كِرَامًا كَاتِبِیْنَ

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

کِرامن کاتِبِین

( محمد یوسف میاں برکاتی )

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ تو ایک کہاوت ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن اس کی جگہ ہم یہ جملہ کہنا شروع کردیں کہ دیواروں کے کان ہوتے ہیں یا نہیں لیکن فرشتوں کے ہاتھ میں قلم ضرور ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ ق کی آیت 17 اور 18 میں فرمایا کہ
اِذۡ یَتَلَقَّی الۡمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیۡدٌ ﴿17﴾
ترجمعہ:
جب دو لینے والے (فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو تحریر میں) لے لیتے ہیں (جو) دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔

مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ (18)
ترجمعہ:
وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے

اگر آدمی کو یقین ہو جائے کہ اس کی زبان سے نکلی ہوئی ہر چھوٹی بڑی بات لکھی جارہی ہے تو زبان سے نکلے ہوئے ہرہر کلمہ کی اہمیت کو محسوس کرے گا اور بولنے سے پہلے ضرور سوچے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم یہ کہاوت یا تو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی راز کی بات کسی کے ساتھ کی جارہی ہو اور بڑی احتیاط اور خاموشی کے ساتھ کسی سے کرتے ہوئے کہ بھئی آہستہ بولو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں یا پھر کسی کے خلاف کوئی اختلافی بات کرتے ہوئے کرتے ہیں اور بڑی احتیاط کے ساتھ کہ کہیں وہ سن نہ لے ورنہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ اس طرح رازداری کے ساتھ بات کرنے کا دنیاوی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی آخرت کا کوئی فائدہ ہو تو ایسی بات ہمیں کیوں کرنی ہے ؟ لیکن ہاں اگر کسی معاملے کے خراب ہونے بگڑنے یا انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہو تو یہ بات صحیح ہے کہ ایسے معاملے کو مذکورہ لوگوں کے ساتھ خاموشی اور رازداری کے ساتھ کرلی جائے اور ہمیں تاریخ اسلام میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جب کسی بات کے پھیلنے کی وجہ سے حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا تو اس بات کو یا تو وہیں ختم کردیا جاتا یا پھر اسے رازداری کے ساتھ دوسرے تک پہنچایا جاتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پہلے زمانے کی بات ہو یا پھر آخرت کی بہتری کے لیئے یہاں تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن دنیاوی اعتبار سے ایسے معاملات میں حسد غرور تکبر اور چغلی جیسے گناہوں کے ارتکاب کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے لہذہ ہمیں اس کہاوت پر عمل کرنے کی بجائے اس بات پر غور و فکر کرنا چاہئے کہ دیواروں کے کان ہوں نہ ہوں لیکن فرشتوں کے پاس قلم ضرور ہوتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف فرشتوں کی مختلف جگہوں پر مختلف ڈیوٹیاں لگارکھی ہیں جو صرف اور صرف ہماری رہنمائی اور ہماری بہتری کے لیئے ہے انہی فرشتوں میں دو فرشتے ایسے بھی ہیں جنہیں " کِرامن کاتِبِین" کہا جاتا ہے جن میں ایک فرشتہ ہمارے دائیں کاندھے پر اور دوسرا ہمارے بائیں کاندھے پر موجود ہوتا ہے ان فرشتوں کے بارے میں باری تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ الانفطار کی آیت نمبر 10 ، 11 اور 12 میں ارشاد فرمایا کہ

وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ(10)كِرَامًا كَاتِبِیْنَ(11)یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ(12)

ترجمعہ کنزالایمان:
اور بے شک تم پر کچھ نگہبان ہیں مُعَزّز لکھنے والے کہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرو۔

