قرآن مجید کی عظمت و حقانیت

اور اس کے خلاف ہونے والی سازشیں-ایک تاریخی جائزہ

قرآن مجید ہی وہ واحد کتاب ربانی ہے ،جو کسی خاص طبقہ اور گوشہ یا کسی خاص قوم ونسل کا نہیں،بلکہ تمام بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کاضامن ہے۔یہی وہ مکمل دستور حیات ہے،جس کی ابدیت وآفاقیت کو کبھی زوال نہیں ،انسانی کارواں اس راہ کے علاوہ اگر دوسری راہ پر رواں دواں ہوتا ہے ،تو اس کا صراط مستقیم سے گم گشتہ ہونا اور اسکی ہلاکت وبربادی پر الٰہی مہر کا ثابت ہونا یقینی ہے ۔

ایسی پاک ومنزہ اور منزل من اللہ کتاب کی عظمت وحقانیت پر چند صفحات تو کیا اگر لکھو کھے اوراق بھی سیاہ کر دیے جائیں تو بھی اس کا حق ادا کر نے سے لاغر وناتواں انسان کی مبسو ط تحریر یں عاجزو درماندہ رہ جائیں گی۔

اس کے عظیم المر تبت ہو نے کی سب سے بڑی دلیل اللہ کاکلام الٰہی ہوناہے۔اور یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے اس کی عظمت و فضیلت کو خود ہی اجاگر کیا ہے،اللہ رب العالمین کا ار شاد ہے ۔انا انزلناہ فی لیلةالقدر وماادرٰک مالیلةالقدر،لیلة القدر خیر من الف شھر ©"(القدر :۱-۳)اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اس قرآن کو قد ر والی ر ات میںپیدا کیا ،اور تمہیں کیا معلوم (ائے نبی رحمت صلیٰ اللہ علیہ وسلم) کہ یہ قدر والی رات کیا ہے،(تو جان لو )لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہترہے ۔

دوسری جگہ باری تعالیٰ نے اس کی عظمت و شان پر زور دیتے ہوئے فرمایا "لو انزلناھٰذاالقر آن علیٰ جبل لرایةخاشعا متصد عا من خشیةاللہ "(الحشر:۱۲)اگر ہم اس قر آن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا۔ایک مقام پر اس کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری لیتے ہوئے قرآن حکیم میںفرمایاگیا"انانحن نزلناالذکر وانا لہ لحافظون"(الحجر :۹)بےشک ہم نے ہی اس کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔

اس کے علاوہ کتب احادیث میں بھی اس کی عظمت پر متعدد روایات وارد ہوئی ہیں ۔ عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :تم میںکا بہتر وہ شخص ہے جو قر آن کی تعلیم حاصل کر ے اوردوسروں کو بھی سکھائے ۔(بخاری ) ایک موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بلاشبہ اللہ رب العالمین اس کتاب کے ذریعہ کسی قوم کو بلندی اور کامیابی عطاکرتاہے اور اس کا انکارکر نے والوں کو پست اور ذلیل بنادیتاہے ۔(مسلم)

ذکر کی گئی قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کے علاوہ بھی بہترے نصوص ایسے موجود ہیں ،جن کے ذریعہ اس کی عظمت وحقانیت کو بخوبی جانا جاسکتا ہے ۔

ایک غیر مسلم دانشور کانٹ ہنری دی کاستری اپنی کتاب "الاسلام"میں(جس کا عربی ترجمہ مصر کے معروف عالم اور محقق "فتحی بک زغلول "نے۸۹۸۱ءمیںشائع کیا تھا )قرآن کی معجز نمائی کوبیان کر تے ہوئے لکھتاہے:لفظی اور معنوی ہر لحاظ سے اس کلام کی نظیر پیش کرنا بنی نوع انسان کے بس سے باہر ہے،یہ وہی کلام ہے جس کی انشاپردازی نے عمر بن خطاب کو مطمئن کردیا اور انہوں نے اللہ کی الوہیت کا اقرار کیا ، یہ وہی کلام ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے متعلق آیات نجاشی کے سامنے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے پڑھی تو نجاشی کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے ،اور پکار اٹھا اس کلام کاسر چشمہ وہی ہے جو کلام عیسیٰ علیہ السلام کاتھا۔(قرآنی معارف ،محمد نظر علی خان /۹۴)

فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس ،جن کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی (۲۶)سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا،اس نے اس بات کا اعتراف کیاہے،اس کااردو ترجمہ ملاحظہ ہو :بےشک قرآن کا طرزبیان خالق جل وعلا کاطرزبیان ہے،بلاشبہ جن حقائق ومعارف پر یہ کلام حاوی ہے ،وہ ایک کلام الٰہی ہی ہوسکتاہے اور واقعہ یہ کہ اس میںشک وشبہ کرنے والے بھی اس کی تاثیر عظیم کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوتے ہیں ،پچاس کڑور مسلمان جو سطح زمین کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں،ان میںقرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر م سیحی مشن میں کا م کر نے والے با لاجماع اس بات کا اعتراف کر تے ہیںکہ ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان نے اسلام اور قرآن کو سمجھ لیا اور مر تد ہو گیا ہو۔(معارف القرآن،مفتی شفیع عثمانی :۴۵۱)

ایک سائنسداں ترارتھ کیتھ نے مصر کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھا:"The Egyptian were conueled not by the surgered by Quran"(مجلہ معیار :۴۰۰۲،الند وةالاثر یہ )
قرآن کی حقانیت : عظمت قرآن کے مختصر تذکرے کے بعد اگر اس کی صداقت وحقانیت کی بات کی جائے ،تو یہ ایک بدیہی حقیقت اور معنوی امر ہے کہ یہ کلام الٰہی ہر قسم کی ملاوٹ اور آمیزش سے پاک ومنزہ ہے ،اس کے تمام الفاظ آج بھی اسی طرح واضح اور روشن ہیں ،جس طرح ڈیڑھ ہزار سال پیشتر منظم اور مربوط تھے ،اور اپنے وحدہ لاشریک کی وحدانیت کی گواہی دے رہے تھے ۔اس کے سچ ،حق اور ثابت ہونے کی سب سے بڑی دلیل اس کا وہ چیلینج ہے جو پندرہ سوسال قبل سے دنیا والوں کے سامنے ہے ،اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام کے اندر مختلف اسلوب اور پیرائے میںبیان کیا ہے ، کہ جو لوگ قرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے بارے میںشاکی اور مشتبہ ہیں،اور اس کو محض اپنے جیسے ایک انسان کی تصنیف گمان کرتے ہیں ،تو وہ اسی کے مثل کلام پیش کریں﴾فلیاتو ا بحدیث مثلہ ﴿،﴾فاتوا بسورةمن مثلہ ﴿(بقرة :۳۲)﴾فاتوا بعشرسورمن مثلہ ﴿(ھود:۱۳)

یہ ایک حیرت انگیزدعوی ہے جوساری انسانی تاریخ میںکسی بھی مصنف نے نہیں کیا ، اور نہ ہی کر سکتا ہے ،کیوں کہ کسی بھی انسان کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھ دے ،جس کے ہم پلہ کتاب دوسرے انسان نہ لکھ سکے۔قرآن کااس سے بڑا معجزہ کیا ہوسکتاہے کہ اس کامثل انسانی ذہن تخلیق نہیں کرسکتا،اور ڈیڑھ ہزار برس تک کسی کا اس پر قادر نہ ہونا ، قطعی طور پر اس بات کو ثابت کر دیتاہے کہ یہ انسان کا وضع کردہ کلام نہیں ،بلکہ یہ منبع الٰہی (DIVINE ORIGIN)سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں ۔ اور جو بات منبع الٰہی سے نکلی ہو اس کاجواب بھلاکون دے سکتاہے ۔

