وجودیت کا مختصر تعارف:
وجودیت بیسویں صدی عیسوی کی وہ نمائندہ فکری تحریک ہے، جس نےتمام شعبہ ہائے زندگی؛ فلسفہ،سائنس ،ادب و فن،عمرانیات و اخلاقیات، الہٰیات و نفسیات وغیرہ پر گہرے اثرات ثبت کیے ۔وجودیت میں دور جدید کے انسان کی مخصوص بے چینی،روحانی کرب، تشویش، مایوسیوں اور ناکامیوں ، عدم تحفظ اور اضطراب کا واضح اظہار ملتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگوں کی تباہ کاریوں، سامراجی طاقتوں کے درمیان جدید اسلحہ کی دوڑ، فر دشمن عقائد و نظریات، روحانی اقدار کی شکست و ریخت ،تسلیم شدہ روایات کے خلاف بغاوت، معاشی ،سیاسی ،سماجی، مذہبی اور جمالیاتی اقدار کی زبوں حالی نے بھی وجودیت کے لیے خام مواد کا کردار ادا کیا ۔جدید سائنسی ترقی کی بدولت سائنسی ایجادات کے سیاسی استعمال سے ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے درمیان معاشی عدم توازن پیدا ہوا۔جس سے آقائیت اور محکومیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ سامراجی اور استحصالی قوتوں کو پروان چڑھنے کے نت نئے مواقع ہاتھ آئے۔ عقل پرستی ،سائنس پرستی اور مادہ پرستی نے ہماری صدیوں کی روایات کو بری طرح نیست و نابود کر دیا ۔انسان پر اخلاقی اور روحانی آسودگی کے سبھی دروازے بند ہو کر رہ گئے۔آج کا انسان جن مسائل سے دوچار ہے چند صدیوں پہلے کا انسان ان سے مکمل طور پر نا آشنا تھا ۔ان سارے عوامل نے وجودی فکر کے لیے خام مواد کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جدید انسان کوایک نئی فکر کی طرف گامزن کر دیا۔ جس کا اظہار وجودیت میں ملتا ہے۔انسانی ضمیر کی اسی چھبن کا دوسرا نام وجودیت ہے۔قاضی قیصر الاسلام کے نزدیک وجودیت موجودہ مشینی زندگی کے خلاف ایک ٖضدی انسانی رویہ یا احتجاج کا نام ہے۔36
آج کا انسان سکون اور رشتوں کے خلوص کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے ۔احساس بیگانگی اور محرومیاں اسے اندر سے ڈستی جا رہی ہیں۔ سائنس نے ہزاروں میل کے فاصلے ختم کر کے رکھ دیے۔ لیکن انسان پھر بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر اذیت ناک احساس تنہائی کا شکار ہے۔
ایسی صورتحال میں جہاں نطشے نے" خدا کی موت" کا اعلان کر دیا، عدمیت (Nihilism)کا فلسفہ وجود میں آیا۔جس نےزندگی کی معروضی معنویت ختم کر کے پرانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ۔زندگی کی نئی معنویت اور اقدار کی تشکیل نو کے لیے وجودیت کا فلسفہ سامنے آیا۔
DAVID COGSWELLکے نزدیک وجودیت کوئی منظم فلسفہ نہیں بلکہ یہ اس روایتی تجریدی فکر و فلسفہ کے خلاف ایک بغاوت کا نام ہے جو حقیقی زندگی کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ اس کے نزدیک وجودی فلسفہ اس حوالے سے ناقابلِ تعریف ہے کہ یہ کوئی مردہ نظریہ نہیں بلکہ ایک زندہ رویہ ہے جو ہر لمحہ تشکیل پذیر ہوتا جا رہا ہے37
موضوعی نقطۂ نظر کی بنا پر وجودیت میں مماثلتوں سے کہیں زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً :-کیرکے گارڈ راسخ العقیدہ عیسائی؛نٹشے،ہائیڈگر اور سارتر ملحد ؛جیسیپرز اورمارسل نسبتاََمذ ہبی ؛کامیو مسلکِ انسانیت کا علم بردار جبکہ ولسن آزاد خیال ہیں38۔ بقول سارتر لفظ ''وجودیت'' کا استعمال ایک ایسا فیشن بن گیا ہے کہ اب لوگ وجودیت کا مفہوم سمجھے بغیر مختلف موسیقاروں، ادیبوں اور مصوروں پر وجودی کا لیبل لگا تے ہیں 39۔ بعض وجودی فلسفیوں جیسے؛ البرٹ کامیو اور مارتن ہیڈگر نے تو خود کو وجودی کہلانا بھی مناسب نہ سمجھا40۔
