سفر حج چیپٹر ١٦

مزدلفہ روانگی

اب مزدلفہ روانگی کا وقت ہوگیا تھا۔

پہلے ایک گیٹ پار کرنا تھا ۔ گیٹ سے اندر
لوگوں کا جم غفیر لائنوں میں کھلے میدان میں کھڑا تھا
آگے ایک بس میں بیٹھنا تھا جس نے مزدلفہ کے میدان تک پہنچانا تھا۔

خیمے سے باہر کھلی جگہ ساری ہی لوگوں سے بھری پڑی تھی۔
زمیں پر بچھا نقلی گھاس کا قالین میدان کی سختی کو نرم کرنے میں تھوڑا ہی کامیاب ہوا تھا۔
دائیں بائیں خیمے کی دیواروں پر لگے اے سی کے آوٹ ڈور یونٹس
نے گرمی اور بے چینی میں خاصا اضافہ کردیا تھا۔

ٹھیک ٹھاک رش تھا۔ کھوے سے کھوا چل رہا تھا۔
سامنے آٹھ خطرناک قسم کی سیڑھیاں اوپر
چڑھ کر ایک گیٹ پار کر کے ہی مین سڑک تک پہنچنا تھا۔
سکاوٹس باری باری گیٹ کھول کر تھوڑے تھوڑے سے لوگوں کو باہر نکلنے دے رہے تھے۔
بعد میں پھر وہی بات کہ نکلنے والے کا ساتھی یا ایک ہاتھ پیر بھی گیٹ سے اندر رہ جائے
سکاوٹ مشکل سے ہی گیٹ واپس کھولنے پر آمادہ ہوتا تھا۔

جب میں قطار میں کھڑی تھی اور میرے دائیں بائیں موجود لوگ
پاکستانی سیاست پر بحث کر
رہے تھے۔ جو کہ یقینی وقت گزاری کے لئے ایک وسیع موضوع تھا۔

جب سب گھر والے مین سڑک تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے
تو میں دھکم پیل کی بنا پر سب سے پہلے اوپر سڑک تک پہنچ چکی تھی۔
رونے والی ہوگئی تھی مگر اوپر سے نیچے کھڑے ہجوم میں گھر والے نظر آرہے تھے۔
جب وہ مجھ تک پہنچ گئے تو سکھ کا سانس لیاتھا۔

پھر ہم لوگوں نے کھڑے ہو کر کافی وقت بس کا انتظار کیا۔
اللہ اللہ کر کے بس آگئی۔اس میں سوار ہونے کی
بھی ایک الگ کہانی ہے
دھکم پیل کا حصہ بنتے
سوار ہوگئے تھے۔ سوار ہونے کے بعد سکون کا سانس لیا مگر یہ سکھ آہستہ آہستہ
غارت ہوتا گیا تھا۔ کیونکہ بس والا مصری تھا اور اسکے ساتھ یس نو سے بھی کام نہیں چل سکتا تھا۔وہ
چار سڑکوں پر ہی بار بار گھمائے جارہا تھا۔
جس کی وجہ سے ہم غیر ملک کے لوگوں کو راستہ یاد ہونے لگ گیا تھا۔
مگر بس والا مطلوبہ منزل تک پہنچانے میں ناکام تھا۔
لوگوں کے احتجاج پر بس نے ایک سڑک پر اتار دیا تھا۔

ہم سب بھی اپنے گھر کے لوگ پورے کر کے آگے کی جانب بڑھنے لگے تو پیچھے سے
دو ماں بیٹی کی لڑائی کی آواز آئی بیٹی کا کہنا تھا کہ آپ یہ دو تکیے چھوڑ دیں کہاں اتنے
بھاری اٹھاتے پھریں گے مگر ماں ماننے کو تیار نہیں تھی۔


ہم آگے چل دیے گوگل میپ اور پوچھ پاچھ کر ایک قطعے تک پہنچےتھے
چلنا ٹھیک ٹھاک پڑا تھاکیونکہ گوگل میپ خود بھی کنفیوژ تھا ہمیں بھی کر رہا تھا
سب سے بڑھ کر جو راستہ وہ بتاتا وہ ببیریئرز سے بند ملتا تھا یا مزدلفہ کی حدود سے باہر کا ہوتا تھا۔
چلتے چلتے ایک قطعے تک پہنچے تو سہی جو کہ مزدلفہ کی حدود میں شامل ہوتا نظر آیاتھا۔مگر
اسکےچار اطراف سے باڑھ لگا کر حد بندی کی گئی تھی۔
اور ایک چھوٹا سا گیٹ کونے میں آمدو رفت کے لئے تھا۔