سائنس کیاکہتاہے ؟:چونکہ یہ دور سائنس وٹکنالوجی کا دور ہے ،اس دور میں ہر چیزکو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کارواج عام ہے ۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتاہے کہ قرآن کی صداقت و حقانیت کو سائنسی تنا ظر میں بھی دیکھاجائے ،چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے بیان کردہ سائنسی حقائق جو مختصر مگر جامع اور پر مغز ہیں اور جن کے اسرار ورموز کی عقدہ کشائی بیسویں صدی کے جدید سائنس وٹکنالوجی کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکی ہے۔

بطور مثال ذہن میں ایک سوال پیداہوتاہے کہ کائنات کی تخلیق کیسے عمل میں آئی ؟ اس سلسلہ میں سائنسی نقطہ نظر یہ ہے کہ ابتداءمیں پوری کائنات انتہائی کثیف گرم گیسوں پر مشتمل دھوئیں کامرکب تھی :
ٓ''An opage highly dense and hot gaseouse composition ''( A brief illustrated guide for understanding Islam P.14)
اب ہم قرآن کریم کی اس آیت کی جانب رجوع کرتے ، جو اس حقیقت کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے اعلان کرتاہے :﴾ثم استوی الی السماءوھی دخان فقال لھا وللارض اتیا طوعا او کرھا قالتا اتینا طائعین﴿( فصلت :11)قرآن نے ’دخان‘ لفظ کا استعمال کیاہے ، جس کے معنی دھواں کے ہیں ، جب کہ سائنس دانوں نے ”Nebula“یعنی ”دھند سحابیہ “کالفظ اختیار کیاہے۔
''The Sun and planets formul about 4600 million years ago from a huge cloud of tiny ,solid particles and gases called nebula" (Dreamlam's school attes P:6)
یہاں پرقرآن کی صداقت وحقانیت کی ایک دلیل واضح طور پر نمایاں ہوتی ہے ، کیوں کہ اس بادل کو ” دخان“کہنا ہی صحیح ہے اور ” Nebula“کہنا غلط ہے ، پروفیسر یوشی کوزنی کے مطابق اسے” Nebula“سے تعبیر کرنادرست نہیں ، کیوں کہ نیبولا(دھند یاسحابیہ )کی خاصیت بر ودت وخنکی ہوتی ہے ، جب کہ کائناتی دھواں ٹھوس موادوالی انتہائی گرم گیسوں پر مشتمل ہوتاہے۔

پیشن گوئیوں کے تناظر میں :اس کی حقانیت کامشاہدہ قرآن کے اندر بیان کی گئی اخبار غیب اور پیشن گوئیوں کے ذریعہ بھی کرسکتے ہیں ، جو ان کے بیان کے مطابق سوفیصد صادق آئے ہیں اور جس کی روشن دلیل ”سورہ روم“ کی یہ آیات ربانی ہیں :﴾الم ،غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبوں ،فی بضع سنین ﴿( الروم :۱تا۴)ان آیات مبارکہ میں روم اور فارس کے مقابلہ کی تصویر کشی کی گئی ہے ،جس کی زندہ وتابندہ مثال تاریخ کے روشن صفحات پر جلی حروف میں کندہ ہیں۔

مختصر یہ کہ اس کلام الٰہی میں اس طرح کے بے شمار ایسے واقعات اور اللہ جل شانہ کی نشانیاں موجود ہیں اس کی حقانیت پر صداقت کے مہر ثبت کرتی ہیں ۔

