اسلامی کلچر روحانیت سے تمدن تک
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
اسلامی کلچر روحانیت سے تمدن تک
------------------------------------------------------------------- پاکستانی کلچر ایک دیرپا تاریخی سفر کے ثمر کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ جس کی بنیاد اسلامی عقائد پر رکھی گئی ہے۔ دانشوروں کے مطابق تہذیب کے عناصر اور اس کی ترکیبی ساخت کا دارومدار عقیدے پر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے عمل کی بنیاد نیت پر ہوتی ہے۔ انتظار حسین کے مطابق"مذہب اور تہذیب دو الگ چیزیں ہیں مگر دنیا کی کوئی بھی تہذیب ایسی نہیں جو مذہبی اعتقادات کے کسی نہ کسی سلسلے پر مبنی نہ ہو"۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ مذہب اور عقائد انسانی تہذیب اور معاشرت کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اور کسی بھی معاشرتی یا تمدنی عمل کو سمجھنے کے لیے مذہبی اور اخلاقی بنیادوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام اپنے عقیدے کی بنیاد پر مذاہب عالم سے ممتاز ہے۔ مسلمان اللہ کی وحدت، اس کے رسولوں اور نبیوں، فرشتوں اور اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور یوم حساب کے وجود کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہی عقیدہ اسلامی کلچر کی بنیاد ہے اور اسی نے اسلامی معاشرت اور تمدن کو ایک مستحکم شناخت دی ہے۔ اسلام کی ابتدائی شکل ایک دین کے طور پر وجود میں آئی، جو بعد میں ایک سلطنت کے قیام اور پھر صدیوں پر محیط تمدن کی تشکیل کا سبب بنی۔ اس تاریخی عمل میں تعلیمات اسلامیہ نے اس تمدن کو ایک خاص رنگ دیا، جسے آج ہم اسلامی کلچر کے نام سے جانتے ہیں۔ اسلامی کلچر کے ارتقا کو تین مراحل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے اسلام ایک دین کے طور پر نمودار ہوا، پھر اس نے سلطنت کے قیام کی راہ ہموار کی، اور اس کے بعد ایک مستحکم تمدن کی بنیاد رکھی جو صدیوں کے دوران ترقی کرتا رہا اور تعلیمات اسلامیہ کے تحت اپنی شناخت قائم کر سکا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’آج ہم نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘ اور ’’بلاشبہ دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘ یہ آیات واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب ایک ایسا رویہ ہے جو ذوق جمال، ذوق علم، ذوق جہاد اور ذوق عبادت کے مجموعے پر مبنی ہے۔ یہ صرف ظاہری رسوم و رواج تک محدود نہیں بلکہ انسانی اخلاق، روحانیت اور علمی ترقی کے ساتھ مربوط ہے۔ اسلام نے نہ صرف فرد بلکہ پوری انسانی معاشرت میں انقلاب برپا کیا اور اسے عالمی سطح پر ایک نئے معیار سے روشناس کرایا۔ اسلامی کلچر کی تاریخ کو پانچ بڑے مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مرحلہ متحدہ حکومت کا دور ہے جو ہجرت نبوی ﷺ سے ۸۳۳ء تک محیط ہے۔ دوسرا مرحلہ انتشار اور فتور کا دور ہے جو ۸۳۳ء سے ۱۲۵۸ء تک جاری رہا۔ تیسرا دور تیرہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک ہے، جس میں موجودہ سلطنتیں جیسے ترکی اور ایران تشکیل پاتی ہیں اور اقدار و کلچریائی شناخت حاصل کرتی ہیں۔ چوتھا دور زوال و انحطاط کا ہے جو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر ۱۹۱۸ء تک جاری رہا۔ پانچواں دور اسلامی نشاۃ الثانیہ کا ہے جو ۱۹۱۹ء سے تا حال جاری ہے۔ ان مراحل کے دوران مختلف نسلوں اور قوموں نے اسلامی کلچر کی حفاظت اور فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ہاشمی، اموی، عباسی، سلجوق، ترک، عثمانی، افغان اور مغل خاندانوں نے اسلامی کلچر کی مشعل کو روشن رکھا اور اسے عالمی سطح پر فروغ دیا۔ اسلامی کلچر کے عناصر اور اجزاء ترکیبی کے بارے میں علماء کے نظریات متنوع ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی فتاوی کے مطابق" اسلامی تہذیب انسانی جماعت کی سرگرمیوں کا مجموعہ ہے جو اللہ کی خلافت کے قیام کے لیے کام کرتی ہیں"۔ سید فیضی کے مطابق "اسلامی تہذیب میں تین بنیادی چیزیں شامل ہیں: بلند فکری معیار، اسلامی حکومت کے دور میں حاصل شدہ کامیابیاں، اور مسلمانوں کا مخصوص طرز زندگی اور معاشرتی رسوم"۔ زبیر صدیقی کے مطابق" اسلامی کلچر ایک مخصوص ذہنی مسلک کی نمائندگی کرتا ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے مرتب ہوتا ہے، جیسے وحدت ربّانی اور عظمت انسانی"۔ پروفیسر محمد ارشد خان بھٹی کے مطابق "اسلامی تہذیب ان عقائد پر ایمان لانے والے شخص کی زندگی اور معاشرتی نظام کو ظاہر کرتی ہے، جس میں عبادات، معاشرتی رواج اور اسلامی قوانین کی پابندی شامل ہے"۔ مولانا مودودی کے مطابق "اسلام ایک مخصوص طرز فکر اور زندگی کا نقطہ نظر ہے، جس سے تہذیب اسلامی جنم لیتی ہے اور اسی طرز فکر و طرز عمل سے اسلامی تمدن کا قیام ممکن ہوتا ہے"۔ اسلامی کلچر کی نشوونما اور ارتقا نے انسانی معاشرت اور تمدن میں ایک واضح پہچان فراہم کی۔ اسلام کائنات کو جامد اور ساکن نہیں سمجھتا بلکہ اسے حرکی تصور کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ نظام فرد کی قدرو قیمت کو تسلیم کرتا ہے اور انسانی اتحاد کو صرف خونی رشتوں یا نسل کے معیار سے محدود نہیں کرتا بلکہ وحدت انسانی کی بنیاد روحانیت اور اخلاق پر رکھتا ہے۔ یہ روحانیت انسان کو اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ اسی کی مخلوق ہے اور اسی کے احکام کے تابع ہے۔ روحانیت اور اخلاق کے اس امتزاج سے ہی انسانی تمدن ترقی کرتا ہے اور ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ جہاں اسلامی کلچر کی نشوونما ہوئی، وہاں عربی سامی النسل کی اجتماعی اقدار اور ثقافت نے اسے جڑیں دی۔ یہاں حضور ﷺ کی تعلیمات اور توحید، مساوات اور اخلاقی اصولوں نے اسلامی کلچر کو نئی آب و تاب بخشی۔ اس نے صدیوں کے جمود کو توڑا اور انسانی تہذیب کے پہیے کو آگے بڑھایا۔ اسلامی کلچر کی بہتر تفہیم کے لیے اس کی تاریخی تفصیل اور ارتقائی مراحل کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسلامی کلچر میں تعلیم، عبادت، علم، جمالیات اور معاشرتی رواج ایک ساتھ شامل ہیں۔ یہ کلچر فرد کو نہ صرف علمی اور اخلاقی ترقی دیتا ہے بلکہ اس کے معاشرتی کردار کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ اسلامی تمدن کی کامیابیاں ادب، فنون، سائنس اور فلسفہ میں واضح طور پر نظر آتی ہیں، اور یہ تمام شعبے اسلامی تعلیمات کے اثرات کے تحت فروغ پاتے رہے۔ اسلامی کلچر کا عالمی اثر مشرق اور مغرب دونوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے، جہاں اسلامی اقدار اور تمدنی اصولوں نے انسانی معاشرت اور تہذیب پر نمایاں اثر ڈالا۔ دور جدید میں بھی اسلامی کلچر کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ پاکستانی کلچر میں اسلامی اثرات واضح ہیں، خواہ وہ تعلیم، رسوم، عبادات یا معاشرتی رویے ہوں۔ اسلامی کلچر نہ صرف فرد کی روحانی اور اخلاقی ترقی کا ضامن ہے بلکہ معاشرتی اتحاد، علمی ترقی اور تمدنی شناخت کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ آج کے عالمی دور میں جہاں مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں ایک دوسرے سے متاثرہو رہی ہیں، اسلامی کلچر کی پہچان اور اس کے اصولوں پر عمل کرنا انسانی معاشرت کے لیے لازمی ہے۔ اس طرح، اسلامی کلچر ایک جامع اور مکمل نظام حیات ہے جو انسان کو روحانیت، اخلاق، علم اور معاشرتی ذمہ داری کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ یہ نہ صرف فرد بلکہ پوری انسانی اجتماعی زندگی کے معیار کو تشکیل دیتا ہے اور اسے ایک اعلیٰ تمدنی شناخت عطا کرتا ہے۔ اسلامی کلچر کی یہ تعریف اور ارتقا یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ محض ایک مذہبی یا معاشرتی نظام نہیں بلکہ ایک جامع اور ہمہ گیر تمدنی شناخت ہے جو انسان کی ہر جہت سے وابستہ ہے اور اسے ایک متوازن، جامع اور عالمی سطح کی تہذیب کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ |
|