ان ہی فرشتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورہ ق کی وہ آیتیں نازل فرمائی جن کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے اب جب ہم یہ آیتیں پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہمیں اپنی زندگی کے معمولات میں کہاں کہاں اور کیا کیا احتیاطیں کرنا چاہئے جیسے ہمیں کبھی بھی کسی ایسی بری جگہ پر جانے سے گریز کرنا چاہئے جہاں جاتے ہوئے فرشتوں کو اچھا نہ لگے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اسی طرح کوئی بھی غلط کام کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ فرشتے سب کچھ لکھ رہے ہیں بالکل اسی طرح گناہ کا ارتکاب کرتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر تو ہر وقت ہر جگہ اور ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے ہی جبکہ یہ دائیں بائیں والے فرشتے ہمارے ہر عمل کے گواہ ہیں اور وہ ہمارا ہر عمل اپنے پاس لکھ کر محفوظ کرتے ہیں کہ یہ ان کی ڈیوٹی ہے صحیح البخاری کی ایک حدیث میں ہے جس کے راوی ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ
" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے یہاں رات میں رہے۔ اللہ کے حضور میں جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے .... حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے .... کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ اور اسی طرح جب ہم ان کے یہاں گئے تھے، جب بھی وہ (عصر) کی نماز پڑھ رہے تھے".
( صحیح البخاری 3223 )
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث میں ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ ان فرشتوں کی ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں اور یہ زمہ داریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں جبکہ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ فرشتے جب اللہ تعالٰی کے حضور حاضر ہوتے ہیں تو تو فجر کے وقت نماز کے دوران جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو دوران نماز عصر وہ واپس آتے ہیں یعنی ہمیں نماز کی پابندی کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کے پوچھنے پر جس طرح حدیث کے مطابق فرشتوں نے جواب دیا ہم بھی اس پر پورا اتریں اور اس حدیث میں فرشتوں کا جواب بھی نمازیوں کے لیئے ہے اور جو نماز کی پابندی نہیں کرتا وہ سوچ لے کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا کیونکہ ہمارا ہر عمل ہمارے دائیں بائیں والے فرشتے لکھتے رہتے ہیں جنہیں ہم "کِرامن کاتِبِین" کہتے ہیں اصل میں ہمارے یہاں فرشتوں میں حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہم السلام زیادہ مشہور ہیں باقی ان کی تعداد اتنی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ سب اللہ کے بندے ہیں، اللہ کے فرمانبردار ہیں اس کی اجازت کے بغیر وہ دم بھی نہیں مارسکتے نہ وہ کسی نفع نقصان کے مالک ہیں ان کا کام اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرنا اور اس کی عبادت کرنا ہے اور وہ ہر وقت ہر لمحہ ہر گھڑی اپنے انہی کاموں میں مصروف و مشغول رہتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان فرشتوں کی جنہیں کِرامن کاتِبِین کہتے ہیں اہم ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمارے ہر عمل کے گواہ ہیں دائیں طرف والا فرشتہ ہمارے اچھے اور نیک اعمال لکھتا ہے جبکہ بائیں طرف والا فرشتہ ہمارے برے اور گناہوں بھرے اعمال لکھتا ہے ان فرشتوں کی صرف یہ ہی زمہ داری نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمارے سارے اعمال کو لکھ کر اس کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں جو بروز محشر اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں کھڑا کر کے پیش کیئے جائیں گے اور وہ ہمارے ہر عمل کے گواہ کے طور پر وہاں موجود ہوں گے اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورہ الانفطار کی آیت دس گیارہ اور بارہ میں فرمایا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ
اور بے شک تم پر کچھ نگہبان ہیں مُعَزّز لکھنے والے کہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرو۔