''وجود جوہر پر مقدم ہے'' یہ دعویٰ وجودی مفکرین کا مشترکہ اور وجودیت کی اساس ہے۔چنانچہ ؛سارتر جس نے وجودیت کو ایک منظم فلسفے کی صورت میں پیش کیا۔لکھتاہے:
“There are two kinds of existentialists. There are, on the one hand, the Christians, amongst whom I shall name Jaspers and Gabriel Marcel, both professed Catholics; and on the other the existential atheists, amongst whom we must place Heidegger as well as the French existentialists and myself. What they have in common is simply the fact that they believe that existence comes before essence — or, if you will, that we must begin from the subjective.’’ 41
وجودیت کا فلسفہ؛ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس دعوے پر مبنی ہے کہ "وجود جوہر پر مقدم ہے"۔ روایتی فلسفے میں جوہر کو وجود پرمقدم سمجھا جاتا تھا۔یہ سلسلہ ارسطو اور افلاطون سے چلتاآرہا تھا، جن کےنزدیک ہر شے بشمول انسان ایک خلقی جوہر رکھتی ہے، جو اس کے مقصدِ حیات کا تعین کرتا ہے۔ انیسویں صدی تک اس تصور کا غلبہ رہا۔ مختلف مفکرین نے اپنے اپنے انداز سے اس تعمیمی جوہر پر خیالات قلم بند کیے ۔تا ہم وجودی مفکرین کسی پیدائشی جوہر کا مکمل انکار کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ دنیا میں منفرد افراد خاص قسم کے زمان و مکان میں وجود رکھتے ہیں۔ہر فرد اپنی انفرادی کوششوں اور اعمال سے اپنے کردار کی تشکیل کرتا ہے اور اپنی دنیا آپ بناتا ہے ۔اپنے نامعلوم جوہر کی تشکیل کا یہ سلسلہ تا دمِ مرگ جاری رہتا ہے ۔زندگی ان کے نزدیک ایک منصوبے کا نام ہے ، جب یہ منصوبہ مکمل ہو جائے اور فرد کی موت سے عمل کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے اور امکانات کے سبھی دروازے اس پرمکمل طور پر بند ہو جائیں۔تب جا کے اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے ،کہ فلاں آدمی کا جوہر فلاں قسم کا تھا۔اس طرح ہر فرد کا مسئلہ الگ اور انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ہر فرد انفرادی طور پر اپنا منفرد جوہر مخصوص زمان و مکان میں ساخت کرتا ہے۔فرد زندگی کے اس قلیل دورانیہ میں مختلف وقوعات سے ہو گزرتا ہے ۔یہ صورتحال مکمل شخصی اور انفرادی نوعیت کی ہوتی ہے۔ گویا فرد نہ تو کسی پیدائشی جوہر سے متصف ہوتا ہے ،جو اس کے افعال اور حدود کا تعین کرے اور نہ ہی فرد افلاطون کے مثالی انسان کی نقل ہے۔یعنی انسان ایک مخصوص فطرت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ایک مکمل خلا اور امکانات کی ایک دنیا ہوتا ہے۔ وجودی مفکرین کے بقول جوہر کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔بلکہ افراد خود اپنے انفرادی اعمال ہی سے اپنا انفرادی جوہر تشکیل دیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تا دمِ مرگ جاری رہتا ہے۔وجودی مفکریں فقط انسان ہی کو وہ ہستی یا وجود سمجھتے ہیں جس کا وجود اس کے جوہر پر مقدم ہوتا ہے۔ بقول سارتر:
"There is only one being whose existence comes before its essence that being is man. First of all man exists, turns up, appears on the scene and only afterwards defines himself.”42
اپنے مضمون " وجودیت اور انسان دوستی" میں سارتر لکھتا ہے کہ وجود کے جوہر پر مقدم ہونے سے ان کی مراد دراصل یہ ہے کہ انسان پہلے پہل فقط ایک خالی وجود ہوتا ہے۔ بعد میں وہ اپنے ذاتی فیصلوں اور انتخاب سے اپنے وجود کو مخصوص معنی پہناتا ہے اور وہ کچھ بنتا ہے جو کچھ کہ وہ بننا چاہے۔43؎