قرآن کریم سازشوں کے نرغے میں : اس کے خلاف رچی جانے والی سازشیں اور دسیسہ کاریوں کا سراظہور اسلام سے ملتاہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ابتدائے اسلام ہی سے اسلام مخالف جماعتیں اس آفاقی وعالم گیر دین کے صاف وشفاف چہرہ کو گدلا کرنے اور اس کی سچی تصویر کو مسخ کرنے اور خصوصا قرآن مجید کے تقدس کو پامال کرنے کی ناروا سعی پیہم کرتی رہی ہیں ، چنانچہ سب سے پہلے جس قوم کے افراد نے کلام الٰہی کو اپنی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنایاوہ کفار قریش کی جماعت تھی ، ان منکرین اسلام نے جب دیکھاکہ قرآن لوگوں کو بڑی شدت سے متاثر کررہاہے اورلوگ اپنے آباءواجداد کے دین کو چھوڑ کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دین کو قبول کررہے ہیں ، اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے ، تو ان لوگوں نے اس کلام ربانی سے لوگوں کو برگشتہ کرنا شروع کیااوراس کی سماعت سے باز رکھنے کے لئے ورغلانے لگے ۔اسی باطل نظریات کی نقاب کشائی کرتے ہوئے باری تعالی نے فرمایا:﴾وقال الذین کفرو الاتسمعوالھذاالقرآن والغوافیہ لعلکم تغلبون﴿اور کافروںنے کہاکہ اس قرآن کو نہ سناکرو ، اس میں تشویش پیداکرو،شاید کہ اس طرح تم غالب آجاﺅ۔(حم السجدہ:۶۲)امام مجاہد نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ ” خوب مذاق اڑاﺅ ،تالیاں بجاﺅ ،۔۔۔تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ قرات بے معنی بن جائے“۔

ایک مستشرق ”Wolleslon“زمانہ اسلام میں رونما ہونے والی سازشوں کاتذکرہ ابن المقفع کے اس واقعہ سے کرتاہے :
"The alahammaels boast as to the leterary excllence of fhe Quran was not onfounded is further evidedinied by a curcumestance,which occuled about a century after the establishment of Islam."(...his life and doctrines,P.143)(علم جدید کاچیلینج ، وحیدالدین خاں 147)

کفارومشرکین کے علاوہ اسلام کو اگر کسی تنظیم سے شدید نقصان پہنچاہے ،وہ عیسائی مشنری اور یہودی پیشواہیں ،جن کے زیر اثر مستشرقین نے اپنے عقیدوں اور اصولوں کی بقا اور برتری ثابت کرنے کے لئے اسلام پر بے بنیاد الزامات تراشے اور اپنی ناپاک سازشوں کااہم نشانہ قرآن مقدس کو بنایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کتاب الٰہی نہیں بلکہ نعوذ باللہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہے ۔ چنانچہ ایک مستشرق Harstein Perry Browun اپنی کتاب (The reads to world letrature) میں ان بیہودہ خیالات کا اظہار یوں کرتاہے :(Muhammad or Muhammad religious leader and auther of the Quran)(الاسلام فی قفص الاتہام شوقی ابو خلیل دارالفکر دمشق /۲۳)

ایک دوسرامستشرق جارج سیل جنہوں نے انگریزی زبان میں سب سے پہلی بار قرآن کا ترجمہ 1734میں کیاتھا، اس ترجمہ کے تعلق سے سیل کہتاہے کہ ان کامقصد اس غلط فہمی کو دور کرناہے جو لوگوں میں بہتر ترجمہ سے پڑ گئی ہے اور "Protestents"ہی کامیابی کے ساتھ قرآن پر حملہ کرسکتے ہیں ،اور بھروسہ ہےکہ قدرت نے ''Protestent"کاانتخاب اسی لئے کیاہے کہ وہ قرآن کو شکست فاش دے دیں ۔ مزید آگے لکھتاہے کہ "Bibelendet"نے جو 1543میں لاطینی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیاتھا،اس کو ترجمہ کہاہی نہیں جاسکتا،چونکہ اس میں اتنی کثیر غلطیاں ہیں اور اتنی جسارت سے کام لیا گیاہے اور اتنی چیزوں کا ا خفاءکیاگیاہے یاتبدیلی کی گئی ہے کہ اصلی سے کوئی مطابقت ومماثلت نہیں رہ جاتی ( اسلام اور مستشرقین :۲/۶۰۱)

