جب بھی ملک پر کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو کچھ لوگ اپنا کام چھوڑ کر مذہب اور اولیاء کرام پر بے جا تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں بھی بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر اولیاء کرام سچے ہیں تو کرامت دکھا کر سیلاب روک کیوں نہیں دیتے؟ یا مزارات پر پانی کیوں آ گیا ؟ ایسی بات کرنا حقیقت میں لا علمی اور جہالت ہے۔ قرآن پاک میں کرامات کا ذکر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَـٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ (سورۃ آلِ عمران 37) "جب بھی زکریا علیہ السلام ان کے پاس محراب میں جاتے تو وہاں انہیں کھانے پینے کا سامان ملتا۔ وہ پوچھتے اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟ تو وہ جواب دیتیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے۔" یہ صریح کرامت ہے کہ بی بی مریمؑ کے پاس بے موسم رزق آتا تھا۔ اسی طرح حضرت آصف بن برخیاہؒ کے بارے میں فرمایا: قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ (سورۃ النمل 40) "وہ شخص جس کے پاس کتاب کا تھوڑا سا علم تھا، بولا: میں تخت (بلقیس) آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا۔" یہ بھی کرامت ہے جو قرآن نے بیان کی۔ اب حدیث مبارکہ پر غور کریں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اِتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ" (ترمذی، حدیث 3127) "مؤمن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔" یہ دراصل اولیاء اللہ کے باطنی کمالات اور کرامات کی طرف واضح اشارہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کرامات حق ہیں تو پھر اولیاء اپنے مزارات یا شہروں کو آفات سے کیوں نہیں بچا لیتے؟ تو میرے بھائی اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دنیا اللہ کے بنائے ہوئے قوانینِ قدرت کے تحت چل رہی ہے۔ اگر یہ اعتراض درست ہو تو پھر یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ مسجدیں کیوں شہید ہو جاتی ہیں ؟ حالیہ سیلاب میں درجنوں مساجد شہید ہوگئیں اگر کوئی کہے تو میں ویڈیوز پیش کر سکتا ہوں، حالانکہ وہ اللہ کا گھر ہیں۔ حج کے دوران بیت اللہ شریف میں بھی کئی حادثے ہو چکے جن میں سینکڑوں حجاج شہید ہوئے، حالانکہ وہ اللہ کے مہمان تھے۔ کیا کعبہ معظمہ میں سیلاب نہیں آیا ؟ اخبارِ مکہ (مصنف: الفاکہی) میں بیان ہے کہ جب سیلاب نے خانہ کعبہ کو ڈھانپ لیا تو لوگوں نے طواف ترک کر دیا، لیکن حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے تیر کر طواف کیا ۔ اسی بات کو ابن ابی الدنیا نے بھی نقل کیا ہے کہ جب سیلاب نے بیت اللہ کو گھیر لیا، تو حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے "تیر کر طواف" کیا ۔ غور فرمائیں کہ اتنا سیلاب آیا کہ سب نے طواف ترک کردیا۔ 1941ء کے سیلاب کے دوران بھی ایسا واقعہ پیش آیا، جب ایک بحرینی نوجوان علی العوضی (Sheikh Ali Al-Awadi) نے بحرِ طواف یعنی ماءِ طواف کے اندر تیر کر خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ تصویر شیئر کرتا ہوں جس میں 12-سال کے علی العوضی کو نصف جسم پانی میں ڈوبا ہوا دکھایا گیا ہے جب وہ طواف کر رہے تھے ۔ اصل بات یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، مگر اس نے دنیا کو ایک خاص نظام کے تحت چلانا ہے۔ ولی کبھی اپنے نفس کے مطالبے پر کرامت نہیں دکھاتا، بلکہ اگر اللہ چاہے تو ان کی دعا قبول فرما کر اپنی قدرت کا اظہار کر دیتا ہے۔
اور یاد رکھیں! کرامت ہمیشہ اللہ کے اذن اور قدرت سے ہوتی ہے، ولی محض وسیلہ ہوتا ہے۔ حضرت سلطان باھوؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں: "ولی کرامت کو اس طرح چھپاتا ہے جس طرح عورت حیض کے کپڑے چھپاتی ہے۔" یعنی اللہ عزوجل کے ولی کے نزدیک اصل چیز معرفتِ الٰہی ہے، کرامت نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرامت حق ہے، مگر یہ اللہ کی عطا ہے، نہ کہ ولی کی مرضی۔ اور کسی آفت کے وقت اولیاء کرام پر اعتراض کرنا دراصل قرآن و سنت کے بیان کردہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور نری جہالت ہے، |