Flynn Thomas اس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
“We first simply exist—find ourselves born into a world not of our own choosing—and it is then up to each of us to define our own identity or essential characteristics in the course of what we do in living out our lives..”44
جونیتھن ویبر اسی بات کو انتہائی مؤثر انداز سے بیان کرتے ہیں:
“An individual, on this view, is not born with any innate personality……..therefore, between different groups of people, nor such a thing as human nature, or the human essence.”45
وجودیت فرد کو داخلی سطح پر انفرادیت کا حامل سمجھتی ہےاور موضوعی صداقت پر ایمان رکھتی ہے۔ معروضی صداقت وجودیت میں خام خیالی تصور کی جاتی ہے۔ صداقت کا معیار اس میں فردِ واحد تصور کیا جاتاہے۔
‘’by existentialism we mean a doctrine which makes human life possible and, in addition, declares that every truth and every action implies a human setting an a human subjectivity’’46
وجودیت فرد کی زندگی کے شب و روز کے مسائل سے سروکار رکھتی ہے۔یہ عمل کا فلسفہ ہے جو تجریدی قیاس آرائیوں کی بجائے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ وجودیت فردیت اور سچی داخلیت پر ایمان رکھتی ہے۔ اس حوالے سے میں فردِ واحد کے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو اہمیت حاصل ہے۔بقول More Vijay Raosaheb:
"Existentialism insists that philosophy should be connected with the individual’s own life and experience…….. So for an individual the personal is the real. Philosophy therefore should start from one’s inner knowledge, one’s own experience, which must be considered as evidence"47
فردیت اور داخلیت کے ساتھ ساتھ وجودیت مطلق آزادی ، بہتر کے انتخاب اور انفرادی ذمہ داری پر اصرار کرتی ہے۔مطلق انسانی آزادی کی بحث سے وجودیت ہر فرد کو انفرای انتخاب اور فیصلوں سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپتی ہے اوراس کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں دیتی ہے۔
انسانی شخصیت یا کردار کی تشکیل وجودیوں کے نزدیک ان انفرادی اعمال سے ہوتی ہے جو وہ تادم مرگ وقتا ًفوقتا ًسرانجام دیتا رہتا ہے اس وجہ سے انفرادی اعمال کی حیثیت بہت بڑھ جاتی ہے ۔
"According to Sartre’s existentialist humanism, human nature is nothing more than the choices one makes in acting and performing"48
وجودیوں کے نزدیک فرد چاہے کسی قسم کی صورتحال سے دوچار کیوں نہ ہو اس کے سامنے عمل کے کئی سارے راستے ہوتے ہیں۔ جن میں سے اپنی راہ کا تعین اسی نے کرنا ہوتا ہے ۔یہ انتخاب اور فیصلہ خالصتاً انفرادی مسئلہ ہے ۔ وجودیت میں اس کی اہمیت اس حوالے سے بہت بڑھ جاتی ہے کہ فرد چاہے جو بھی انتخاب اور عمل کرے وہ اس کی شخصیت کا ایک مستقل اور ناقابل تبدیل حصہ بن جاتا ہے۔ وجودیت کے تصور انتخاب سے باہم پیوست دوسرا اہم تصور انفرادی ذمہ داری کا ہے۔ وجودیوں کے نزدیک فرد جو بھی عمل کرے وہ اس کا انفرادی انتخاب ہوتا ہے۔ لہذا اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔اس انفرادی ذمہ داری سے کوئی راہ فرار ممکن نہیں۔
