روضۂ رسول ﷺ کے بارے میں دلچسپ معلومات: قسط نمبر 1"

روضۂ رسول ﷺ کے بارے میں دلچسپ معلومات "قسط نمبر 1“

روضۂ رسول ﷺ روئے زمین پر سب سے بابرکت اور عظیم المرتبت مقدس مقام ہے، جس کی زیارت کرنا ہر عاشقِ رسول ﷺ کی دلی آرزو ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے ایک مشہور حدیثِ پاک ہے، جس سے روضۂ رسول ﷺ کی عظمت میں مزید اضافہ ہوتا ہے، اور جس کے باعث ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور روضۂ رسول ﷺ کے دیدار سے مشرف ہو جائے۔
وہ مشہور حدیثِ پاک ہے:
جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی”۔”
مسجدِ نبوی ﷺ میں مشرق کی جانب وہ بُقعۂ نور ہے جہاں ہمارے پیارے آقا ﷺ جلوہ گر ہیں۔ یہی وہ حجرہ ہے جو مسجدِ نبوی ﷺ کی تعمیر کے وقت پیارے نبی پاک ﷺ کے لیے رہائش گاہ کے طور پر بنایا گیا تھا، اور اسی حجرے میں ہماری پیاری امی جان، اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ کے قدموں میں حاضر رہیں۔

