اسلامی فکر اور سراج منیر کی تنقیدی بصیرت
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
اسلامی فکر اور سراج منیر کی تنقیدی بصیرت ---------------------------------------- سراج منیر (۱۹۵۱ء ۔ ۱۹۹۰ء) اردو تنقیدی نظام فکر میں ایک معتبر حوالہ ہیں جنہوں نے ادب کو محض زبان و بیان، فنی صناعات یا اسلوبیاتی مباحث تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک بڑے تہذیبی اور روحانی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ستر کی دہائی میں سامنے آئے اور اپنی مختصر مگر بامعنی زندگی میں اردو تنقید کو ایک ایسی فکری جہت عطا کی جس نے اسے محض لسانی سطح سے بلند کر کے تہذیبی و مابعد الطبیعیاتی بنیادوں پر استوار کیا۔ اس زاویہ نظر نے نہ صرف انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کیا بلکہ آج بھی اردو تنقید میں ان کی حیثیت کو زندہ اور مؤثر رکھا ہوا ہے۔ سراج منیر کی فکر کا مرکزی حوالہ "تہذیب" ہے۔ وہ تہذیب کو صرف ظاہری رسوم، ملبوسات یا زبان کا نام نہیں سمجھتے بلکہ اس کے پس منظر میں ایک روحانی و ایمانی نظام دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تہذیب کا اصل مرکز وہ "تصورِ حقیقت" ہے جس پر انسانی رویے، جمالیات، علم اور معاشرت سب قائم ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کی اساس مادیت پر نہیں بلکہ الوہیت، توحید اور آخرت پر استوار ہے۔ اگر ادب اور فن اس مرکز سے جڑ جائیں تو وہ انسان کے لیے راستہ روشن کرنے والے چراغ بنتے ہیں، لیکن اگر یہ مرکز نظرانداز ہو جائے تو فن محض سطحی لذت یا دنیاوی تماشے میں بدل جاتا ہے۔ سراج منیر نے تہذیب کو ایک زندہ اور رواں دھارے کے طور پر سمجھا۔ ان کے نزدیک تہذیب جامد نہیں ہوتی، بلکہ یہ نئے تجربات اور نئے حالات میں اپنی بقا کے راستے تلاش کرتی ہے، لیکن اس کا مرکزی حوالہ ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔ وہ اسلامی تہذیب کے حوالے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ اس کا مرکزی نکتہ "توحید" ہے، جو اسے دیگر تہذیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی توحید اس کے علم، فن، اخلاق اور معاشرت کو معنویت بخشتی ہے۔ سراج منیر کے نزدیک "تہذیب" اور "کلچر" محض رسومات یا خارجی طور طریقوں کا نام نہیں ، بلکہ ان کے پس پشت ایک اخلاقی و روحانی نظام موجود تھا جو زندگی کی سمت متعین کرتا ہے۔ وہ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ "زندگی کی تمام سرگرمیوں کی معنویت طواف کی طرح صرف اس امر سے متعین ہوتی ہے کہ اس کا مرکز کیا ہے۔" ان کے نزدیک یہ مرکز دینِ اسلام تھا۔ اس تصور نے ان کے تمام تنقیدی مباحث کو ایک وحدت عطا کی اور ان کی فکر کو منتشر ہونے سے محفوظ رکھا۔ ان کی جمالیاتی بصیرت بھی اردو تنقید میں نمایاں ہے۔ ان کے ہاں "جمالیات" بھی تہذیبی فکر سے منسلک ہیں۔ وہ حسن کو محض حسی لذت نہیں سمجھتے بلکہ اسے "الحق کی تجلی" کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک حسن انسان کو خدا کی طرف متوجہ کرنے اور وجود کو ماورائی معنویت دینے کا ذریعہ ہے۔ یہی تصور اسلامی جمالیات کو مغربی جمالیات سے جدا کرتا ہے، کیونکہ مغرب میں حسن کو ذاتی ذوق یا جسمانی لذت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حسن انسان کو کائنات کے اس الٰہی نظام سے روشناس کراتا ہے جو خالق نے مرتب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک فنون لطیفہ کی حیثیت صرف ذوق کی تکمیل نہیں بلکہ یہ "انسان کی داخلی کائنات کی تنظیم نو اور تہذیبِ نفس کا ذریعہ ہیں۔" اس طرح ان کی رائے میں جمال کی اصل معنویت روحانی ہے اور یہ معرفت کے در وا کرتا ہے۔ ۔ یہ تصور اسلامی جمالیات اور صوفیانہ افکار کے قریب تر ہے جہاں حسن کو قربِ الٰہی کا زینہ سمجھا جاتا ہے۔ سراج منیر نے اسی روایت کو اپنے تنقیدی بیانیے میں سمویا اور اردو ادب کو اس کے وسیع تر روحانی پس منظر سے جوڑنے کر کوشش کی ہے۔ سراج منیر کی فکر میں محمد حسن عسکری کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ خاص طور پر "تصورِ روایت" اور "تصورِ حقیقت" کے حوالے سے وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ "ہر تہذیب کی بنیاد اس کے تصورِ حقیقت پر ہوتی ہے۔" اگر مختلف تہذیبوں کے مظاہر بظاہر ایک جیسے ہوں لیکن ان کے پیچھے تصورِ حقیقت مختلف ہو تو وہ الگ الگ تہذیبیں تشکیل دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر مظاہر مختلف ہوں لیکن ان کے پس پشت تصورِ حقیقت ایک ہو تو وہ ایک ہی تہذیب کا حصہ سمجھے جائیں گے۔ اس فکری بنیاد نے ان کے تنقیدی نظام کو ایک گہرائی اور مابعد الطبیعیاتی وسعت عطا کی ہے۔ ان کی تنقیدی تحریروں میں محض نظریاتی گفتگو نہیں بلکہ عملی و فنی تجزیہ بھی شامل ہے۔ ان کی کتاب "کہانی کے رنگ" اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے اردو فکشن کو محض پلاٹ اور کردار کے تناظر میں نہیں دیکھا بلکہ اسے تہذیبی شعور کے آئینے میں پرکھا ہے۔ "یہ خواب ہے اور ہی کہیں کا" اس بات کی دلیل ہے کہ وہ معاصر رجحانات کو نہ صرف جمالیاتی بلکہ فکری پس منظر کے ساتھ سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ امتزاج انہیں محض "خیال ساز نقاد" نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت شخصیت بناتا ہے۔ سراج منیر کے تنقیدی نظام فکر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ادب کو صرف "زبان کا کھیل" یا "تفننِ طبع" نہیں سمجھتے بلکہ اسے انسانی شعور کی تشکیل نو اور کائناتی اصولوں کے انجذاب کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ادب اور فنون لطیفہ انسان کو سطحی لذت نہیں بلکہ گہری روحانی معنویت عطا کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی زندگی صرف انتالیس برس پر محیط رہی، مگر ان کی تحریریں آج بھی اردو تنقیدی نظام فکر میں ایک زندہ حوالہ ہیں۔ وہ اپنے عہد کے سیکولر اور لبرل رجحانات کے باوجود ادب کو اسلامی روایت اور ایمانیات سے جوڑنے والے منفرد نقاد تھے۔ ان کی فکر یہ واضح کرتی ہے کہ ادب محض فنی اظہار نہیں بلکہ ایک ایسا وسیلہ ہے جو انسان کو اپنے اصل مرکز، یعنی دینِ اسلام، سے جوڑ کر اس کی زندگی کو بامعنی بناتا ہے۔ سراج منیر اردو تنقید کے ان معدودے چند ناقدین میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ادب کو مذہب، تہذیب اور جمالیات کے ایک وحدت آمیز رشتے میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی تنقیدی وراثت آج بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ادب کو اس کے اصل روحانی اور تہذیبی پس منظر میں پرکھا جائے۔ ان کا تنقیدی نظام فکر یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ادب اپنے مرکز یعنی اسلام سے جڑا ہو تو وہ محض فن نہیں بلکہ ایک کُل کا حصہ بن کر انسانی وجود کو نئی معنویت عطا کرتا ہے۔ |
|