����� ���� ��سفر حج چیپٹر ١٤

منیٰ میں قیام

سو ہمیں بسوں میں سوار کرایا گیا اور ہماری رہائشی عمارت سے دس منٹ ہی کی مسافت پر
منیٰ کا میدان تھا وہاں باہر اتار دیا گیا
جہاں سے پیدل چلتے ہوئے ہم نے اپنے خیمے تک جانا تھا۔

اب دونوں طرف خیمے ہی خیمے ہیں ، سر پر پڑتی دھوپ،گلے اور ہاتھ میں بیگز،ساتھ میں آگے پیچھے گھر
والوں کا خیال،راستے میں پانی کے کولرز، اطراف میں بنے چھوٹے چھوٹے فٹ پاتھوں پر بیٹھے لوگ اور
سکاوٹس کی تیز گھورتی نظریں۔۔۔۔۔راستہ پوچھنے کے لئے یس نو کا استعمال
سب ملا کر سفر کے آغاز کا با ضابطہ اعلان ہوگیا کہ اب اس منزل کے لئے
نکل چکے تھے۔ جس کے لئے کچھ مہینوں سے تیاری کر رہے تھے۔

اسی لئے اگر آپ واک کی عادت ڈال کر نہیں آئیں گے تو اتنا چل نہیں سکیں گے۔
واک کی عادت ڈالیں کھانا بھی صحت بخش کھانا ہو گا۔
کیونکہ دھوپ اور گرم موسم میں چلنا
stamina
مانگتا ہے۔
چلتے چلتے اور مزید آگے چلتے راستے میں اپنے بینڈز پر لکھے نمبر
سکاوٹس کو دکھاتے ہم پہنچے اپنے خیمے تک پہنچ چکے تھے۔
ہر طرف خیموں کےجھنڈ تھے۔ایک ملک کے خیموں کا جھنڈ ہے اور اسکے باہر گیٹ تھا
اور اس پر ایک سکاوٹ کھڑے ہو کر آتے جاتے لوگوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
اب جی
خیمے سے ذہن میں چھوٹا سا کیمپنگ خیمہ آتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں خیمے سے مراد ایک
giant size marquee
تھا۔

اور صرف ایک نہیں بہت سارے
marquee
تھے۔

جو کہ کافی مظبوط بھی تھے۔ہر قسم کی گرمی سردی کو جھیل سکتے تھے۔
ایک خیمہ اسکے سامنے
ایسا ہی ایک اورخیمہ اسکے بائیں بھی ایسا ہی خیمہ دائیں
یہ اندر کافی جگہ رکھتا تھا حتی کہ اسکے اندر ایک وقت میں پچاس سے اسی
یا اس سے ذیادہ خواتین آسکتی تھیں۔

ہمیں جو خیمہ ملا اسکے باہر کے مناظر کچھ یوں تھے کہ
سارے فرش پر نقلی سبز گھاس والا قالین بچھا تھا۔
فریج دیواروں کے ساتھ رکھے تھے۔
جس میں پانی کی بوتلیں تھیں ۔
ایک نکڑ میں چائے والا کولر بھی نظر آرہا تھا مگر چائے کے شوقین لوگوں کا کہنا تھا
چائے اس میں خال خال ہی نظر آئی تھی ۔یا لوگ ذیادہ ہونے کی وجہ سے جلدی سے ختم
پائی گئی۔
جگہ جگہ دیواروں پر تنبیہی پیغامات سعودی حکومت کی جانب سے لکھے گئے تھے۔
کنٹرولر انتظامیہ تیز نظروں سے جائزہ لیتی نظر آرہی تھی۔
اے سی کے چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔
کھانوں کے لنچ باکسز لاتی لیجاتی انتظامیہ بھی نظر آرہی تھی۔

خیمے کے اندر صوفہ کم بیڈز تھے۔ انکو فولڈ کر کے سیٹ بنا کر بیٹھا جاسکتا تھا۔
انکو بیڈ بنا کر سویا جسکتا تھا۔


صبح کو ناشتے میں ملا تھا چنے نان ۔۔۔۔دوپہر میں تھا قیمہ مٹر اور روٹی۔۔۔۔۔ اور رات میں
وہی قیمہ مٹر چاولوں میں ڈالکر مل گیا تھا۔
خواتین نے اس کھانے پر خوب باتیں بنائٰٓیں۔
مگر کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔
ایک خاتون نے کہا کہ اگر کوئی بہو اتنے بد مزہ چاول بنائے تو
وہ اپنے بیٹے کو فون کر کے البیک لانے کا کہہ دے۔

ساتھ ساتھ نمازیں نوافل تسبیحات بھی پڑھتی رہیں۔ذکر کی عادت نہ بھی ہو آپکو ایسے مقام پر
اللہ شدت سے یاد آتا ہے۔آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ آپکی ضرور قبول
فرما رہا ہے۔ کیونکہ جبتک اللہ نہ بلائے پھر ہی انسان جا سکتا ہے۔
پھر عرفات کے لئے روانہ ہونا تھا۔ اگلا دن یوم عرفہ تھا۔

اس مقدس سفر کا بلاوا آیا ہمارے رب نے بلایا
وہاں تک پہنچے مالک نے ملنے واسطے بلایا

رحمان نے ہم گنہگاروں کو، بخسشش حاصل کرنے بلایا
رحیم نے اپنا مہماں بنایا ، رحمت دینے واسطے بلایا

کرم ہے مالک کا گھڑیاں وہ لایاجب دعا کے واسطے ہے بلایا
زندگی و آخرت کا زاد راہ اکٹھا کرنے واسطے ہے بلایا