حجرۂ مبارک میں وصال و تدفین
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اسی حجرۂ مبارک میں وصال فرمایا اور یہی جگہ آپ ﷺ کی تدفین کے لیے منتخب کی گئی۔ یہ وہ مبارک مقام ہے جہاں آپ ﷺ کا روضۂ انور آج بھی مرجعِ خلائق ہے، اور جہاں عاشقانِ رسول ﷺ حاضری دے کر اپنی آنکھوں اور دلوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔
شیخینِ کریمین کی حجرۂ مبارک میں تدفین
حضور نبی کریم ﷺ کے وصال و تدفین کے بعد اسی حجرۂ مبارک میں پہلے آپ کے رفیقِ اوّل، خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا، اور پھر خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ یوں یہ مبارک حجرہ تین عظیم ہستیوں—حضور نبی کریم ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ—کا مدفن بن گیا۔
حجرۂ مبارک کی دیوار کی تعمیر
ابتدائی دور میں حجرۂ مبارک کی دیوار کھجور کے تنوں اور مٹی سے بنی ہوئی تھی۔ بعد میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دورِ حکومت میں اس کی تعمیر مضبوط پتھروں اور گچ سے کی گئی، تاکہ اسے زیادہ پائیدار اور محفوظ بنایا جا سکے۔ دیوار کی تعمیر اس انداز سے کی گئی کہ حجرۂ مبارک اندر سے بالکل محفوظ اور باہر سے عام لوگوں کی دسترس سے دور رہے، تاکہ اس کی حرمت اور تقدیس ہمیشہ قائم رہے۔
"جالی مبارک کی تاریخ"
“مقصورہ شریف” اُس لوہے اور پیتل کی جالی مبارک کو کہا جاتا ہے جو قبورِ مبارکہ کے اطراف حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تعمیر کردہ پنج گوشہ (پانچ کونے والی) دیوار کے گرد نصب ہے۔
سب سے پہلے مصری سلطان رکن الدین بیبرس نے 668 ہجری میں لکڑی کی جالی مبارک بنوائی تھی، اُس وقت اس کی اونچائی دو آدمیوں کے قد کے برابر تھی۔ پھر سلطان زین الدین کتبغا نے 694 ہجری میں اس پر مزید جالی بڑھا دی جو چھت تک جا پہنچی۔
886 ہجری میں آتش زدگی کے ایک حادثے میں یہ جالی مبارک جل کر ختم ہوگئی تو سلطان قایتبای نے لوہے اور پیتل کی نئی جالیاں تیار کروائیں۔ ان میں سے پیتل کی جالی قبلہ کی جانب اور لوہے کی جالیاں باقی تینوں اطراف نصب کی گئیں۔
مقصورہ شریف میں کئی دروازے ہیں:
• ایک قبلہ کی دیوار میں ہے جسے بابُ التوبہ کہا جاتا ہے۔
• ایک مغربی دیوار میں ہے جس کا نام بابُ الوفود ہے۔
• ایک مشرقی جانب ہے جسے بابُ فاطمہ کہا جاتا ہے۔
• اور ایک شمالی جانب ہے جسے بابُ التہجد کہا جاتا ہے۔
لیکن بابُ فاطمہ کے علاوہ باقی تمام دروازے بند رہتے ہیں
روضۂ انور پر گنبدِ اطہر کی تعمیر
ابتدائی دور میں حُجرۂ مبارک پر کسی بھی قسم کا گنبد موجود نہ تھا۔ چھت پر صرف نصف قدِ آدم کے برابر ایک چار دیواری تھی تاکہ جو شخص بھی کسی ضرورت کے تحت مسجدِ نبویؐ کی چھت پر جائے، اُسے یہ احساس رہے کہ وہ نہایت ادب و احترام کے مقام پر موجود ہے۔
عباسی خلافت کے ابتدائی دور میں کچھ بزرگ شخصیات کے مزارات پر گنبد بنانے کا سلسلہ شروع ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے بغداد اور دمشق میں دینی شخصیات کے مزارات کا باقاعدہ حصہ گنبد بن گیا۔
اسی روایت کے تحت سلطان منصور قلاوون نے جب روضۂ رسول ﷺ پر پہلی مرتبہ گنبد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا
تو 678 ہجری میں حُجرۂ مطہرہ پر لکڑی کے تختوں کی مدد سے ایک نہایت خوبصورت گنبد تیار کروایا۔
یہ گنبد چونکہ اُس عظیم المرتبت ہستی سے منسوب تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، اس نسبت کی برکت سے اللہ نے اس پر ایسا رعب و وقار عطا فرمایا کہ جو بھی ایک مرتبہ اس پر نظر ڈالے تو دل نہیں چاہتا کہ نگاہ ہٹائے۔
سبز گنبد کی تاریخ
کسی ضرورت کی وجہ سے ترک سلطان محمود بن عبد الحمید خان نے سلطان قایتبای کا بنوایا ہوا گنبدِ شریف شہید کروا دیا اور 1233 ہجری میں دوبارہ گنبد تعمیر کروایا۔
بعد ازاں 1253 ہجری (1837ء) میں اس گنبد کو سبز رنگ کر دیا گیا۔ اسی سبز رنگ کی وجہ سے یہ آج تک گنبدِ خضریٰ کہلاتا ہے۔
گنبد میں کل 67 روشن دان (کھڑکیاں) ہیں جن میں سے کچھ گول شکل میں اور باقی مستطیل شکل میں بنائے گئے ہیں۔
“دونوں گنبدوں میں ایک چھوٹا سا سوراخ رکھا گیا۔”
نچلے گنبدِ شریف کے اوپر ایک ایسا سوراخ رکھا گیا تھا جس کی بدولت قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہتی۔ اس سوراخ پر ایک باریک جالی لگائی گئی تاکہ پرندے وغیرہ اندر داخل نہ ہوسکیں۔
بالکل اسی طرح اوپر والے گنبدِ خضریٰ میں بھی جنوب کی سمت، چاند کے نیچے ایک سوراخ بنایا گیا تھا۔
جب مدینہ طیبہ میں قحط کا سامنا ہوتا تو اہلِ مدینہ اس سوراخ کو کھول دیتے۔ جیسے ہی سورج کی کرنیں حُجرۂ مبارک کے اندر پہنچتیں، اہلِ مدینہ حاضر ہو کر بارش کی دعا کرتے۔ پھر بادل پانی لے کر آ جاتے اور مدینہ والوں پر خوب بارشِ رحمت برستی۔

 

ابو قربان رضا
About the Author: ابو قربان رضا Read More Articles by ابو قربان رضا: 3 Articles with 208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.