ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

پاک سعودیہ حالیہ دفاعی معائدے پر بین الاقوامی تناظر میں تجزیاتی مضمون
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
طارق محمود مرزا۔ آسٹریلیا
[email protected]
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کی گُونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے موجودہ حالات وواقعات کے تناظر میں یہ معاہدہ نہایت اہم حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ خصوصاًغزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور دیگر عرب ملکوں پر یکے بعد دیگرے جارحانہ حملوں کے بعد معدنیات کی دولت سے مالا مال سعودی عرب اور ایٹمی طاقت پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ دنیا کو چونکا دینے والا ہے۔ وہ ممالک جو مسلمانوں کو متحد نہیں دیکھنا چاہتے ان کے یہ لمحہ فکریہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس معاہدے سے سب سے زیادہ دھچکا اسرائیل اور بھارت کو لگا ہےکیونکہ سعودی عرب کو ایران اور اسرائیل سے خطرہ ہے ۔ پاکستان ایران کے مقابل آنے سے تو گریز کرے گا لیکن اسرائیل کے خلاف پاکستانیوں میں پہلے ہی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے خلاف شروع دن سے پڑوسی ملک بھارت دانت تیز کیے بیٹھا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل دونوں ایٹمی ملکوں میں جھڑپ ہو چکی ہے ۔ سعودی عرب نے واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے معاشی اور دیگر تعلقات استوار رکھے گا لیکن بھارت کسی بھی ایسے معاہدے کو پسند نہیں کرے گا جو پاکستان کا دفاع کرتا ہو ۔گویا ایران کےمعاملے میں پاکستان او ربھارت کے معاملے میں سعودیہ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
حالانکہ پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ برادرانہ گہرے مراسم ہیں اور دفاع سمیت دیگر بہت سے شعبوں میں دونوں ملکوں کا تعاون پہلے سے موجود ہے ۔ لیکن یہ معاہدہ اس لیے منفرد ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک ملک پر حملہ، دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا اور دونوں مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب قطر پر اسرائیل نے فضائی حملے کیے اور امریکہ جو قطر کی حفاظت کا ضامن تھا اس نے اسرائیل کی جارحیت روکنے میں یا اس کے بعد بھی کوئی واضح کردار ادا نہیں کیا۔ یہی ضمانت سعودیہ اور دیگر عرب ممالک کو بھی دی گئی ہے۔ لہذا عرب ممالک جو روایتی طور پر امریکہ کے اتحادی اور دفاعی طور پر اس پر انحصار کرتے ہیں اس صورت حال میں بجا طور پر سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ امریکہ کی ضمانت پر اب کتنا یقین کیا جا سکتا ہے یا اس کا کوئی متبادل ڈھونڈنا چاہیے۔ باقی عرب ممالک کا ردعمل سامنے آنا باقی ہے لیکن سعودی عرب کو پاکستان کی شکل میں یہ متبادل اس لیے بھی نظر آیا کہ دونوں ملکوں کے مفادات،مذہبی نظریات اور عوامی جذبات مشترک ہیں۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین واقع ہیں جن کی حفاظت ہر مسلمان دل و جان سے کرنا چاہے گا اس لیے پاکستانی حکومت اور فوج کو ضمانت دینے یا معاہدہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی کیونکہ یہ ان کے ایمان اور ملی غیرت کا تقاضا بھی ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھی سعودی اور دیگر مسلمان ملکوں کے عوام کے جذبات برادرانہ ہیں اور انھیں علم ہے کے مشکل وقت میں پاکستان ہی ان کے کام آ سکتا ہے اور ماضی میں ایسا ہو بھی چکا ہے۔ 1973 کی اسرائیل اور مصر جنگ میں پاکستانی ایئر فورس کا کردار لوگوں کو بھولا نہیں ہوگا۔اس معاہدے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چند ماہ قبل پاک بھارت کے درمیان محدود جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے بہترین پیشہ ورانہ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کا دفاع کرنا جانتے ہیں بلکہ ان پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ اس جھڑپ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کا مورال اور اس کا وقار عالمی سطح پر بلند ہوا ہے ۔