چودہ اگست 2025 : ہم کہاں سے چلے تھے، کہاں پہنچے؟

چودہ اگست 2025
ہم کہاں سے چلے تھے، کہاں پہنچے؟
علی عباس کاظمی(روپوال، چکوال)
چودہ اگست کا دن ہر سال ہمیں ایک عہد، ایک خواب اور ایک غیر معمولی جدوجہد کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن کسی عام آزادی کی سالگرہ نہیں بلکہ لاکھوں قربانیوں، ان گنت مظالم اور ایک بے مثال سیاسی شعور کی کامیابی کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ایک پسے ہوئے تقسیم شدہ اور معاشی طور پر کمزور قوم نے اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا، اسے حاصل کیا اور پھر اسے سنوارنے کی جدوجہد شروع کی۔ آج جب ہم 2025 میں داخل ہو چکے ہیں اور پاکستان کی آزادی کے 78 برس مکمل ہو چکے ہیں تو یہ سوال ناگزیر ہے کہ ہم کہاں سے چلے تھے، کہاں پہنچے ہیں اور ہمیں آگے کہاں جانا ہے؟
قیامِ پاکستان کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں تھا یہ ایک مکمل سیاسی، سماجی اور فکری تحریک کا نتیجہ تھا۔ دو قومی نظریہ، جو اس تحریک کی بنیاد تھا صرف ایک جملہ یا نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی جداگانہ شناخت، تہذیب، ثقافت اور سیاسی مقام کو اجاگر کیا۔ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ ایک ہندو اکثریتی ریاست میں ان کا دین، ان کی زبان، ان کے رسم و رواج اور ان کی ترقی کو خطرات لاحق ہیں۔ چنانچہ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک ایسی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی گئی جہاں مسلمان آزادی سے اپنی زندگیاں گزار سکیں۔14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا لیکن یہ آزادی مفت نہیں ملی لاکھوں لوگ شہید ہوئے، بے گھر ہوئے، خواتین کی عصمت دری کی گئی اور مہاجرین کے قافلے خون میں نہا گئے۔ مگر اس سب کے باوجود ایک امید تھی، ایک جذبہ تھا ۔ ۔ ۔ اور ایک نئی شروعات کا حوصلہ تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی سال بہت مشکل تھے بھارت نے کئی اثاثے روک لیے، مہاجرین کا بوجھ ریاست پر آ گیا، سرکاری مشینری نامکمل تھی اور بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر کے جنگ چھیڑ دی۔ ان تمام مسائل کے باوجود پاکستان نے اپنے قدم جمانے کی کوشش کی۔ قائداعظم نے مختصر وقت میں کئی اداروں کی بنیاد رکھی نظریاتی اور انتظامی سمت متعین کی مگر ان کی وفات کے بعد قیادت کا بحران شدت اختیار کر گیا۔1951 میں لیاقت علی خان کے قتل نے سیاسی قیادت کی ناپختگی کو مزید واضح کیا۔ آئین سازی میں تاخیر ، سیاسی عدم استحکام اور طاقت کی رسہ کشی نے جمہوریت کے پاؤں جکڑ دیے۔ 1958 میں پہلا مارشل لاء لگا اور یوں پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت کی بنیاد پڑ گئی۔
ایوب خان کا دور اگرچہ آمرانہ تھا لیکن صنعتی و زرعی ترقی، ڈیمز کی تعمیر اور انفراسٹرکچر کی بہتری کی وجہ سے 1960 کی دہائی کو "ترقی کا عشرہ" کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں تیزی آئی ملک نے عالمی سطح پر پہچان بنائی اور کئی ادارے قائم کیے گئے۔ لیکن اسی دور میں طبقاتی فرق بڑھا، مشرقی پاکستان کو نظرانداز کیا گیا اور بالآخر یہ تمام عوامل 1971 کے المیے پر منتج ہوئے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی صرف ایک جغرافیائی سانحہ نہیں تھی بلکہ ایک نظریاتی و انتظامی ناکامی تھی۔ ریاستی بے حسی، سیاسی ناانصافی اور فوجی طاقت کے استعمال نے قوم کو دو ٹکڑے کر دیا۔ بنگلہ دیش کا قیام ہمیں بتاتا ہے کہ صرف آزادی حاصل کرنا کافی نہیں اسے سنبھالنا اور انصاف فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
1971 کے بعد پاکستان نے دوبارہ جمہوری سفر شروع کیا مگر جلد ہی فوج ایک بار پھر طاقت میں آ گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں نہ صرف جمہوریت کو دبایا گیا بلکہ مذہبی شدت پسندی کو ریاستی سطح پر فروغ دیا گیا، افغان جنگ میں امریکی مفادات کی خاطر شمولیت نے ملک کو کلاشنکوف، ہیروئن اور شدت پسندی کے کلچر کی دلدل میں دھکیل دیا جس سے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا۔ضیاء الحق کے بعد جمہوری حکومتیں آئیں مگر بدعنوانی، اقربا پروری اور ناقص گورننس نے عوام کا اعتماد کمزور کر دیا۔ 1990 کی دہائی سیاسی عدم استحکام سے بھرپور تھی، بار بار حکومتوں کی برطرفی، عدلیہ اور میڈیا پر دباؤ اور ادارہ جاتی انتشار نے ریاست کو کمزور کیا۔