عمل کی صورتحال وجودیوں کے ہاں کچھ یوں ہے کہ کچھ نہ کرنا بھی کچھ کر گزرنے کے مترادف ہے ۔ یعنی اس عمل کے بھی دو رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ گویا خاموش تماشائی بنے رہنا بھی ایک مجرمانہ فعل ہے ۔ اس کو اس مثال سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں آپ کسی ایسے کمرے میں بیٹھے ہیں جس کی کھڑکی باہر گلی کی طرف کھلتی ہے۔ اچانک آپ کی نظر ان راہزنوں پر جا پڑتی ہے جو ایک معصوم آدمی کو لوٹ رہے ہوں۔ بحیثیت انسان آپ کا رد عمل منفی یا مثبت ہو سکتا ہے۔آپ ڈاکوؤں کو پستول سے ڈرا دھمکا کر اس معصوم آدمی کو بچا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ ایک مثبت فیصلہ تصور ہوگا۔ دوسری صورت میں آپ ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر اس آدمی کولوٹ سکتے ہیں اور اس طرح جو کچھ ہاتھ لگ جائے اس میں اپنا حصہ بنا لیں۔ اس حوالے سے یہ ایک منفی رد عمل تصور ہوگا۔ لیکن ممکنہ فیصلوں میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ڈاکوؤں کے خوف، عدالت کے چکروں کی پریشانی سے خود کو دور رکھنے کی خاطر محض خاموش تماشائی بن جائیں۔ گویا آپ اپنے اس عمل سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ آپ اس معاملےمیں مکمل غیر جانبدار ہیں۔ لیکن وجودیت میں آپ کی غیر جانبداری کا یہ ملمع انتخابی کردار کی بدترین صورت تصور ہوگا۔ اس خاموش عمل کے بھی سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔49
وجودیت میں خود فریبی کا تصور بھی بہت اہم ہے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی انفرادی ذمہ داریوں کو دیگر افراد یا اداروں کے سر ڈال کر ایک قسم کی خود فریبی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً:- ہم کسی سماجی، سیاسی جماعت یا مذہبی ادارے سے وابستہ ہو کر ان کے احکامات کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں یا کسی من پسند لیڈر کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور اسے شعاری زندگی بنا دیتے ہیں۔ تاہم اس قسم کی خود فریبی سے ہم اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ممکن ہے ہم کسی بھی لمحے کسی اور جماعت کا حصہ بن جائیں۔ یا ہم اپنے عقائد سے پہلو تہی کرکے کوئی نیا عقیدہ اختیار کریں۔ گویا اس طرح انتخاب کا مسئلہ مکمل ذاتی اور تن تنہا انفرادی معاملہ ہے جس سے راہ فرار ممکن نہیں۔سارتراسی خود فریبی کو اپنی اصطلاح میںBad Faith کہتا ہے۔اکثر وجودی اسےInauthentic Existenceکہتے ہیں۔
مصدقہ زندگی(Authentic Existence) کا تصور بھی ہمیں بارہا وجودی مفکرین کے ہاں ملتا ہے۔ اس سے مراد فرد کی مطلق آزادی سے کسی خارجی دباؤ کے بغیر اپنے انتخاب اور فیصلے سے مکمل ذمہ داری اور خود عہدی کے ساتھ باعمل زندگی گزارنا ہے۔چنانچہ وجودیت ایک ایسا فلسفہ ہے جو جبریت اور تقدیریت جیسے تصورات کی مکمل تردید کرتاہے اور ایسے تمام تصورات جن میں فرد کے اختیار و انتخاب کے معاملات کسی خارجی دباؤ سے مشروط کیے جاتے ہوں ،باطل قرار دیتا ہے ۔
