سفر حج چیپٹر ١٧

منیٰ واپسی کا دن

سورج کی پیلی روشنی مکمل پھیل چکی تھی۔اب آسمان سےآگ برس رہی تھی۔
زمین کی سختی اور گرمی پیروں میں گھس رہی تھی۔ آس پاس کا ماحول بھی سنجیدہ تھا۔
کیونکہ سب تھک چکے تھے۔


ہم لوگ مزدلفہ سے منیٰ واپس اپنے خیمے میں جانے کے لئے نکل پڑے تھے۔راستہ طویل تھا۔
ایک لمبی سڑک پر چلتے جانا تھا۔بیرئیرز لگا لگا کر دائیں بائیں نکلنے کا راستہ بند تھا۔
آپ بس سیدھا سیدھا خط مستقیم پر جا سکتے تھے۔
ہر دو قدم کے فاصلے پر ایک پولیس والا گھور رہا تھا۔
آگے پیچھے اجنبی زبان و بیان کے لوگ گزرتے نظر آرہے تھے۔
جن کی شناخت مشکل تھی جو نہ جانے کہاں کہاں سے آئے تھے۔
کیونکہ سب حالت احرام میں تھے۔

اقبال کے بقول
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے


اطراف میں فٹ پاتھ تھے۔جن پرسانس لینے کے لئے بیٹھنا سوچنا بھی ممنوع تھا کیونکہ
شرطا آپکو جھکنے بھی نہیں دے گا بیٹھنا تو دور کی بات تھی۔

ہر دس قدم کے فاصلے پر سکاوٹس یخ پانی کی بوتلیں دے رہے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ
پانی پیتے جاو پھر بھی پیاس لگی ہی لگی تھی کیونکہ سورج اور درجہ حرارت آپکو
پیاسا ہی رہنے دیتے تھے۔
سب گھر والے آگے پیچھے چلتے ایک دوسرے پر نظر رکھ رہے تھے۔کیونکہ
رش بہت تھا۔ فورس والے بار باررفتار تیز کروانے کے لئے یلا حاجی کی آوازیں لگا رہے تھے۔

مگر ڈھیلی رفتار سے چلتے جاو کام چل جائے گا کبھی نہ کبھی پہنچ جاو گے۔
سو ایک وقت آیا کہ اپنے عارضی گھر پہنچ گئے تھے۔یعنی کہ منیٰ کے خیمے میں واپس پہنچ گئے تھے۔

جب خیمے میں آئے تو ہر صوفہ کم بیڈ پر ایک بیگ تھا۔یہ بیگ میزبان کمپنی کی طرف سے
گفٹ تھا۔
جب کھول کر دیکھا تو اندر چھتری ، پانی کی بوتل تھی اور مزید چھوٹا سا پاوچ نکلا اس پاوچ میں
ماسک، سینیٹائزر، سلیپنگ بلائنڈز،ہاتھ دھونے کے لئے صابن،ٹشو پیپرز، ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ
تھیں۔

اس وقت تک اتنا تھاوٹ تھی۔ سب کچھ ایک طرف کر ، کھانے کے لئے انتظامیہ سے حلوہ لےکر میں سو گئی
تھی۔ جب دوپہر میں آنکھ کھلی تو ہم نے رمی کے لے جانا تھا ۔

سو کھانا کھا کر رمی کے لئے نکل پڑے تھے۔
راستہ لمبا تھا اور طے بھی پیدل ہی کرنا تھا۔سو چل دئے تھے۔ آپ کو راستے میں ٹھنڈے پانی
کی بوتلیں، جوسز اور کھجوریں ملتی تھیں۔ جو کہ بہت مزے کی لگتی تھیں۔
کیونکہ ساری تھکاوٹ کے باوجود ایک خشگوار احساس کہ ہم
اللہ کے گھر کے پاس میں اسکے بتائے احکامات پورے کررہے تھے

یہ خوشی ہی اور تھی۔

سو سڑک پر لوگ جا رہے تھے وہی منظر سڑک پر فورسز اور لوگوں کا شوق کیونکہ اب شیطان کو پتھر
مارنے تھے تو سبھی بہت پر جوش تھے۔
ہر انسان پہلے پہنچ کر آگے کھڑے ہو کر ذیادہ زور سے مارنا چاہ رہا تھا۔

سو جب اس ستون تک پہنچے جو کہ نشانی ہے کہ یہاں شیطان دھنسایا گیا تھا۔اسی جگہ کو ہی
شیطان کہا جاتا ہے۔ کنکریوں والی بوتل سے کنکریاں نکال کر
ایک ایک مارنی شروع کیں۔تو دل تو اپنا بھی کیا کہ تاک تاک کر ماروں۔
مگر تربیت میں اسی لئے یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ زیادہ جوش میں نہیں آنا اور خود
پر قابو رکھنا ہے۔
سو آس پاس ہوا والےکولرز اور پنکھوں کے چلنے کا شور تھا۔ کنکر مارے جانے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔
شیطان کو مارے جانے والا کنکر چنے کے دانے سے بڑا اور کھجور کی گٹھلی سے چھوٹا
ہونا چاہئے۔ مگر ایک ساتھ اتنے لوگ تاک تاک مارتے ہیں کہ اس لئے آواز زور دار پیدا ہوتی تھی۔

رمی کے بعد آگے جانا تھا طویل راستہ ابھی بھی منتظرتھا مگر پتہ ہے یہ طوالت بھی کم کیوں محسوس
ہورہی تھی کیونکہ آگے اب منیٰ پہنچ کر آپ حاجی کے ٹائٹل تک پہنچنے کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا۔
سو تھکاوٹ جمع خوشی کے ساتھ چل دیئے تھے۔
ون ٹو تھری چلتے جاو چلتے جاو
یوں خیمے میں پہنچے کے دوران راستے میں ملنے والی کھجوریں اور کینڈیز کھاتے ہوئے پہنچ گئے تھے۔
قربانی کا پیغام آںے کا انتظار بھی نہ کیا گیا تھا اور سو گئی تھی۔
مگر

یہ خیال آیا کہ گھر سے اتنے دن سے دور ہیں

پر یاد نہ آئی اس گھر کی

کیونکہ

اسکی محبت و عبادت میں مشغول ہیں
سو خوشی سے دل ہمارے معمور ہیں















sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 249 Articles with 328829 views A writer who likes to share routine life experiences and observations which may be interesting for few and boring for some but sprinkled with humor .. View More