2000 میں پرویز مشرف نے ایک بار پھر مارشل لا نافذ کیا، اگرچہ ان کے دور میں آئی ٹی، پرائیویٹ میڈیا اور معاشی اصلاحات کا آغاز ہوا لیکن بنیادی جمہوری ڈھانچے مزید کمزور ہوئے۔ 2008 کے بعد جمہوری عمل بحال ہوا مگر اس دوران بھی بدعنوانی، کمزور احتساب اور سیاسی محاذ آرائی نے اصلاحات کو آگے نہ بڑھنے دیا۔2013 کے بعد کچھ معاشی استحکام آیا اور بجلی کے بحران میں کمی آئی مگر سی پیک جیسے بڑے منصوبوں میں شفافیت کی کمی، ادارہ جاتی ٹکراؤ اور سیاسی انتقام بازی نے ترقی کی رفتار سست کر دی۔ 2018 کے بعد احتساب کے نام پر سیاسی انتقام، مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ اور خارجہ پالیسی میں غیر یقینی نے عوام کو بے چینی میں مبتلا کیا۔
2025 میں کھڑے ہو کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اب ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ ایک طرف ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو آئی ٹی، ای کامرس، فری لانسنگ اور اسٹارٹ اپ کلچر میں دنیا بھر میں مقام بنا رہا ہے۔دوسری طرف، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، معاشی ترقی کی رفتار سست ہے، روپے کی قدر کمزور ہے اور قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ زراعت میں جدت آ رہی ہے مگر کسان اب بھی بنیادی مسائل سے دوچار ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہوا ہے مگر درآمدات پر انحصار کم نہ ہو سکا۔
تعلیم کے شعبے میں اسکول تو بنے ہیں مگر معیار آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ پرائیویٹ ادارے بڑھ رہے ہیں مگر عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی حالت ابتر ہے اور بچیوں کی تعلیم کا تناسب تشویشناک ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں چند جامعات نے عالمی درجہ بندی میں جگہ بنائی ہے مگر یہ کامیابیاں محدود طبقے تک محدود ہیں۔صحت کا شعبہ بھی انہی تضادات کا شکار ہے ، شہری علاقوں میں پرائیویٹ اسپتال جدید سہولیات سے آراستہ ہیں مگر دیہی اور مضافاتی علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ کورونا وبا نے اس نظام کی کمزوری کو مکمل بے نقاب کیا۔
پاکستانی سماج میں گزشتہ دہائی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے،سوشل میڈیا نے شعور اجاگر کیا ہے، خواتین، خواجہ سرا اور اقلیتوں کے مسائل پر بات ہونے لگی ہے مگر عملی اقدامات کی رفتار سست ہے۔ پاکستانی فلم، ڈرامہ، موسیقی اور ادب میں ایک نیا انداز ابھرا ہے جو مقامی و عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔دوسری طرف سوشل میڈیا پر غلط معلومات، نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ مواد نے معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کیا ہے۔ اخلاقی اور فکری تربیت کا خلا محسوس کیا جا رہا ہے۔
ہم ایک خواب، ایک نصب العین اور ایک نظریے کے ساتھ چلے تھے۔ ہم نے ایک ایسی ریاست کا وعدہ کیا تھا جہاں انصاف ہو، مساوات ہو اور دین کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہو۔ ہم نے ایک فلاحی اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جو دنیا کے لیے مثال بنے۔ہم نے ترقی بھی کی، قربانیاں بھی دیں، جنگیں بھی لڑیں، بحرانوں سے بھی نکلے مگر ہم آج بھی اس منزل سے دور ہیں جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہمارے ادارے کمزور ہیں، انصاف ناپید ہے، صحت اور تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں اور معیشت غیریقینی کا شکار ہے۔ مگر ساتھ ہی ہمارے نوجوانوں میں جوش ہے، آئی ٹی اور سائنسی ترقی کی امید ہے اور دنیا میں ابھرنے کی خواہش بھی موجود ہے۔
چودہ اگست 2025 ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومیں صرف نعرے لگانے سے ترقی نہیں کرتیں، بلکہ عملی اقدامات، اجتماعی شعور اور دیانتدار قیادت سے آگے بڑھتی ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، اداروں کو آزاد اور مضبوط کریں، تعلیم و صحت کو اولین ترجیح بنائیں اور نوجوانوں کو بہتر مستقبل فراہم کریں۔ ہمیں سیاست سے بالاتر ہو کر قومی سوچ اپنانی ہوگی تبھی ہم اس منزل کو پا سکیں گے جس کا آغاز 1947 میں ہوا تھا۔
 
Ali Abbas Kazmi
About the Author: Ali Abbas Kazmi Read More Articles by Ali Abbas Kazmi: 2 Articles with 178 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.