منیٰ میں قیام

سو ہمیں بسوں میں سوار کرایا گیا اور ہماری رہائشی عمارت سے دس منٹ ہی کی مسافت پر
منیٰ کا میدان تھا وہاں باہر اتار دیا گیا
جہاں سے پیدل چلتے ہوئے ہم نے اپنے خیمے تک جانا تھا۔

اب دونوں طرف خیمے ہی خیمے ہیں ، سر پر پڑتی دھوپ،گلے اور ہاتھ میں بیگز،ساتھ میں آگے پیچھے گھر
والوں کا خیال،راستے میں پانی کے کولرز، اطراف میں بنے چھوٹے چھوٹے فٹ پاتھوں پر بیٹھے لوگ اور
سکاوٹس کی تیز گھورتی نظریں۔۔۔۔۔راستہ پوچھنے کے لئے یس نو کا استعمال
سب ملا کر سفر کے آغاز کا با ضابطہ اعلان ہوگیا کہ اب اس منزل کے لئے
نکل چکے تھے۔ جس کے لئے کچھ مہینوں سے تیاری کر رہے تھے۔

اسی لئے اگر آپ واک کی عادت ڈال کر نہیں آئیں گے تو اتنا چل نہیں سکیں گے۔
واک کی عادت ڈالیں کھانا بھی صحت بخش کھانا ہو گا۔
کیونکہ دھوپ اور گرم موسم میں چلنا
stamina
مانگتا ہے۔
چلتے چلتے اور مزید آگے چلتے راستے میں اپنے بینڈز پر لکھے نمبر
سکاوٹس کو دکھاتے ہم پہنچے اپنے خیمے تک پہنچ چکے تھے۔
ہر طرف خیموں کےجھنڈ تھے۔ایک ملک کے خیموں کا جھنڈ ہے اور اسکے باہر گیٹ تھا
اور اس پر ایک سکاوٹ کھڑے ہو کر آتے جاتے لوگوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
اب جی
خیمے سے ذہن میں چھوٹا سا کیمپنگ خیمہ آتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں خیمے سے مراد ایک
giant size marquee
تھا۔

اور صرف ایک نہیں بہت سارے
marquee
تھے۔

جو کہ کافی مظبوط بھی تھے۔ہر قسم کی گرمی سردی کو جھیل سکتے تھے۔
ایک خیمہ اسکے سامنے
ایسا ہی ایک اورخیمہ اسکے بائیں بھی ایسا ہی خیمہ دائیں
یہ اندر کافی جگہ رکھتا تھا حتی کہ اسکے اندر ایک وقت میں پچاس سے اسی
یا اس سے ذیادہ خواتین آسکتی تھیں۔

ہمیں جو خیمہ ملا اسکے باہر کے مناظر کچھ یوں تھے کہ
سارے فرش پر نقلی سبز گھاس والا قالین بچھا تھا۔
فریج دیواروں کے ساتھ رکھے تھے۔
جس میں پانی کی بوتلیں تھیں ۔
ایک نکڑ میں چائے والا کولر بھی نظر آرہا تھا مگر چائے کے شوقین لوگوں کا کہنا تھا
چائے اس میں خال خال ہی نظر آئی تھی ۔یا لوگ ذیادہ ہونے کی وجہ سے جلدی سے ختم
پائی گئی۔
جگہ جگہ دیواروں پر تنبیہی پیغامات سعودی حکومت کی جانب سے لکھے گئے تھے۔
کنٹرولر انتظامیہ تیز نظروں سے جائزہ لیتی نظر آرہی تھی۔
اے سی کے چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔
کھانوں کے لنچ باکسز لاتی لیجاتی انتظامیہ بھی نظر آرہی تھی۔

خیمے کے اندر صوفہ کم بیڈز تھے۔ انکو فولڈ کر کے سیٹ بنا کر بیٹھا جاسکتا تھا۔
انکو بیڈ بنا کر سویا جسکتا تھا۔


صبح کو ناشتے میں ملا تھا چنے نان ۔۔۔۔دوپہر میں تھا قیمہ مٹر اور روٹی۔۔۔۔۔ اور رات میں
وہی قیمہ مٹر چاولوں میں ڈالکر مل گیا تھا۔
خواتین نے اس کھانے پر خوب باتیں بنائٰٓیں۔
مگر کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔
ایک خاتون نے کہا کہ اگر کوئی بہو اتنے بد مزہ چاول بنائے تو
وہ اپنے بیٹے کو فون کر کے البیک لانے کا کہہ دے۔

ساتھ ساتھ نمازیں نوافل تسبیحات بھی پڑھتی رہیں۔ذکر کی عادت نہ بھی ہو آپکو ایسے مقام پر
اللہ شدت سے یاد آتا ہے۔آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ آپکی ضرور قبول
فرما رہا ہے۔ کیونکہ جبتک اللہ نہ بلائے پھر ہی انسان جا سکتا ہے۔
پھر عرفات کے لئے روانہ ہونا تھا۔ اگلا دن یوم عرفہ تھا۔

اس مقدس سفر کا بلاوا آیا ہمارے رب نے بلایا
وہاں تک پہنچے مالک نے ملنے واسطے بلایا

رحمان نے ہم گنہگاروں کو، بخسشش حاصل کرنے بلایا
رحیم نے اپنا مہماں بنایا ، رحمت دینے واسطے بلایا

کرم ہے مالک کا گھڑیاں وہ لایاجب دعا کے واسطے ہے بلایا
زندگی و آخرت کا زاد راہ اکٹھا کرنے واسطے ہے بلایا









 
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 254 Articles with 333030 views A writer who likes to share routine life experiences and observations which may be interesting for few and boring for some but sprinkled with humor .. View More