سیِّدُنا بِلال حبشی بِنْ رَبَاح رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
(ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری, Faisalabad)
جَلِیلُ الْقَدْرصَحابی،سَابِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ ، مُؤَذِّنِ رَسُول ،مُحِبِّ خَیر الْوَریٰ ، خازِنِ مصطفےٰ ،عَنْدَلِیبِ تَوحِید سیِّدُنا بِلال حبشی بِنْ رَبَاح رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ |
|
|
سیِّدُنا بِلال حبشی بِنْ رَبَاح رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ |
|
جَلِیلُ الْقَدْرصَحابی،سَابِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ ، مُؤَذِّنِ رَسُول ،مُحِبِّ خَیر الْوَریٰ ، خازِنِ مصطفےٰ ،عَنْدَلِیبِ تَوحِید سیِّدُنا بِلال حبشی بِنْ رَبَاح رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ✍️ اکـــــــرام الحــــــــق چـــوہـــدری نام و نسب : نام : بلال۔کنیت:ابو عبداللہ۔والد کا نام :۔رباح ۔والدہ کا نام :حمامہ تھا۔حبشی النسل تھے۔المعروف بلال حبشی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ۔ رباح اور ان کی بیوی مَکَّہ مُکَرَّمَہ آگئے تھے اور قریشی خاندان بنو جمح کی غلامی اختیار کر لی یا غلام بنا لیے گئے۔ بعثت نبوی سے تقریباً 28سال پہلے مکہ میں غلامی ہی میں پیدا ہوئے،قریش کے قبیلے بنو جمح میں پرورش پائی ۔ حلیہ : سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے متعلق عام طَور پر یُوں سمجھا جاتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا رنگ بہت زیادہ کالا تھا بلکہ بعض لوگ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا حُلْیہ بیان کرتے ہیں تو مَعَاذَ اللہ! ایک وحشت ناک سا ماحول بنا دیتے ہیں ، اللہ پاک بے ادبی سے محفوظ فرمائے! یہ دُرست نہیں ہے۔ سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بڑے ہی جاذب نظر ، گَہْرَے گندمی رنگ اور پُرکشش نقوش کے مالک تھے۔ دولتِ اسلام : اسلام لانے کا سفر ایسے ہی غلامی کے ایام گزر رہے تھے،کہ جب ان کے کانوں نے محمد ﷺ کی خبریں سنیں ۔ جب اہل مکہ آپس میں ایک دوسرے سے محمد ﷺ کے بارے میں باتیں کرنے لگے ۔ سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اپنے سرداروں اور ان کے پاس آنے والے مہمانوں کی باتیں بڑے غور سے سنتے تھے۔ اور امیہ بن خلف جن کے آپ غلام تھے اس کی زبان سے سنتے کہ وہ بھی اپنے دوستوں اور کبھی اپنے قبیلے کے افراد کے ساتھ نبی ﷺ کے بارے میں غلط بیانی کرتے اور آپس میں بڑی غلیظ گفتگو کرتے۔ لیکن وہ لوگ مخالفت کے باوجود حضرت محمد ﷺ کی سچائی اور امانت داری کا اعتراف بھی کرتے تھے۔ یہی باتیں سیدنا بلال رضی الله عنہ کو دربار رسالت میں لانے کا سبب بنی ۔ آئینہ دل شَفّاف تھا، اس لیے ضیائے ایمان نے اس کو منور کیا پھر وہ وقت آن پَہُنچْنا کہ نبی کریم ﷺ کی محبت سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئی اور آپ نے اسلام کو گلے لگایا ۔ اسلام کی نعمت قبول کرنے میں سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا شمار تقریباً ساتویں نمبر پر ہوتا ہے۔ (اس طرح آپ سَابِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ ) میں بھی شمار ہوتے ہیں ۔ فوراً ہی آپ کے اسلام کی خبر پھیل گئی،کہ امیہ بن خلف کا حبشی غلام مسلمان ہو گیا ۔ جیسے ہی سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اسلام قبول کیا جہاں ان کی ایمان والی زندگی کا آغاز تھا تو وہیں ان پر مصائب و تکالیف اور آزمائشوں کا بھی آغاز ہو گیا ۔جس وقت آپ ﷺ سمیت آزاد اور اپنے قبیلوں کے سرکردہ لوگ مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے تو اک بیچارے غلام کی کیا حالت ہو گی ۔ جب امیہ نے سنا کہ بلال مسلمان ہو گئے ہیں۔تو انہیں دین سے پھیرنے کے لیے گونا گوں عذاب ایجاد کئے گئے ۔گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے ہاتھ میں دی جاتی اور وہ مکہ کی پہاڑیوں میں انہیں لئے پھرتے یہاں تک کہ رسی کا نشان گردن پر نمایاں ہو جاتا ۔ وادی مکہ کی گرم ریت پر اور کبھی دہکتے ہوئے انگاروں پر انہیں لٹا دیا جاتا اور گرم گرم پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیا جاتا ۔ مُشکیں باندھ کر لکڑیوں سے پیٹا جاتا۔ دھوپ میں بٹھایا جاتا۔ بھوکا رکھا جاتا۔ سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے ان سب حالتوں میں بھی دیوانہ وار عشقِ الٰہی میں اَحَدُ اَحَدُ “ کے نعرے لگاتے رہتے ۔ مقصد یہ تھا کہ بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ دین اسلام سے پھر جائیں اور واپس ان لوگوں کے دین کو قبول کرلیں۔تکالیف پہنچانے والے بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو مسلسل کہتے کہ لات و عزیٰ کا نام لو ،لیکن آپ کی زبان پر ایک ہی لفظ ہوتا ۔ اَحَدُ ۔ ۔ ۔ اَحَدُ غلامی سے آزادی : سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو خریدنا سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو تکالیف پہنچانے اور مصائب کے پہاڑ ڈھانے کا یہ معمول روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا تھا ۔ کہ ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ان لوگوں کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ انہیں تکالیف پہنچارہے ہیں تو وہ زور سے چلائے : کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے؟ پھر انہوں نے امیہ بن خلف کو کہا کہ جو چاہو بلال کی قیمت لے لو اور اسے آزاد کر دو ۔ امیہ نے یہ سمجھا کہ اس کے لیے اس غلام کو مارنے کی بجائے بیچنا زیادہ نفع بخش سودا ہے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اپنا غلام فسطاس اور چالیس اوقیہ چاندی امیہ بن خلف کو دے کر بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو نجات دلائی ۔ پھر جب سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو لے جا رہے تھے تو امیہ کہنے لگا : "لات اور عزی کی قسم ! اگر تم اسے ایک اوقیہ کے عوض بھی خریدنا چاہتے تو میں اسے تمہارے ہاتھ فروخت کر دیتا ۔" سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےجواب میں فرمایا : "اللہ کی قسم ! اگر تم اسے سو اوقیہ کے عوض بھی بیچتے تو میں ادا کر دیتا۔ " سحان اللہ سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو خریدا کر فوراً خدا کے لئے آزاد کر دیا ۔ جب سے اسلام کی روشنی پھیلی اس وقت سے آج تک وہ بلاشبہ سچائی اور ایمان کی ایک عظیم مثال ہے ۔ اور استقامت کی ایک اتنی بڑی مثال کہ جو بے مثال ہے۔ تب سے آج تک اور رہتی دنیا تک ان کا نام مسلم اور غیر مسلم کے ذہن میں مکمل طور پر محفوظ رہے گا۔ اسلام سے پہلے سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ محض ایک ادنی غلام کے سوا کچھ بھی نہ تھے جو کھجوروں کی چند مٹھیوں کے بدلے اپنے آقا کی بکریاں چرایا کرتے تھے اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ اگر اسلام نہ ہوتا تو محض ایک غلام کی حیثیت سے ہی اپنی زندگی مکمل کرتے نہ دنیا میں کوئی جانتا اور نہ جنت میں کوئی مقام ملتا ۔ یہ اسلام ہی کا سایہ تھا جس میں رہتے ہوئے صدق ایمان اور عظمت دین اور استقامت نے ان کو نہ صرف ان کی اپنی زندگی بلکہ عالم اسلام میں عظمائے کرام کے درمیان تاریخ میں بہت مقام دیا۔ تاریخ کو اگر پرکھا جائے تو بہت سے بہادر ایسی تاریخی شہرت حاصل نہ کر سکے جو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے حاصل کی ۔ جب انہوں نے اسلام کو ترجیح دی تو ان کی سماجی حیثیت اور حسب و نسب بے معنی ہو کر رہ گیا۔ اور ان کو ان کی سچائی کی پاکیزگی اور دین اسلام کے لیے مر مٹنے نے اس مقام تک پہنچادیا جوکوئی اور حاصل نہ کر سکا۔ ہجرتِ مدینہ : ہجرت کرکے مدینہ آئے اور سعد بن خیثمہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے ہاں مہمان ٹھہرے ۔نبی کریم نے مہاجرین اور انصار میں مواخات کرائی عبداللہ بن عبد الرحمن انصاری رضی الله عنہ کو آپ کا دینی بھائی بنایا ۔ اسلام لانے کے بعد بدر سے لیکر تبوک تک تمام غزوات میں شرکت فرمائی اور غزوہ بدر میں امیہ بن خلف کو صحابہ کے ساتھ مل کر قتل کیا۔ مُؤَذِّنِ رسول کا اعزاز : 2 ہجری میں مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد یہ مسئلہ سامنے آیا کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے بلایا جائے ۔آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا ۔مختلف آراء سامنے آئیں مگر رد کر دی گئیں ،کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ اسی شب خواب میں سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کسی غیبی فرشتہ نے اذان کلمات سکھائے ، وہ یہ خواب دیکھ کر دربار نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہﷺ میں کچھ سور ہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا کہ کسی نے مجھے یہ کلمات (جو اب اذان میں دہرائے جاتے ہیں) تلقین کیے ہیں، آپﷺ نے انہیں سن کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یاد فرمایا، اور فرمایا کہ یہ کلمات کسی اونچی جگہ کھڑے ہو کر دہراؤ، یہ کلمات جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنے تو انتہائی خوشی کے باعث اپنی چادرگھسیٹتے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہی الفاظ بیس دن قبل میں نے بھی کسی کہنے والے سے سنے تھے مگر شرم کی وجہ سے عرض نہ کر سکا۔ اس پر شیخ الحدیث زکریا رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ ،،اس ناکارہ کا خیال یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید کے خواب میں کلمات اذان سننے کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ترجیح دی ، تو یہ ان کی ان مشقتوں اور تکلیفوں کا بدلہ تھا جو انہوں نے ابتدائے اسلام میں کفار مکہ کے ہاتھوں برداشت کی تھیں ۔اگرچہ حدیث پاک میں اس ترجیح کی وجہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بلند آواز ہونا بتلایا گیا ہے، مگر وہ میرے اس قول کے منافی نہیں۔،، آپ ﷺ کے سفر و حضر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مُؤَذِّنِ رسول کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ جس رب نے مجھے سُلائے رکھا اس نے ...: حضرت ابو قتادہ اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُما سے روایت ہے : ”جب رسول اکرم ﷺ غزوہ خیبر سے واپس پلٹے تو رات بھر چلتے رہے، حتیٰ کہ آپ ﷺ کو اونگھ آنے لگی تو ایک شخص نے رسول اللہ کریم ﷺ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول! ﷺ اگر ہم پڑاؤ ڈال دیں تو کیسا رہے گا؟'' اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے خدشہ ہے کہ اس وقت پڑاؤ ڈال لیا تو تم سوتے رہ جاؤ گے اور نماز فجر جاتی رہے گی ۔" اس پر سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کہنے لگے: "آپ سب کو جگانا میرے ذمہ رہا۔ رسولِ اکرم ﷺ نے سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے کہہ دیا : ” ٹھیک ہے، آج رات تم پہرہ دو۔" جب تمام لوگ سو گئے جبکہ سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نماز پڑھنے لگے، چنانچہ جس قدر اللہ کو منظور تھا، سیدنا بلال نماز پڑھتے رہے اور پھر جب صبح قریب ہوئی تو انھوں نے مشرق کی طرف منہ کیا اور اپنی اونٹنی کے کجاوے کے ساتھ ٹیک لگالی۔ یوں بیٹھنا تھا کہ ان کی آنکھوں پر نیند نے غلبہ پالیا اور وہ سو گئے، پھر نہ تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھ کھلی نہ سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی اور نہ صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُم میں سے کسی اور کی آنکھ کھل سکی ، حتیٰ کہ سورج کی دھوپ جب ان کے چہروں پر پڑی تو سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی آنکھ کھلی ۔ یہ منظر دیکھ کر اللہ کے رسول ﷺ گھبرا گئے اور ہلال کو آواز دینے لگے : ( يَا بِلَالُ ! أَيْنَ مَا قُلْتَ؟» اے بلال! جو تو نے کہا تھا وہ کہاں گیا ؟ اس پر سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عرض کرنے لگے : اے اللہ کے رسول! ﷺ جیسی نیند آج آئی ایسی پہلے کبھی نہیں آئی ، آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ! "اسی رب نے مجھے سُلا دیا جس رب نے آپ ﷺ کو سُلائے رکھا ۔" اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَزْوَاحَكُم حِيْنَ شَاءَ وَ رَدُّهَا عَلَيْكُمْ حِيْنَ شَاءَ "بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمھاری روحوں کو جب چاہتا ہے (نیند میں مبتلا کر کے ) قبضے میں کر لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان روحوں کو تمھارے جسموں میں لوٹا کر ( بیدار کر دیتا ہے۔" پھر آپ ﷺ نے فرمایا: "یہاں سے اونٹوں کو ہانکو "صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُم نے اونٹوں کو تھوڑا سا ہانکا تو نبی کریم ﷺ نے سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو حکم دیا: "چلو اور اذان کہو ۔" اس کے بعد آپ ﷺ نے وضو کیا اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز پڑھا چکے تو فرمایا : ”جس کی نماز رہ جائے اسے جس وقت یاد آئے ،اسی وقت ادا کر لے ۔" بیت اللّٰہ کی چھت پر اذان : 8 ہجری میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ فتح ہو گیا ۔ رسول اللہ ﷺ اللّہ تعالیٰ کا شکر اور بڑائی بیان کرتے ہوئے دس ہزار مسلمانوں کی سربراہی میں مکہ میں داخل ہوتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد جس صحن حرم میں سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ پر ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ انہی بلال کو ظہر کی نماز کے وقت سرکار ﷺ پکارتے ہیں ۔ بلال کدھر ہیں ؟ “کعبہ بیت اللّٰہ کی چھت پر چڑھو اور اذان دو۔“ سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حکم سنتے ہی کعبہ بیت اللّٰہ کی چھت پر چڑھ گئے۔ اور عرض کیا! آقا ﷺ اپنا رخ کس جانب کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ “اپنا رخ میری طرف کر کے اذان کہو ۔“ قدموں کی آہٹ جنت میں : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن صبح کی نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر پو چھا۔ اے بلال ! مجھے تم کوئی اپنا ایسا عمل بتاؤ جس پر سب سے زیادہ اجر و ثواب کی امید ہو۔ کیونکہ میں نے اپنے آگے جنت میں تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے ایسا عمل تو کوئی نہیں کیا ۔ البتہ رات دن میں میرا کوئی وضو ایسا نہیں جس کے بعد میں نے دورکعت نماز تحیۃ الوضو نہ پڑھی ہو۔ نعتيه شعر : سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ كا نعتيه شعر : جی ہاں ! آپ کو لطف آئے گا یہ معلوم کر کے کہ سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں ایک شعر حبشی زبان میں بھی کہا ہے۔ فرماتے ہیں: اره بره گنگ گره گرائی کری من الدره شاعر رسول ﷺ حضرت حسان بن ثابت نے اس شعر کا عربی ترجمہ شعر ہی کی زبان میں اس طرح کیا ہے۔ اذ المکارم فی افاقنا ذکرت فانما بك فينا يضرب المثل یعنی، جب دنیا میں اعلیٰ ترین اخلاق وصفات کا ذکر آتا ہے تو آپ ﷺ کے طفیل ہم (صحابہ) ہی کو مثال میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں شعر سیدنا بلال کی قبر مبارک (دمشق ، شام) کے برابر والی دیوار پر لکھے ہوئے ہیں، مجھے یہ بات دو دن پہلے دشق کے مشہور عالم دین جناب شیخ محمد رجب دیب نے بھی بتائی تھی جو مجمع الشیخ احمد کفتارو میں معہد شرعی کے مدیر ہیں۔ اب خود یہ شعر وہاں پڑھ کر دل کی جو کیفیت ہوئی کیسے بیان کروں۔ ماخوذ: انبیاء کی سرزمین میں۔ از :مولانا محمد رفیع عثمانی مذمہ داریاں : سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سفروحضر میں ہر موقع پر رسول اللہؐ ﷺ کے مؤذنِ خاص، آپؐکے اہل و عیال کے نان و نفقہ کے نگران ، آپؐ ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے خزانچی رہے ۔ عہد صدیقی و فاروقی میں : نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا بلال رضی الله عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ سے درخواست کی کہ، “میں نے رسول الله ﷺ سے سنا ہے کہ راہِ خدا میں جہاد کرنا مومن کا سب سے بہتر کام ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ پیام ِ موت تک اسی عمل خیر کو لازمہ حیات بنا لوں “۔ سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ نے فرمایا ”بلال ! میں تمہیں خدا اور اپنے حق کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس عالم پیری میں داغِ مُفارَقَت نہ دو“۔ اس مؤثر فرمان نے سیدنا بلال رضی الله عنہ کو عہد صدیقی کے غزوات میں شریک ہونے سے باز رکھا۔ سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ کے بعد سیدنا عمر رضی الله عنہ نے مسند خلافت پر قدم رکھا توانہوں نے پھر شرکت جہاد کی اجازت طلب کی، خلیفہ اوّل کی طرح خلیفہ دوم نے بھی ان کو روکنا چاہا لیکن جوشِ جہاد کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، بے حد اصرار کے بعد اجازت حاصل کی اور شامی مہم میں شریک ہو گئے۔ سیدنا بلال رضی الله عنہ کو ملک شام کی سر سبز وشاداب زمین پسند آگئی تھی، انہوں نے خلیفہ دوم سے درخواست کی کہ ان کو اور ان کے اسلامی بھائی حضرت ابو رویحہ رضی الله عنہ کو یہاں مستقل سکونت کی اجازت دی جائے۔ یہ درخواست منظور ہوئی تو ان دونوں نے قصبہ خولان میں مستقل اقامت اختیار کر لی۔ سیدنا عمر رضی الله عنہ نے 16ھ میں شام کا سفر کیا تو دوسرے افسران ِ فوج کے ساتھ سیدنا بلال رضی الله عنہ نے بھی مقام جابیہ میں ان کو خوش آمدید کہا اور بیت المقدس کی دورے میں ہم رکاب رہے، ایک روز سیدنا عمر رضی الله عنہ نے ان سے اذان دینے کی فرمائش کی تو بولے:” گو میں عہد کرچکا ہوں کہ حضرت خیر الانام ﷺ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا، تاہم آج آپ کی خواہش پوری کروں گا، یہ کہہ کر اس عَنْدَلِیب تَوحِید نے کچھ ایسے لحن میں خدائے ذوالجلال کی عظمت وشوکت کا نغمہ سنایا کہ تمام مجمع بیتاب ہو گیا، سیدنا عمر رضی الله عنہ اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی، حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ بھی بے اختیار رو رہے تھے۔ غرض سب کے سامنے عہد نبوت کا نقشہ کھنچ گیا اور تمام سامعین نے ایک خاص کیفیت محسوس کی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ایک رات سیدنا بلال ؓ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپﷺ فرما رہے تھے کہ بلال! تم نے میرے پاس آنا چھوڑ دیا؟ سیدنا بلال ؓنے اسی وقت مدینہ کا ارادہ کیا اور مسجدِنبوی میں حاضر ہوئے۔ سیدنا حسنینؓ نے دیکھا تو اذان دینے کی فرمائش کی۔ سیدنا بلالؓؓ نے ٹالنا چاہا لیکن رسول اللہﷺ کے نواسوں کی فرمائش تھی سو اذان شروع کی۔ مدینے میں کہرام مچ گیا۔ کچھ نے کہا کہ کیا رسول اللہ ﷺ واپس آگئے، لوگ اتنا روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں۔ کہتے ہیں مدینے کی فضا اس سے زیادہ سو گوار پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ آپ ﷺ کی وفات کے کافی عرصے بعد پیش آیا تھا۔ سیدنا بلال ؓ نے دوبارہ کوشش کی کہ مدینہ میں ہی رہیں لیکن وہ مدینہ کو آپ ﷺ کے بغیر دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے، اس لیے واپس چلے گئے۔ ازواج : سیدنا بلال رضی الله عنہ نے متعدد شادیاں کیں، ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف ومعزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، بنی زہرہ اور حضرت ابو الدردہ رضی الله عنہ کے خاندان میں بھی رشتہ مصاہرت قائم ہوا ، لیکن کسی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ وفات : 20 مُحرَّمُ الحَرام 20ہجری بعہد فاروقی دمشق شام میں اس مُخْلِصِ با وَفا نے اپنے محبوب آقا ﷺ کی دائمی رفاقت کے لیے اس دنیائے فانی کو خیر باد کہا۔ کم وبیش ساٹھ برس کی عمر پائی اور دمشق میں باب الصغیر کے قریب مدفون ہوئے. رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ
|
|