اپنی جنت کو جہنم نہ بنائیں
(Yousuf Ali nashad gilgit, Gilgit ponial road)
اسلام علیکم ۔اللہ آپ کو خوش رکھے آمین میں نے کئی آرٹیکلز آپ کو میل کیا مگر کچھ پتہ نہیں چلا کیا ایک میل تبدیل ہوا ہے [email protected] اس پر کئ سال قبل بھی سینڈ کرتا تھا آرٹیکل بھی لگتا تھا مگر اب کوئ جواب نہیں آرہا ہے۔yousuf Ali nashad gilgit |
|
جنت کو جہنم مت بنائیں (صدائے حق) تحریر: یوسف علی ناشاد
اللہ رب العالمین نے اپنی قدرت سے اس کائنات کو نہایت حسین و جمیل بنایا ہے۔ اس نے زمین کو انسانوں کے لیے مسکن قرار دیا اور بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ان نعمتوں کی تقسیم میں نہ قوم و نسل کی قید ہے اور نہ ہی مذہب کی تفریق۔ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، عیسائی ہوں یا یہودی، سب کے لیے پانی، زمین، پہاڑ، دریا اور فضائیں یکساں ہیں۔ کہیں پہاڑوں پر برف کا راج ہے تو کہیں صحراؤں کی تپش، کہیں دن طویل ہیں تو کہیں راتیں دراز، کہیں بارشوں کا تسلسل ہے تو کہیں قحط کی کیفیت۔ یہ سب کچھ اللہ کی حکمت کا حصہ ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کس خطے کو کون سی نعمت عطا کرنی ہے۔
انسان کو اللہ نے عقل و شعور عطا کیا تاکہ وہ ان نعمتوں کو بروئے کار لا کر اپنی زندگی کو سنوارے۔ دنیا کے کئی خطوں نے محنت، جدوجہد اور اجتماعی شعور کے ذریعے اپنی زمین کو جنت نظیر بنا دیا۔ بنجر بیابانوں کو شجرکاری سے سرسبز کیا گیا، پہاڑوں کو کاٹ کر شاہراہیں اور شہر بسائے گئے، سمندروں کے کنارے عظیم الشان بستیاں آباد ہوئیں اور صدیوں کی محنت کے بعد آج وہ خطے ترقی و خوشحالی کی مثال بن گئے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ، وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ" (النجم: 39-40) ترجمہ: "اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں مگر وہی جس کی اس نے کوشش کی اور اس کی کوشش ضرور دیکھی جائے گی۔"
یہ اصول واضح ہے کہ ترقی محنت اور سعی کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن محنت کے ساتھ ساتھ امن، انصاف اور باہمی احترام بھی ضروری ہیں۔ جہاں عداوت، فرقہ واریت اور ناانصافی ہو وہاں وسائل ہونے کے باوجود غربت اور پسماندگی مقدر بنتی ہے۔
اگر ہم اپنی دھرتی گلگت بلتستان پر نظر ڈالیں تو دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پسماندگی کا شکار ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، عظیم گلیشیئرز، شفاف ندیاں، وسیع جنگلات، قیمتی معدنیات، چاروں موسموں کی دلکشی اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود یہاں کے باسی غربت و محرومی میں جی رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی جنت کو سنوارنے کے بجائے اپنی غفلت اور نااہلی سے اس کا حسن بگاڑ دیا ہے۔
یہاں کے صاف پانی آلودگی کا شکار ہیں۔ بے تحاشہ آبی ذخائر کے باوجود بجلی ناپید ہے۔ گاؤں گاؤں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، نالے اور چشمے کوڑا کرکٹ سے اٹے پڑے ہیں۔ زمینوں کے مقدمات دہائیوں سے عدالتوں میں لٹکے ہیں۔ چراگاہوں پر قبضے، قبائلی دشمنیاں اور فرقہ واریت کے جراثیم نے معاشرتی سکون غارت کر دیا ہے۔ بھائی بھائی کا دشمن بن بیٹھا ہے، معمولی باتوں پر انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پہاڑ جنگلات سے ڈھکے ہوئے تھے، فضاؤں میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور ندیوں کے ترانے گونجتے تھے۔ مگر آج بے دریغ کٹائی نے پہاڑوں کو اجاڑ دیا ہے۔ جنگلات کی کمی سے ماحولیاتی توازن بگڑ گیا ہے۔ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، بارشوں کا نظام متاثر ہوا ہے، سیلابی خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہماری زمین کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔
یہ سب کچھ ہماری اپنی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ہی نے اپنی جنت کو جہنم بنایا ہے۔ اگر ہم بھائی چارے، محبت اور تعاون کو فروغ دیتے، اپنے وسائل کی حفاظت کرتے اور اجتماعی ترقی کو مقصد بناتے تو آج گلگت بلتستان دنیا کے ترقی یافتہ خطوں کی صف میں شامل ہوتا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِنَّ اللّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ" (الرعد: 11) ترجمہ: "یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔"
یہ آیت ہمارے لیے آئینہ ہے۔ جب تک ہم اپنی روش نہیں بدلیں گے، خود کو درست نہیں کریں گے، اپنی غفلتوں پر قابو نہیں پائیں گے، اس وقت تک ہماری تقدیر نہیں بدل سکتی۔ یہ خطہ خوشحالی اور آسودگی کا گہوارہ بن سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا ادراک کریں اور اجتماعی شعور کے ساتھ آگے بڑھیں
اختتامی اپیل:
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کو بدلیں، اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں اور اجتماعی طور پر آگے بڑھیں۔ یہ جنت نظیر وادی ہمارے اجداد کی امانت اور ہماری نسلوں کا مستقبل ہے۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو کل پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
یاد رکھیں، گلگت بلتستان کو بچانا ہمارا فرض ہے۔ آئیں! نفرت کو چھوڑیں، محبت کو اپنائیں۔ آئیں! اپنی جنت کو جہنم نہ بنائیں بلکہ اسے دوبارہ جنت بنائیں۔ |
|