اسے سعودی عرب اور دیگر ملکوں نے بھی دیکھا اور پاکستانی فوج پر بھروسا کرنے میں بہتری جانی۔ گویاپاکستان پر بھارت اور قطر پر اسرائیل کے حملے اور اس کے عواقب نے خطے کی صورت حال بدل دی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم اور آرمی چیف سعودیہ کے دورے پر گئے تو ابتدا میں ا سے عام دورہ سمجھا گیا لیکن ان کا والہانہ استقبال دیکھ کر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔بتایا جاتا ہے کہ ریاض کی عالی شان عمارتوں اورچوراہوں پر سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا ۔ ذرائع ابلاغ نے دونوں ملکوں کی قیادت کو والہانہ انداز میں ملتے دکھایا تو لگا کہ کچھ مختلف ہوا ہے جو کہ مبنی بر حقیقت تھا۔ دو برادرانہ ملکوں کے درمیان اتفاق سے اُمید بندھی ہے کہ اُمّت ِ مسلمہ کا اتحاد و اتفاق مزیدبڑھے گا۔ مظلوم فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھانے والا بھی کوئی ہوگا۔ امید ہے کہ اُمّت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ پاکستان ا دا کرے گا ۔ سعودی عرب اور دیگر اتحادیوں کا امریکہ پر بھروسا کم ہو گیا ہے اور انھیں اتحادبین المسلمین کے لیے سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی طرح بھارت کو سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان ترنوالہ نہیں ہے جسے وہ جب چاہے ہڑپ کر سکتا ہے۔ ایک مسلم ملک سے کمائے اور دوسرے کو آنکھیں دکھائے، اب ایسانہیں ہو گا۔کئی سالوں سے بھارت نے پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالاہوا تھا لیکن بھارت کے حالیہ حملے نے یہ دباؤ ختم کر دیا ہے اور اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ پاکستانی عوام کا اپنی فوج پر یقین اور اعتماد بڑھا ہے۔ مسلم اُمّہ کو بھی سمجھ آ رہا ہے کہ بالاخر مسلمان ہی مسلمان کی مدد کر سکتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر خود ظلم کرے اور نہ کسی کو ظلم کرنے دے "شاعر مشرق نے اس موضوع پر فرمایا تھا ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
گزشتہ کئی صدیوں سے مسلمانوں کو تقسیم کر کے ناتواں و نحیف کیا گیا اور انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے نہیں دیا گیا ۔جبکہ اتحاد بین المسلمین ہی اس مسئلے کا حال تھا لیکن جب ایسی کوشش کی گئی اسے سبو تاژ کیا گیا۔ کافی عرصے بعد مسلمان ملکوں کے درمیان اس طرح کا معاہدہ سامنے آیا ہے۔ نہ صرف اس پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے بلکہ مزید مسلم ملکوں کو اس میں شامل ہونا چاہیے تاکہ دشمن ان پر میلی آنکھ نہ ڈال سکے ۔مخالفین میں جو کھلبلی مچی ہے وہ بھی غلط ہے کیونکہ یہ دفاعی معاہدہ ہے جو ہر ملک کا حق ہے۔کسی پر جاریت کے ارادے سے نہیں کیا گیا ۔ لیکن جارح کو روکنے اورسوچنے پر ضرور مجبور کرے گا۔جیسے اسرائیل آئے دن کسی نہ کسی مسلم ملک پر چڑھائی کرتا رہتا ہے اور اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کے پڑوسی ملکوں کو دانستہ کمزور اور بے بس رکھا گیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر قدیر خان جیسے ہیرو کی کاوش کی بدولت اور ہماری بہادر افواج نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان اسرائیل کے بڑھتے قدموں کو روک سکتا ہے ۔سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت نے بروقت یہ قدم اُٹھا کر اُمّت مسلمہ کو اتحاد کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالی اس اتحاد کو قائم و دائم رکھے ۔
 
Tariq Mirza
About the Author: Tariq Mirza Read More Articles by Tariq Mirza: 43 Articles with 49405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.