وجودیت کا ایک اور اہم دعویٰ یہ بھی ہے کہ وجود ممکن ہےExistence is Contingece))۔ چنانچہ گھر کارخانہ یا کوئی بھی ادارہ صحیح طور پر چلانے کے لیے ہم نہ صرف مکمل حساب کتاب رکھتے ہیں بلکہ احتیاطی تدابیر بھی اپنائے رکھتے ہیں۔ تاکہ کسی نقصان یا خسارے سے بچا جا سکے۔ احتیاطی تدابیر میں ایک اتفاقی یا حادثاتی فنڈ بھی ضرور رکھتے ہیں ۔تاکہ ہنگامی حالات میں اس کا استعمال کر کے نظم و نسق اور توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی میں تمام خوش تدبیری یا احتیاط کے باوجود بھی احتمالات اور امکانات کا نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ وجود یو ں کےنزدیک زندگی میں امکانات کا ایک مستقل تواتر موجود رہتا ہے۔ جس سے انکار ممکن نہیں ان کے نزدیک زندگی میں کسی بھی وقت کسی بھی شخص کے ساتھ کچھ بھی پیش آسکتا ہے۔ سائنس چاہے کس قدر پیشگوئی میں کامل ہو، فطرت چاہے جس قدر منظم اور علت و معلول کی پابند ہو لیکن پھر بھی امکانات کی اس صورتحال سے انکار ناممکن ہے۔ کوئی شخص چاہے جس قدر محتاط اور کم رفتاری سے ہی ڈرائیونگ کیوں نہ کرتا ہو لیکن پھر بھی امکان رہتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہو جائے ۔ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص چاہے جس قدر تیز اور غیر محتاط طریقے سے گاڑی چلاتا ہو ،کبھی حادثے کا شکار ہی نہ ہو اور بجائے حادثاتی موت کے طبعی موت مر جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص زندگی میں کبھی گاڑی میں نہ بیٹھا ہو اور پہلی بار سوار ہوتے ہی حادثے کا شکار ہو جائے۔ ان قسم کے بہت سارے واقعات ہماری زندگی میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہماری زندگی کے اس بے تکے پن کے پیچھے کوئی نہ کوئی باضابطہ مقصد کار فرما ہوتا ہے۔ لیکن وجودیت اس کی تردید میں بتاتی ہےکہ زندگی امکانی وقوعات کا ایک مستقل سلسلہ ہے جس میں کچھ بھی پیش آسکتا ہے۔
عقل کی مطلقیت اور تجریدی فلسفے سے انکار وجودیت کا امتیازی وصف ہے ۔انیسویں صدی میں سائنسی اعتقاد کی بنا پر عقلیت پرستی کا شدید ترین رجحان عام تھا۔جس کی بہترین مثال جرمن بالخصوص ہیگل کا فلسفہ ہےجس کی رو سے کائنات ایک عقلیاتی کل ہے اور ہماری عقل حقیقت مطلق کا ایک جز۔اس لیے تمام مسائل عقل ہی کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں۔ہیگل کی عقلیت پرستی کے خلاف وجودیت کے باوا آدم سورین کیرکےگارڈ نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا ۔اس کے نزدیک صداقت موضوعی اور عقل کی گرفت سے آزاد ہے۔اس عقلیت بے زاری کی بنا پر وجودیت کو ہیگلیت کے خلاف ردِ عمل بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ وجودیت معروضی نقطۂ نظر کے بجائے انسانی ذات کو مرکزی حیثیت دے کر موضوعیت کو حصولِ صداقت کا مؤثر ذریعہ سمجھتی ہے ۔اس کی رو سے انسانی ذات ہی سب کچھ ہے اور فلسفہ فرد کی زندگی اور تجربے سے مربوط ہونا چاہیے۔ فرد کی انفرادی زندگی اور تجربات ہی مستند علم کے ذرائع ہیں۔واضح رہے کہ اس سے پہلے فلسفے کا زیادہ تر انداز معروضی تھا ۔فلسفی ایک تماشائی کے نقطۂ نظر سے کائنات اور انسان کے متعلق رائے زنی کرتے تھے۔ وجودیت نے ایک فن کار کے نقطۂ نظر سے داخلی تجربات اور واردات سے اپنا فلسفہ تشکیل دیا۔
Existentialism, in fact, begins as a voice raised in protest against the absurdity of Pure Thought, a logic which is not the logic of thinking but the immanent movement of Being. It recalls the spectator of all time and of all existence from the speculations of Pure Thought to the problems and the possibilities of his own conditioned thinking as an existing individual seeking to know how to live and to live the life he knows.”50