ایک سخت گیر قسم کا پولیس آفیسر ۔۔۔۔نہیں نہیں ۔۔۔۔۔شرطا ۔۔۔کارڈز چیک کرنے کے بعد بھی مشکل سے
اندر جانے کی اجازت دینے پر آمادہ نظر آیا تھا۔

اب ہمیں گراونڈ کے عین درمیان جگہ ملی تھی۔چائنا کی چٹائیاں نکال کر بچھائیں فریش اپ ہونے کے بعد
نماز پڑھ کر لیٹ گئے سونے۔
اب منظر کچھ یوں تھا کہ زمیں پر چھبتی کنکریاں
تھیں ، ہیلی کاپٹرز کے گزرنے کی آوازیں تھیں، آس پاس باتیں کرتے
بنگالیوں کی آوازیں آرہی تھیں،ٹرین کے گزرنے کی انتہائی تیز آواز تھی،بسوں کے چلنے کی آوازیں تھیں،
پولیس فورس کی گاڑیوں کے ہارن کی آوازیں کنکریاں چننے کا کھڑاک،
پانی اور جوس دینے والوں کی آوازیں تھیں۔
والنٹیرز کی آوازیں
yalla leave the ground
خواتین کی مدھم سرگوشیاں اب نیند کہاں سے آنی تھی۔

پھر فجر کا وقت ہو گیا سب تب بھی سوتے رہے میں سب کو دیکھتی رہی تھی۔
پھر فجر کی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے تھے۔ نماز ادا کرنے کے بعد میں گھر کی خواتین کے ساتھ تھوڑی
دور جوس لینے گئی تھی ۔
جبتک واپس آئے میرا ایک جوگر کہاں اور دوسرا جوگر وہااااااااااں تھا۔
ابا جی کے بتانے پر پتہ لگا کہ ایک گروہ آیا تھا اور اپنی رفتار سے سب روندتا ہوا
دوڑ گیا سو جرابوں کی حالت تو پہننے والی نہ تھی۔ مگر شکر ہے جوگر بچ گئے تھے۔

ہم بھی چٹائی وہیں چھوڑ کر اور سوتے وقت جو چادر اوڑھی وہ چھوڑ
بیگ دوبارہ چک کر کہ کہیں کوئی غیر ضروری چیز ہے جو چھوڑی جاسکے
وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے تھے۔
منزل کی طرف روانہ ہوگئےتھے
کیونکہ آگے منزل بہت طویل چلنے کے بعد ملنے والی تھی۔
مزدلفہ کے قیام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر شاہ و گدا ایک ہو جاتے ہیں۔
کیا بادشاہ کیا غلام سب کو ہی کھلے آسمان تلے رات گزرنا ہوتی ہے۔آپ حج پرائیوٹ کریں یا سرکاری

ایک ہی صف میں کھڑے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز

والا معاملہ رہتا ہے۔


اب ہمارے سامنے ہلکا نیلا آسمان تھا جس پر کہیں کہیں
سفید بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے
نیلاآسمان جو کہ کچھ دیر میں سورج کی پیلی روشنی کی لپیٹ میں آیا ہی چاہتا تھا۔

پیچھے سنگلاخ پہاڑ تھے جن کی اوٹ سے ہلکی نارنجی شعائیں جھانک رہی تھیں۔
انکا رنگ آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے انسان چاہتا ہے کہ میں ٹکٹکی باندھے اس
منظر کو ہی دیکھتا رہوں۔ کیونکہ
صبح ہونے کا منظر دنیا کا حسین منظر مانا جاتا ہے۔میں
مڑ مڑ کر وہ منظر دیکھتی رہی مڑنا مجبوری تھی
کیونکہ ہماری منزل تھی سامنے
سورج کا منظر بن رہا تھا ہمارے پیچھے۔













 
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 248 Articles with 327992 views A writer who likes to share routine life experiences and observations which may be interesting for few and boring for some but sprinkled with humor .. View More