سیلاب اور ہماری بے حسی
(محمد قاسم وقار, Faisalabad)
سیلاب قدرتی آفت ہے لیکن ہماری بے حسی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر کوئی جس کا جہاں بس چلتا ہے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا |
|
|
کلری تحصیل لالیاں کا علاقہ جو سیلابی کٹاؤ کا شکار ہوا ہے |
|
٢٠٢٥ کے سیلاب نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ہم تو سیلاب کی طرف سے ایسی لمبی تان کر سو چکے تھے کہ بیچ دریا کے سوسائٹیاں اور ہوٹلز تک بنا ڈالے تھے۔ پہاڑی برساتی نالوں کے راستوں میں ریزارٹ بنا کر قدرت سے مقابلہ کی پوری کوشش کی۔ دھڑا دھڑ جنگلوں کے جنگل بیچ کھائے، ہر متعلقہ محکمہ نے بہتی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ سر تا پاؤں غوطہ زن رہے۔ ٹمبر مافیا کسی ایک فرد کا نام نہیں یہ ایک پوری کی پوری چین ہے جو ہرے بھرے پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ گئی اور ابھی تک چاٹنے میں مصروف ہے ۔
حالیہ کلاؤڈ بریسٹ قدرت کا چھاپہ مار آپریشن ثابت ہوا، جنگلوں میں، اوپر پہاڑوں میں، برستاتی نالے کے راستوں میں کاٹ کاٹ کر لکڑیاں چھپائی گئی تھیں، پانی سب کچھ بہا کے بیچ چوراہے میں لے آیا۔ درخت بیچ کر کھانے والوں کی تجوریاں بھی کیچڑ میں لت پت نظر آئیں، مانا کہ لکڑی اہم ضرورت کی چیز ہے لیکن نئے درخت لگانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ ایک سیاسی لیڈر نے بلین ٹری سونامی نام سے ایک منصوبہ شروع کیا تھا، بلاشبہ لاکھوں درخت لگائے بھی گئے لیکن ان کی حفاظت بھی تو حکومتوں کی ذمہ داری ہے ؟ پرانے درختوں کی حفاظت نہیں کی اور نئے لگانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
نتیجہ وہی نکلا جس کا ڈر تھا۔ کیا بابوسر، کیا بونیر، کیا سوات، پھر سیالکوٹ، گجرات، لاہور، چنیوٹ، جھنگ، فیصل آباد عبدالحکیم اور پھر جنوبی پنجاب اور سندھ۔ ابھی گزشتہ سیلاب والے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی سڑکوں پر تھے اور اوپر سے یہ آفت دوبارہ آ پہنچی۔ بھارت پانی روک لے تو آبی جارحیت، پانی چھوڑ دے تو آبی جارحیت ہمارا کردار کیا ہے ؟ ہم کو ڈیم بنانے سے کس نے روکا؟ ہم کو دریاؤں کے پشتوں کو مضبوط بنانے سے کس نے روکا؟ ہم کو دریاؤں کی زمین پر کالونیاں تعمیر کرنے کا کس نے کہا؟ ہم کو برساتی نالوں کے اندر ریزارٹ بنانے کا مشورہ کس نے دیا؟
رہی سہی کسر ذخیرہ اندوزوں نے پوری کر دی ہے ۔ حالیہ دنوں میں اگر کوئی فصل تباہ ہوئی ہے تو جانوروں کا چارہ ہے یا مکئی کی فصل کو نقصان پہنچا۔ لیکن پنجاب میں آٹے کی بوری چھ سو روپے سے بارہ سو تک جا پہنچی، چاول کی تمام فصل بہترین موجود ہے کیونکہ اس فصل کو تو چاہیے ہی پانی لیکن جو سابقہ چاول میٹرک ٹنوں کے حساب سے موجود ہے اس کی قیمتیں آسمان پر کیسے جا پہنچی؟ حالانکہ سوائے چند ایک کے کسی بھی گودام کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حکومت بھی فوٹو سیشن سے آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی۔ ایک کیمپ کہ جانوروں کا چارہ دستیاب ہے لکھ کر لگایا جاتا ہے جس میں چارہ نام کی کوئی شے نہیں۔
پہلے سے بننے والی ناقص سڑکیں حکومتی اقدامات کی طرح پانی میں بہہ گئیں، امداد آگئی حکمرانوں کے اللے تللوں میں صرف ہو جائے گی لیکن جن لوگوں کا نقصان ہوا وہ کدھر جائیں؟ آج ہزاروں لوگ در بدر ہیں، لاکھوں مکانات مکمل یا جزوی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں، اگر کوئی غیر سرکاری ادارہ یا تنظیم امداد کرنا چاہتی ہے تو حکومتی اہلکار طرح طرح کے رخنے ڈالتے ہیں اور ضد کرتے ہیں کہ مال کی تقسیم حکومتی بینر کے ساتھ کی جائے۔
قدرتی آفات کا منہ ہم نے خود کھولا اور تدارک بھی ہم کو ہی کرنا ہے ۔ فوری گرین انقلاب کی طرف توجہ دیں علامتی شجرکاری کہ ادھر پودے لگائے ، دوسرے دن نرسری والے اکھاڑ کر لے گئے کہ رینٹ پر لیے گئے کہ یہ درخت رینٹ پر حاصل کیے گئے تھے۔ (فیصل آباد کے کلیم شہید پارک میں ہونے والی شجرکاری کے درخت کہاں ہیں؟ موقع پر دیکھا جا سکتا ہے ) ۔ سڑکوں کی توسیع میں جتنے درخت کاٹے گئے اس کی جگہ اس سے تین گنا زیادہ درخت واپس لگائے جائیں، پنجاب کی ذرخیز زمینوں پر بننے والے کالونیوں کو فی الفور روکا جائے تاکہ دھرتی کنکریٹ کا جنگل بننے سے بچ سکے، ورنہ موسمیاتی تبدیلیوں سے اب جو کوٹھیاں، بنگلے اور فیکٹریاں بچ گئی ہیں خاکم بدہن کہیں اگلی باری ان کی نہ ہو۔ |
|