بعض حضرات وجودیت کو جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد پیدا شدہ صورتحال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ فلسفے کی تاریخ میں اس کےبنیادی ماخذات یونانی دور اور بعد کے فلسفے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔تاہم دو عظیم جنگوں ؛بِالخصوص جنگِ عظیم دوم کی ہولناک تباہیوں کے بعد یہ فلسفہ پوری شدت سے ابھر کر سامنے آیا،جب اخلاق ،مذہب اور اقدار کسی چیز کا پاس نہ رہا ،انسانی خون کی ندیاں بہائی گئیں تو انسان کو شدت سے عدم تحفظ کا احساس ہوا۔فرد کی بے چینی ،مایوسی اور تشویش بڑھتی گئی۔روحانی اقدار اور مذہب سے اعتبار اٹھتا گیا۔مادیت پرستی نے روحانیت کو پہلے سے ہی بری طرح بےدخل کردیا تھااور سائنس سے وابستہ امیدوں کو انسان نے دو عظیم جنگوں میں دم توڑتے دیکھا۔ سیاسی سماجی اور مذہبی انتشار بڑھتا گیا۔جرمن مفکرین کی انتہائی فلسفیانہ مثالیت پسندی میں بھی نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ انسان کو مجبوراً خارج سے نظریں ہٹا کر ذات کی گہرائیوں میں اترنا پڑا۔
وجودیت کو ایک مایوس کن اور قنوطی فلسفے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔سارتر نے اپنے مضمون وجودیت اور انسان دوستی میں اس کا اچھا دفاع کیا ہے۔اس حوالے سے پروفیسر غلام احمد صادق نے انتہائی پر مغز بحث کی ہے:
"عدمیت کی جانب میلان کے باوصف وجودیت کا دامن وژن سے بھرپور ہے۔ جب کوئی وجود کی اذیت، کرب، دہشت اور انسانی وجود کی ناگہانیت پر اصرار کرتا ہے تو اصل میں وہ ہماری توجہ انسانی صورتحال کی چند ازبس اثر آفرین صداقتوں کی جانب منعطف کراتا ہے۔ وجودِ مصدقہ پر اس کا اصرار فرد کی اپنی تقدیر کا مالک ہونے کی حیثیت کو بحال کرنے کی تگ و دو ہے۔ وجودی دانشور انسان کو رواجوں اور روایتوں کی زنجیروں سے نجات دلانا چاہتا ہے۔"51
ْْْْاس فطری گوناگونی میں وجودیت کی حتمی تعریف تو ممکن نہیں البتہ قابلِ ذکرفکری اشتراکات کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ جن کی تلخیص نکات کی شکل میں درج کی جاتی ہے:
• وجودی مفکرین سائنسی طریقۂ تحقیقِ صداقت سے مطمئن نہیں اور اسے انسانی حیاتی مسائل کے اہل نہیں سمجھتے۔
• وجودی مفکرین عقل کی مطلقیت سے انکاری ہیں۔
• وجودی مفکرین تمام سماجی نظریات جس میں فرد کو آلۂ کار بنا کر گروہ کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، کی تکذیب کرتے ہیں۔
• وجودی مفکرین انسانی وجود کو شعور کے مترادف سمجھتے ہیں اور شعور ان کے نزدیک ہمیشہ کسی دوسری چیز کا شعور ہوتا ہے۔
• سچائی اور نیکی ان کے ہاں معروضی حقائق نہیں، بلکہ داخلی تصرفات ہیں۔ صداقت ان کے ہاں موضوعی ہے۔
• وجودی مفکرین مختلف جذباتی کیفیات مثلاََ؛فکر،حزن،مایوسی،افسردگی،اکتاہٹ،گِھن،لغویت، کی خوب وضاحت کرتے ہیں۔ جو ان کے نزدیک نفسیاتی واردات نہیں بلکہ وجودیاتی نتائج کی حامل ہوتی ہیں اور جو باطنی دنیا کی سچائیوں سے ہمیں آشنا کراتی ہیں۔
• تمام وجودی مفکرین تھوڑے سے فکری اختلاف کے ساتھ انسانی مطلق آزادی کی بات کرتے ہیں،اس کی بے مثل انفرادیت پر زور دے کر خود اانتخاب اور فیصلے کرنے کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ہر فیصلہ انسانی حالات کا غماز اور اس کی معنویت ان حالات کی رہینِ منت ہوتی ہے۔اس طرح وجودی مفکرین فرد کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپتے ہیں یا باالفاظِ دگر اسے اپنی تقدیر کا مالک بناتے ہیں۔
• وجودی مفکرین وجود کو جوہر پر مقدم مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان اپنے معدوم جوہر کی دریافت کا نام ہے۔پیدائشی طور پر وہ کسی قسم کے جوہر سے متصف نہیں ہوتا جو اس کے کردار کا تعین کرے۔