یہ انہیں فرشتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لوگوں کے ذہن میں اکثر یہ سوال آتا ہے کہ آخر یہ فرشتے جنہیں ہم کِرامن کاتِبِین کہتے ہیں وہ ایک مسلمان کے فوت ہوجانے کے بعد کہاں جاتے ہیں تو ہمارے علماء اور فقہاء لکھتے ہیں کہ شعب الایمان میں ایک حدیث ہے جس کے مطابق ترجمعہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر دو فرشتے مقرر کیئے ہوئے ہیں جو اس اعمال خیر اور اعمال شر یعنی گناہ اور نیکیوں کو لکھنے پر معمور ہیں لیکن جب وہ شخص انتقال کر جاتا ہے یعنی مرجاتا ہے تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے رب العزت یہ شخص وفات پا چکا ہے اب ہمیں آسمان کی طرف رجوع کرنے کی اجازت مرحمت فرما تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہیں میرا آسمان میرے فرشتوں سے پر ہے یعنی بھرا ہوا ہے اور وہ میری تسبیح بیان کرتے ہیں تو فرشتے عرض کریں گے کہ کیا تو ہم زمین پر ہی ٹھرے رہیں تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہیں زمین بھی میری مخلوق سے بھری ہوئی ہے جو میری تسبیح بیان کرتے ہیں تو وہ فرشتے عرض کریں گے کہ پھر ہمارے لیئے کیا حکم ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم اسی شخص کی قبر پر رکے رہو جس کی پوری زندگی کے ساتھ تم رہے اس کی قبر پر میرا ذکر میری تسبیح میری کبریائی میری تعریف اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہو تمہیں کیوں کہ ثواب کی حاجت نہیں لہذہ یہ سارا ثواب میرے بندے کے لیئے لکھتے رہو جب تک قیامت نہیں آجاتی "
(شعب الایمان، الصبر علی المصائب، جلد 12، صفحہ 324، مطبوعہ بیروت)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیا یہ بات یہاں ثابت نہیں ہو جاتی کہ ہمارا رب کتنا کریم ہے کتنا غفور الرحیم ہے کتنا مہربان ہے اور کتنا پیار کرنے والا ہے اور یہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ رب العالمین ہمیں 70 مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے یعنی زندگی گزارتے وقت بھی ہمارے ہر ہر قدم پر اس کی رہنمائی موجود ہے اور مرنے کے بعد بھی وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اپنے فرشتوں کی ڈیوٹیاں لگادیتا ہے یہ وہی فرشتے ہیں جنہیں ہم کِرامن کاتبین کہتے ہیں اور جو ہماری قبر پر ہر وقت موجود رہتے ہیں اور قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور ان اذکار کا اجر وہ ہمارے نامہ اعمال میں لکھتے رہتے ہیں سبحان اللہ جناب ہم اکثر یہ کہتے رہتے ہیں کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے اللہ تعالیٰ تو دیکھتا ہے لیکن یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ وہ فرشتے جو ہمارے دائیں بائیں ہر وقت موجود ہیں ہمارے ہر اچھے برے عمل کو نہ صرف لکھ رہے ہیں بلکہ بروز محشر ہمارے اعمال کے گواہ بھی ہوں گے وہ بھی ہمیں ہر وقت ہر لمحہ دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں ہیں اور ایسے فرشتوں کو ہی اصل میں " کرامن کاتبین " کہا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فرشتوں کی مکمل تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی اور ہم یہ ہی سمجھتے ہیں کہ یہ بات رب العالمین کے علاوہ کوئی نہیں جانتا لیکن جن فرشتوں کے بارے میں ہم بخوبی جانتے ہیں اور جاننا بھی چاہئے ان میں ہمارے دائیں بائیں موجود یہ دو فرشتے جنہیں ہم " کرامن کاتبین " کہتے ہیں وہ فرشتے جنہیں " منکر نکیر " کہا جاتا ہے اور وہ مرنے کے بعد ہماری قبر میں سوال و جواب کے لیئے آئیں گے وہ فرشتے جنہیں ہم حضرت عزرائیل علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں اور جنہیں ملک الموت بھی کہا جاتا ہے ان تمام فرشتوں کے بارے میں جاننا ہمارے لیئے بہت ضروری ہے کیونکہ ان فرشتوں سے ہماری ملاقات ہونی ہے جبکہ تمام فرشتوں کے سردار اور عظیم الملائیکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں بھی ہماری معلومات ہونی چاہیئے کہ حضور ﷺ کی سب سے زیادہ رفاقت ان سے رہی اور حضور ﷺ پر وحی کے نزول کی زمہ داری انہی کے پاس تھی جبکہ حضور ﷺ کے سینہ مبارک میں قرآن مجید مکمل طور پر اتارنے والے بھی یہ ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کے حبیب کریم حضور ﷺ کے فرمودات کے مطابق گزارنی چاہئے اور کوئی بھی لمحہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ میں نہ گزرے ہمیں شیطان کی مردود وارداتوں سے بچنا ہوگا کہ ہمارے ہر عمل کے لیئے ہمارے ساتھ ہمارے نگہبان یعنی " کرامن کاتبین" موجود ہیں آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی قرآن و حدیث کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے جب بروز محشر یہ ہی فرشتے اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے نامہ اعمال ہمیں عطا کریں تو وہ سیدھے ہاتھ میں عطا کریں اور اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں جانے کی خوش خبری عطا کرے انشاء اللہ مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہمیں پڑھنے اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یاد دکھیں۔ 
محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 195 Articles with 178772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.