عقیدہ خلق قرآن :اسی سازش کاایک حصہ فتنہ خلق قران بھی ہے ، جو معتزلہ گروہ کابرپا کیاہواتھااور اسی کو وہ اپنا شعار اور کفر وایمان کامعیار تصور کررہے تھے ۔ اس کا ظہو ر تو اس دوسر ی صدی میں ہو ا، البتہ اس کو تقویت مامون کے زمانہ 218ھ میں اس وقت ملی ، جب مامون نے والی بغداد اسحق بن ابراہیم کے نام ایک مفصل فرمان بھیجا، جس میں عامة المسلمین اور بالخصوص محدثین کی سخت مذمت کی ، ان کو خلق قرآن کے عقیدہ سے اختلاف کرنے کی وجہ سے توحید میں ناقص ، مردودالشہادة ،ساقط الاعتباراور شرار امت قرار دیا،اور حاکم کوحکم دیاکہ جو لوگ اس مسئلہ کے قائل نہ ہوں ، ان کو ان کے عہدوں سے معزول کردیاجائے، اور خلیفہ کواس کی اطلاع دی جائے ۔
(تاریخ دعوت وعزیمت :۱/۴۹)

قرآن کے تئیں یہی وہ بد عقیدگی تھی جس کی مخالفت کی پاداش میں امام احمد بن حنبل سخت ابتلاءوآزمائش سے دوچار کئے گئے ، انہیں پابہ زنجیر کیاگیااور ۸۲مہینے محبوس رکھاگیا،اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں کوڑوں سے اس طرح پیٹاگیاکہ بقول محمد بن اسماعیل ”میں نے سنا ہے کہ احمد کو ایسے کوڑے لگائے گئے کہ اگر ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتاتو چیخ کے مارکر بھاگتا“(حوالہ سابق۱/۹۹)

قرآن مجید کے خلاف کی جانے والی دسیسہ کاریوں میں سے ایک آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کی تصنیف ستیا رتھ پرکاش بھی ہے جو 1857ءمیں تحریر کی گئی ۔ چنانچہ سوامی جی نے اپنی کتاب کے اندر جہاں دیگر مذاہب کی تردید کی وہیں اسلام پر بھی نظر کرم فرمائی اور اپنی کتاب کے چودہویں باب کو اسی کار خیر کے لئے وقف کرتے ہوئے قرآن مجید پر 159اعتراضات کئے ،جن کاجواب ”حق پرکاش“ کی شکل میں مولانا ثناءاللہ امرتسری کی شاہکار تحریر ہمارے درمیان موجود ہے ۔ انہیں خطرناک سازشوں کی ایک کڑی ایک جعلی قرآن ”الفرقان الحق“ بھی ہے ،جو 12جلدوں پر مشتمل نہایت ہی سطحی اور بازاری کتاب ہے اور جس کی حقیقت دنیاسے مخفی نہیں ۔

مختصر یہ کہ آج پوری دنیامیں اسلام اور قرآن مجید کے خلاف جوگھناﺅنی ساز شیں رچی جارہی ہیں اور مسلم جماعتوں کو برافروختہ کرنے کے لئے دسیسی تانے بانے تیارکئے جارہے ہیں ، اس کی فقط ایک ہی وجہ ہےکہ وہ مذہب اسلام کی جانب لوگوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکا جائے ، چونکہ اسلام کے سرعت کے ساتھ پھیلنے اوراس کی پیش قدمی کے نتیجے میں وہ ذہنی طور پر شکست وریخت سے دوچار ہو چکے ہیں ۔

اللہ سے دعا ہے کہ رب العالمین طاقتوں اوراسلام مخالف قوتوں کو حقیقی معنوں میں شکست فاش دے تاکہ وہ دین اسلام جس کے غلبہ کاتونے ہم مومنین سے وعدہ کیاہے وہ غالب ہوجائے اور دشمنان اسلام خائب وخاسر ہوں ۔آمین
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 53079 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More