• وجودی مفکرین تجریدی افکار کے بجائے فردِ واحد کے داخلی واردات اور ذاتی تجربات کو اہم گردانتےہیں۔ صداقت ان کے ہاں موضوعی ہے۔
• تصورِ موت وجودی مفکرین کے ہاں بے حد اہم ہےجو مصدقہ زندگی کے حصول کی راہ ہموار کرتی ہے۔
• انسانی وجود کو وجودی مفکرین ناقبلِ تعریف سمجھتے ہیں۔انفرادی اعمال ان کے بہت اہم ہیں جو وجود کو معنی و مفہوم عطا کرتے ہیں۔
وجودیت اور بعض اہم فلسفیانہ مکاتبِ فکر۔ ایک تقابلی مطالعہ
وجودیت اور انسان دوستی ۔ ایک تقابلی مطالعہ:
وجودیت کو بعضوں نے انسان دوستی کی ایک شدید ترین صورت قرار دیا ہے۔ لیکن کیا ایسا کہنا بجا ہے؟آئیے ذرا اس پر تقابلی نظر ڈالتے ہیں۔انسان دوستی ایک رجائی جبکہ وجودیت ایک قنوطی فلسفہ ہے۔زیادہ تر وجودی خدا کے وجود کے منکر ہیں۔اس بنا پر وہ اس پوری کائنات کو بے معنی اور لایعنی کہہ کر امید کے سارے دروازے بند کرتے ہیں۔ان کی نظر میں کائنات میں نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی مقصد۔ جب یہ پوری کائنات بے معنی ہے تو بھلا انسانی زندگی کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ ایک انسانیت پرست جب کہتا ہے " انسان ہر شے کا پیمانہ ہے " تو اس کی مراد فردِ واحد نہیں بلکہ کل نوعِ انسانی ہوتی ہے اور جب وہ اس اجنبی کائنات میں انسان کو بالکل یکتا و تنہا کہتا ہے ۔تو اس کی مراد فردِ واحد نہیں بلکہ عمومی نوعِ انسانی ہوتی ہے۔ لیکن یہ فلسفہ اس حوالے سے امید افزاء ہے کہ انسان معاشرتی مخلوق ہے اور افراد کی صورت میں وہ تنہا نہیں۔وہ اگر چاہے تو دوسرے انسانوں سے مل کر معاشرتی فلاح و بہبود میں حصہ لے سکتا ہے۔اور اس طرح انسانی فلاح و بہبود اور ربطِ باہم سے اس کربِ تنہائی سے نجات پا سکتا ہے۔پس انسان پرستی ایک حرکی نظریہ ہے ۔ جس کے لیے انسانی کی ازلی تنہائی و بیگانگی کا شدید ترین احساس معاشرتی اخوت، بھائی چارے،اتفاق،اتحاد اور ربطِ باہم سے قدرے کم ہو سکتا ہے اور اس طرح انسان اپنی محرومیوں کا ازالہ متحرک زندگی اور بہترین معاشرے کی تشکیل کی صورت میں کر سکتا ہے۔
لیکن وجودیت کا انداز ذرا مختلف ہے۔اس میں انسان کی بجائے انفرادی فرد کو اشیاء کا پیمانہ سمجھا جاتاہے۔وجودی مفکرین انسانی زندگی کو ایک منصوبہ سمجھتے ہیں۔اقدار ،پسند ناپسند، انتخاب و اختیار اور رد و قبول کے معاملے میں فردِ واحد فیصلوں کےپلِ صراط پر سے روز گزرتا ہے۔جو مکمل شخصی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک فیصلہ کرنے کے معاملے میں ہر شخص مکمل یکتا و تنہا ہے۔گویا ہر شخص اپنی زندگی کا معمار خود ہے۔ وجودیوں کے سبھی تصورات: آزادی ، ذمہ داریِ،خود عہدی وغیرہ فردِ واحد کے گرد گھومتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سارتر وجودیت اور انسان دوستی میں کس طرح رشتہ جوڑتا ہے۔اپنے مشہورِ زمانہ مضمون " وجودیت اور انسان دوستی میں سارتر لکھتا ہے۔اگر مان لیا جائے کہ وجود جوہر پر مقدم ہے تو انسان جو کچھ کرتا ہے اس کی ساری ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف اپنا ذمہ دار آپ ہے بلکہ عین اسی وقت جب وہ کوئی فیصلہ کر رہا ہوتاہے۔ تو یہ فیصلہ کل نوعِ انسانی کے لئے بھی ہوتا ہے۔گویا وہ اپنی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ کل نوعِ انسانی کی ذمہ داری بھی قبول کرتا ہے۔ بقول سارتر انسان انتخاب کے معاملے میں ہمیشہ بہتر کا انتخاب کرتا ہے اور کوئی انتخاب تب تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک نوعِ انسانی کی اس میں بہتری نہ ہو۔ سارتر کے بقول اگر میں اپنے تصور کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہوں تو پھر ہونا چاہیے کہ وہ تصور سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس طرح ہماری ذمہ داری انفرادی سطح سے بڑھ کر نوعِ انسانی کےلیے ہوجاتی ہے۔51
