موجودہ معاشرے میں آپ ﷺ کی تعلیمات کی ضرورت
(Hafiz Mohammad Siddiq Madani, Chaman)
دنیا کی تاریخ میں اگر ہم کسی ایسی ہستی کو تلاش کریں جس نے حقیقی معنوں میں انسانیت کو رہنمائی بخشی تو وہ صرف اور صرف حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ انسانیت کے لیے مکمل اور کامل نمونہ ہے۔ ہر دور کے انسان کے لیے آپ ﷺ کی تعلیمات مشعلِ راہ ہیں۔ زمانے نے ترقی کے جتنے بھی مراحل طے کیے ہوں علم و ہنر میں جتنی بھی بلندیاں چھو لی ہوں مگر انسانیت کی اصل بھلائی اور کامیابی وہی ہے جو نبی کریم ﷺ کے عطا کردہ اصولوں پر چلنے میں ہے۔ آج کا معاشرہ بظاہر ترقی یافتہ دکھائی دیتا ہے۔ مشینوں، ٹیکنالوجی، ایجادات اور سائنس نے دنیا کو چھوٹا کر دیا ہے۔ معلومات ایک لمحے میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن اگر ہم اس ترقی کے باطن کو دیکھیں تو اخلاقی زوال ، انسانی اقدار کی پامالی اور معاشرتی مسائل ہر طرف غالب نظر آتے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی بڑھ رہی ہے ، طاقتور مزید طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور کمزور کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر بنتی جا رہی ہے۔ کرپشن، جھوٹ، دھوکہ دہی، لالچ اور خودغرضی نے انسانیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے آپ ﷺ کی تعلیمات کی طرف رجوع کریں اور ان کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں یہ سبق دیا کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔ یہ تعلیم آج کے معاشرے کے لیے بہت بڑی روشنی ہے۔ اگر ہم دوسروں کی بھلائی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں تو معاشرے سے نفرت، کینہ، خودغرضی اور استحصال ختم ہو جائے گا۔ آپ ﷺ نے عدل و انصاف کو زندگی کے ہر شعبے میں بنیادی اصول قرار دیا۔ مدینہ کی ریاست میں آپ ﷺ نے یہ عملی نمونہ پیش کیا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں اگر عدل و انصاف قائم ہو جائے تو کرپشن کا دروازہ بند ہو جائے ، مظلوم کو اس کا حق ملے اور امن قائم ہو جائے۔ ہمارے ہاں گھروں کے اندر سے لے کر بازاروں اور دفاتر تک اخلاقی زوال نمایاں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ یہی وہ تعلیم ہے جسے ہم نے نظرانداز کر دیا ہے۔ اگر ہم اپنی گفتگو، لین دین اور تعلقات میں اخلاقیات کو بنیاد بنا لیں تو معاشرتی بگاڑ خود بخود ختم ہو سکتا ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال، یتیموں اور مسکینوں کی کفالت اور معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد ہی ایک بہترین اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔ آج دنیا میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور جنگوں کی آگ بھڑک رہی ہے۔ کہیں نسل پرستی ہے، کہیں طاقت کی سیاست ہے اور کہیں معاشی مفادات کی خاطر قوموں کو غلام بنایا جا رہا ہے۔ ان سب مسائل کا واحد حل وہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے انسانیت کو دیا تھا، یعنی سب کے لیے مساوات، بھائی چارہ، انصاف اور امن۔ اگر دنیا آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرے تو نہ طاقتور کمزور کو دبائے گا اور نہ ہی قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوں گی۔ ہمارے تعلیمی ادارے اگر بچوں اور نوجوانوں کو صرف جدید علوم ہی نہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کی اخلاقی تعلیمات سے بھی روشناس کرائیں تو ایک ایسی نسل تیار ہو سکتی ہے جو نہ صرف ذہنی طور پر ترقی یافتہ ہو بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہو۔ آج ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ تعلیم صرف روزگار تک محدود کر دی گئی ہے، حالانکہ تعلیم کا اصل مقصد انسان کو ایک اچھا انسان بنانا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیرت النبی ﷺ کو نصاب کا بنیادی حصہ بنایا جائے اور عملی طور پر اس پر عمل بھی کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے حقوق کو بھی وہ مقام عطا کیا جو اس سے پہلے کسی معاشرے میں نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے۔ آج کے دور میں جہاں عورت کو یا تو بے جا پابندیوں کا شکار بنایا جاتا ہے یا پھر آزادی کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے وہاں نبی کریم ﷺ کی یہ تعلیم ایک معتدل اور متوازن راستہ فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے معیشت میں دیانت داری کو بنیاد قرار دیا۔ فرمایا کہ سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا۔ اگر آج ہمارے بازاروں میں یہ اصول اپنایا جائے تو ملاوٹ، دھوکہ دہی اور ناجائز منافع خوری کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بازار اور دفاتر جھوٹ اور بددیانتی سے بھرے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنے کاروبار اور معیشت کا حصہ بنائیں تاکہ ایک ایسا نظام وجود میں آئے جو سب کے لیے انصاف پر مبنی ہو۔ دنیا کے بڑے بڑے دانشور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر انسانیت کو امن اور سکون چاہیے تو اسے سیرتِ محمدی ﷺ سے رہنمائی لینی ہوگی۔ آج مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہے مگر اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ وہاں خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے، نوجوان نسل نشے اور بے راہ روی کی طرف جا رہی ہے اور انسان تنہائی اور ذہنی دباؤ میں زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ایک متوازن، خوشحال اور پرامن زندگی فراہم کرتی ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان کی بنیاد بھی اسی نظریے پر رکھی گئی تھی کہ یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف قائم ہوگا اور ہر فرد کو اس کا حق ملے گا۔ لیکن آج ہم اس خواب سے دور ہیں۔ کرپشن، ناانصافی، بدامنی اور بدعنوانی نے معاشرے کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر ہم واقعی پاکستان کو ایک مضبوط، خوشحال اور پرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں واپس آپ ﷺ کی تعلیمات کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے انسان کو سب سے زیادہ ضرورت آپ ﷺ کی تعلیمات کی ہے۔ چاہے وہ فرد ہو یا خاندان، معاشرہ ہو یا ریاست، سیاست ہو یا معیشت، سب کے لیے نجات اور سکون کا واحد راستہ آپ ﷺ کی سیرت پر عمل ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اگر ہم نے اس پیغام کو سمجھ کر عمل کیا تو نہ صرف ہمارا معاشرہ بہتر ہو جائے گا بلکہ پوری دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ |
|