر جب وہ واپس آیا تو باپ یعنی ابو لہب نے پوچھا کہ ہاں بیٹا کیا کر آئے ہو تب اس نے سارا ماجرا سنایا تو ابو لہب نے کہا کہ تمہاری اس گستاخی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے کیا جواب دیا تو اس نے بددعا کا ذکر کیا تو ابو لہب کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور کہنے لگا کہ خدا کی قسم بیٹے میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بددعا سے بچتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہمیں یہاں سے فورآ نکلنا ہوگا اور پھر وہ تجارت کی غرض سے ملک شام روانہ ہوگئے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہبار بن اسود نے مزید کہا کہ جب ہمارا قافلہ ابراہ کے مقام تک پہنچا تو وہاں ایک گرجا گھر نظر آگیا وہاں ہم نے قیام کیا اس گرجا گھر کے پادری نے ہمیں جب دیکھا تو کہنے لگا کہ اے عرب کے لوگوں تم یہاں کیسے آئے ہو یہ تو بڑی خطرناک جگہ ہے یہاں شیر اس طرح گھومتے ہیں جیسے تمہارے علاقوں میں بکریاں یہ سن کر ابولہب کے اوسان خطا ہوگئے اور اس نے ہم سے کہا: ''تم جانتے ہو کہ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ میرے مقام و مرتبہ سے بھی تم واقف ہو اور میرے تم پر جو حقوق ہیں ان سے بھی بے خبر نہیں ہو۔ اس شخص (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم) نے میرے بیٹے کو بددعا دی ہے، جس سے میں سخت فکر مند ہوں۔ پس تم سارا سامان اس گرجا گھر کے صحن میں جمع کردو اور اس کے اوپر میرے بیٹے کا بستر لگا دو۔ پھر اس سامان کے ارد گرد تم سب سو جاؤ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہبار کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا۔ رات جب سو گئے تو جنگل سے شیر آیا۔ ہم سب کے چہروں کو اس نے سونگھا مگر کسی کو کچھ نہ کہا۔ پھر سامان کے بلند ڈھیر پر چڑھ گیا، عتیبہ کے چہرے کو سونگھا اور اسے چیرپھاڑدیا۔ ابولہب کا برا حال تھا اور وہ کہے جارہا تھا: ''میں جانتا تھا میرا بیٹا محمد کی بددعا سے کبھی نہیں بچ سکے گا اور یوں عتیبہ اپنے انجام کو پہنچا ابولہب چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوا اور گل سڑ کر مرگیا۔ اس کی لاش تین دن تک پڑی رہی کوئی اس کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ جو قریب جائے گا اسے چھوت کی وہی بیماری لگ جائے گی جس سے وہ مرا ہے۔ جب بدبو پھیل گئی تو لوگوں نے اس کے اہل وعیال کو عار دلائی۔ اس پر انھوں نے ان طعنوں سے تنگ آکر کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر لاش اٹھوائی جنھوں نے اسے لمبی لکڑیوں پر رکھ کر ایک گڑھے میں پھینکا اور اوپر سے دور کھڑے ہو کر یوں پتھر پھینکے جیسے اسے رجم کیا جارہا ہو۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بالکل اسی طرح اس کی بیوی جو ام جمیل کے نام سے معروف تھی ابوسفیان کی بہن تھی۔ اس کا نام ارویٰ بنت حرب تھا۔ وہ بھی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مری اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اس کی گردن میں مونج کی رسی ڈال کر اسے جہنم میں پھینکا گیا ہے۔ وہ اپنے قیمتی ہار پر فخر کیا کرتی تھی اور ڈینگیں مارتی تھی کہ میں یہ قیمتی ہار بیچ کر محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی مخالفت میں لگا دوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی گردن میں وہ طوق ڈالا جس سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں گناہوں میں زندگی گزارنے والے اور ان کے انجام کے بارے میں قرآن مجید میں اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں کا ہمیں ذکر ملتا ہے جیسے میں نے پہلے بھی کہا کہ فرعون ، قارون ، نمرود ، ابولہب ، ابو جہل ، یزید ، شداد وغیرہ اور اس کے علاوہ ہمیں مختلف کتابوں میں ہمارے چاروں خلفاء کے دشمن تابعین تبع تابعین اولیاء کرام اور بزرگان دین کے دشمنوں اور ان کے انجام کی بھی ایک طویل فہرست ملتی ہے جبکہ ایسے لوگ جو شیطان کے پیروکار ہوتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریمﷺ کے نافرمان ہوتے ہیں ان کا ذکر بعد کی تاریخ میں بھی ملتا ہے اور ایسے بدبخت لوگ ہمیں آج کے اس پر فتن دور میں بھی اپنے ارد گرد نظر آتے ہیں جن کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ شیطان کے کہنے میں آکر صحیح راستوں پر گامزن لوگوں کو راستے سے بھٹکا کر ان کو گناہوں کے دلدل میں دھنسا دیں بس ہمیں اپنے ایمان کی مظبوطی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شیطان کے بہکاوے میں آکر جب کوئی انسان مسلسل گناہوں پر اپنی زندگی گزارتا ہے تو شیطان اس کا دماغ مائوف کردیتا ہے اور وہ اپنے انجام سے لا تعلق ہوجاتا ہے اور اسی لیئے وہ گناہوں سے باز نہیں آتا بلکہ اس میں مصروف رہتے ہوئے ہی اپنے انجام تک پہنچ جاتا ہے اصل میں انسان میں نفس امارہ ہرلمحہ اسے گناہوں میں مبتلا کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ جب انسان کسی گناہ یا غلط کام کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ یہ جان رہا ہوتا ہے کہ وہ غلط کام یا ظلم وزیادتی اور فسق وفجور کررہا ہے، رسول اللّٰہﷺ کے طریقے کی مخالفت کررہا ہے اور اللّٰہ کے فرامین سے بغاوت کرکے اس کے قہر وغضب کو دعوت دے رہا ہے۔ یوں وہ اپنی دنیا وآخرت دونوں کو تباہ وبرباد کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ شیطان کے وار، خواہشات کا غلبہ، گناہوں کی عارضی لذت، دنیا کی چکاچوند، جھوٹی اور کھوکھلی عزت کا نشہ اس کو گناہ کے ارتکاب کی طرف لے جاتے ہیں۔گناہ کے ارتکاب کے وقت جب کبھی اس کا ضمیر اسے آواز دیتا ہے تو وہ یہ کہہ کر ضمیر کو خاموش کرادیتا ہے کہ ابھی بڑی عمر پڑی ہے، میں عنقریب توبہ کرلوں گا اور اس طرح وہ اپنے دل کو بہلاتا رہتا ہے اور گناہوں کی گہری دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں درحقیقت گناہ انسان کے حق میں نہایت خطرناک ہیں۔ اس سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجاتے ہیں اور گناہ کا اثر جسم میں زہر کی طرح سرایت کر جاتا ہے۔ ابلیس کے ملعون ہونے کی وجہ بھی یہی گناہوں کی نحوست تھی۔ قومِ نوح اور عاد و ثمود کو بھی گناہوں کی پاداش میں عذاب سے دوچار کیا گیا ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جب کسی پریشانی یا مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو اسے زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر گزار دیتے ہیں جبکہ ایک اہل ایمان مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ یہ پریشانیاں اور مصیبتیں یا تو ہم پر آزمائش ہیں یا ان گناہوں کی سزا جو ہم نے اپنی زندگی میں کیئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ الشوریٰ کی آیت 30 میں فرمایا کہ وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰) ترجمعہ کنزالایمان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے ۔ بالکل اسی طرح اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی کئی آیتوں میں یہ واضح کیا ہے کہ جو انسان مسلسل گناہوں میں مبتلا رہتا ہے اور ہدایت ملنے کے باوجود صحیح راستے کی طرف نہیں آتا تو پھر اس کا انجام وہ ہی ہوتا ہے جو پچھلی قوموں اور ان کے بڑے بڑے سورمائوں کا ہوا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب انسان شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے تو اسے موت کی فکر نہیں ہوتی بلکہ موت اس کے لیئے کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ شیطان اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ زندگی جب تک ہے اسے اپنی مرضی اور خواہشوں کے مطابق گزارو اور اسے گناہوں کی لذت سے اتنا آشکار کردیتا ہے کہ اس گناہ اچھا لگنے لگتے ہیں اور وہ بھول جاتا ہے کہ موت کا وقت موت کی جگہ اور اس کا سبب سب کچھ لکھا جا چکا ہے وہ کسی بھی طرح کسی بھی حال میں اس سے بچ نہیں سکتا لیکن وہ گناہوں کا عادی ہوکر اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف عمل ہوتا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں موت انسان کو کس طرح ڈھونڈ لیتی ہے یہ پڑھیئے حضرت اعمش روایت کرتے ہیں کہ ملک الموت حضرت سلیمان علیہ السلام کی مجلس میں آئے اور ان کے ساتھیوں میں سے ایک کو گھورنے لگے، جب مجلس برخاست ہوئی تو اس شخص نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا۔ ’’یہ کون شخص تھے جو مجھے اس طرح گھور رہے تھے۔’’ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب دیا۔ ’’یہ ملک الموت تھے۔‘‘ یہ بات سن کر وہ شخص بے حد گھبراگیا اور کہنے لگا شاید وہ میری روح قبض کرنا چاہتے ہیں۔ ’’حضرت سلیمان نے اس سے دریافت کیا، تم کیا چاہتے ہو۔‘‘ اس نے شخص نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ علیہ السلام ان سے بچائیں اور ہوا کو حکم دیں کہ وہ مجھے اڑا کر کہیں دور لے جائے۔ آپؑ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور ہوا اس شخص کو اڑا کر لے گئی۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تھوڑی دیر بعد ملک الموت دوبارہ مجلس میں حاضر ہوئے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ تم میرے فلاں صاحب کو کیوں گھور رہے تھے، ملک الموت نے کہا مجھے اس شخص کو آپؑ علیہ السلام کی مجلس میں دیکھ کر حیرت ہورہی تھی، کیونکہ خدا تعالیٰ سے مجھے اس شخص کو ہند کے فلاں علاقے میں روح قبض کرنے کا حکم ملا تھا، مگر وہ آپؑ علیہ السلام کی مجلس میں تھا مگر آپ علیہ السلام کے حکم پر ہوا نے اسے وہیں چھوڑا جہاں سے مجھے اس کی روح قبض کرنی تھی جب میں اس علاقے میں پہنچا تو وہ وہاں موجود تھا جہاں میں نے اس کی روح قبض کرلی۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انسان کا اس دنیا میں جب وقت پورا ہوجاتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں ملتی اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں رہنے کے لیئے جو زندگی عطا کی ہے اسے گزارنے کے لیئے بھی دو راستے بتائیں ہیں ایک اس کے احکامات اور اس کے حبیب کریمﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے والا راستہ جو ہمیں جنت کی طرف لے جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ شیطان کے بہکاوے میں آکر عمل کرنے والا راستہ جو ہمیں جہنم کی طرف لے جاتا ہے اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ہم جو راستہ اپنے لیئے منتخب کریں کیونکہ آپ نے آج کے اس مضمون میں گناہوں میں زندگی کو گزارنے کا انجام دیکھ لیا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں زندگی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی امانت ہے بلکہ یہ ہمارے لیئے کسی نعمت سے کم نہیں بس اللہ تعالیٰ کی عطا سے ملنے والی اس نعمت کو رب تعالی کی مرضی اور اس کی رضا میں گزاریئے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کیجیئے ایسا نہ ہو کہ گناہوں میں زندگی گزرتی جائے اور اسی حالت میں موت واقع ہو جائے اور ہم ایمان کے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائیں ( اللہ نہ کرے ) ۔مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔ |
|