وجودیت اور عدمیتExistentialism and Nihilism:
عدمیت دراصل نفی یا انکار کا فلسفہ ہے۔یہ تمام معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی اقدار کے کھوکھلے پن سے انکار اور استرداد کا نام ہے۔ تمام تسلیم شدہ روایات و اقدار کے خلاف وجودی مفکرین علمِ بغاوت بلند کرتے نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ خود مذہبی وجودی مفکرین بھی اس معاملے میں راسخ العقیدہ نظر نہیں آتے۔ چنانچہ مذہبی وجودی مفکر سورین کیرکے گارڈ کے ہاں مروجہ عیسائیت پر کڑی تنقید اور اس سے بغاوت کا رجحان ملتا ہے۔ہائیڈگر، سارتر، کامیو اور نطشےکے ہاں بھی عدمیت کا واضح رجحان ملتا ہے۔ لیکن وجودیت کو صرف عدمیت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا بلکہ عدمیت کی حیثیت اس میں ایک عبوری دور کی سی ہوتی ہے۔وجودیت عدمیت یا انکار و استرداد کے عبوری دور سے نکل کر اقدار کی تشکیلِ نو بھی کرتی ہے۔عدمیت سے پیدا شدہ بحران اور خلا کو پر کرنے کی کوشش بھی وجودیت کرتی ہے۔
دنیائے ادب میں ترگنیف کے ناول" باپ اور بیٹے" کی اشاعت ہی سےعدمیت کی اصطلاح عام ہوگئی۔ناول کا ہیرو "بیزارؤف" ایک ایسا باغی نوجوان ہےجو تمام فرسودہ اقدار کی نفی کرتا ہے۔اس صورتِ حال سے پیدا شدہ خلاء کو پر کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی تعمیری حل موجود تونہیں ہوتا۔ تاہم ایک مثبت صورتِ حال کی دریافت تک وہ اس عبوری دور کو ناگزیر سمجھتا ہے۔انکار ہی کو وہ اپنا شعار بناتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اسی انکار کے بطن سے اقرار کی ایک نئی تعمیری صورت جنم لے گی۔53
دستوفسکی کا نام بھی عدمیت کے حوالے سے اہم ہے۔اس کے ناول " براداران کرامازوف" کا ہیرو کہتا ہے۔"اگر یہاں کوئی خدا موجود نہیں تو ہمیں سب کچھ کرنے کی آزادی ہے۔" گویا ہم کسی کے سامنے بھی جوابدہ نہیں۔ اس طرح وہ اپنے باپ کے قتل پر آمادہ ہوجاتا ہے۔54
عدمیت کے اسی عبوری دور سے بیشتروجودی مفکرین ہو گزرے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم نام نطشے کا ہےجس کا خیال تھا کہ یورپ عدمیت کے رجحان کی ضد میں ہے۔اس بنیاد پر اسے عدمیت پرست فلسفی جانا جاتا ہے۔تاہم عدمیت کا اعلان دراصل نطشے کا ایک تہذیبی نوحہ تھا۔دہریت سے پیدا شدہ عدمیت کے رجحان پر وہ ماتم کناں نظر آتا ہے۔ اس کے مثبت حل کے لیے وہ برابر تعمیری کوشش میں لگا رہا۔اسے یقین تھا کہ مروجہ اقدار کےانکار کے بعد وہ اس کی تشکیلِ نو میں بھی کامیاب ہوجائے گا۔عدمیت کے فلسفےنے دہریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
مروجہ نظامِ حیات کے خلاف شدید بیگانہ روی بھی عدمیت ہی کی ایک صورت ٹھہرتی ہے۔نئی نسل کی عدمیت دہریت کا نتیجہ نہیں بلکہ اب اس کی صورت بدل چکی ہے۔معاشرتی جبر اور مشینی زندگی سے پیدا شدہ مہیب سناٹے اس کی نفئ ذات کا سبب بنتے جارہے ہیں۔نئے دور کا نوجوان ساری دنیا سے بے نیاز،اپنے ماحول سے اجنبی بن کر ایک خود غرضانہ علیحدگی اختیار کرتا نظر آتا ہے۔یہی عدمیت کی نئی صورت ہے۔
" />