صحافیوں کے انسانی حقوق اور معاشی استحصال
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
انسانی حقوق کی بنیاد ہر فرد کو عزت، تحفظ، مساوات اور مناسب معیار زندگی فراہم کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر میں ہر فرد کو زندگی، آزادی، تحفظ اور معاشی تحفظ حاصل ہونے کی ضمانت دی گئی ہے۔ مگر پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے حالات انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جو معاشرتی سچائی کو سامنے لاتا اور عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر، اس شعبے میں کام کرنے والے افراد خود معاشی اور پیشہ ورانہ استحصال کا شکار ہیں۔ یہ استحصال صرف مالی نہیں بلکہ انسانی وقار، قانونی تحفظ اور اخلاقی پہلوو¿ں میں بھی نظر آتا ہے۔
میں 1998 سے صحافت کے شعبے میں وابستہ ہوں اور مختلف بڑے اخبارات اور میڈیا ہاو¿سز کا تجربہ حاصل کیا۔ اخبارات سے براڈ کاسٹ جرنلزم کے اس سفر میں میں کام کرتے ہوئے مجھے یہ حقیقت محسوس ہوئی کہ صحافیوں کے حقوق اور معاشی تحفظ کا فقدان کس حد تک سنگین ہے۔ اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کی تنخواہیں شرم ناک حد تک کم ہیں کسی کو بتانے کے قابل بھی نہیں آج بھی ایک سینئر صحافی پچیس سے تیس ہزار میں بڑے اخبار میں کام کرتا ہے.۔ ہمیں نہ تو مناسب پنشن کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی اولڈ ایج بینیفٹ کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ٹی وی میں مسئلہ آنے کے بعد ہمارے اولڈ ایج بینیفٹ کی رجسٹریشن کی گئی لیکن وہ پھر بند ہوگئی.جس کا ریکارڈ موجود ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ 1998سے لیکر 2007 تک میں نے جتنے بھی صحافتی اداروں کیساتھ کام کیا انہوں نے اس معاملے پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کی .اوریہ تجربہ واضح کرتا ہے کہ صحافی، جو معاشرتی سچائی کے علمبردار ہیں، ان کے ساتھ بھی معاشی استحصال روا رکھا جاتا ہے۔ ہماری محنت کے باوجود ہمیں مناسب معاوضہ اور قانونی تحفظ میسر نہیں۔آج، پچاس سال کی عمر کے قریب، مجھے معلوم ہوا کہ صحافیوں کو اولڈ ایج بینیفٹ بھی ملنی چاہیے، مگر اگر پہلے کسی نے پوچھا ہوتا تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کے بڑے اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کی تنخواہوں کی صورتحال بھی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی عام ہے۔ ایک صحافی جو دس سے پندرہ سال تک کسی بڑے اخبار میں کام کرتا ہے، اسے عموماً 25 ہزار سے 30 ہزار روپے کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ موجودہ مہنگائی کے دور میں یہ رقم نہ صرف ناکافی ہے بلکہ انسانی وقار کے اصول کے بھی خلاف ہے۔اگرچہ آج کل کچھ تنخواہیں 40 ہزار تک پہنچ گئی ہیں، مگر حقیقت میں یہ رقم بھی بہت کم صحافیوں کو ہی ملتی ہے۔ دوسری جانب، اخبارات لاکھوں روپے کے اشتہارات وصول کرتے ہیں، مالکان کے پاس کئی کاروبار ہوتے ہیں، مگر صحافیوں کے حقوق کی حفاظت میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اخبارات کے مالکان صرف مالی منافع پر توجہ دیتے ہیں اور انسانی وقار کے اصول کو نظر انداز کرتے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے لیے سب سے بڑی چیلنجز میں سے ایک یہ ہے کہ ملازمت کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں۔ صبح کام کرنے آو¿، شام کو کہیں گے کہ اب کام نہیں کرنا۔ ملازمین کو اپنی ملازمت کی قانونی حیثیت اور حقوق کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ اولڈ ایج بینیفٹ یا پینشن کے بارے میں معلومات بھی محدود اور غیر فعال ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر فرد کو مناسب معیار زندگی، معاشی تحفظ، اور اپنے کام کے عوض معقول معاوضہ حاصل ہونا چاہیے۔ صحافی بھی کسی دوسرے شعبے کے کارکن کی طرح بنیادی انسانی حقوق کے مستحق ہیں۔مناسب معاوضہ: ہر فرد کو اس کی محنت کے مطابق معاوضہ ملنا چاہیے۔ پاکستان میں صحافیوں کو مناسب تنخواہ نہیں دی جاتی، جس سے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔
پشاور، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں اخبارات کے حالات ایک جیسے ہیں۔ لاکھوں روپے کے اشتہارات اخبارات کے پاس آتے ہیں، مگر صحافیوں کی معاشی حالت زار ہے۔ پشاور میں بڑے اخبارات میں دس سال، پندرہ سال کام کرنے والے صحافی آج بھی 25 ہزار سے 30 ہزار روپے کی تنخواہ پر گزارا کر رہے ہیں۔ یہ واضح کرتا ہے کہ معاشی استحصال نظامی ہے اور یہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں۔ اخبارات کے مالکان کے پاس وسائل کی وافر مقدار موجود ہے، مگر وہ اپنے ملازمین کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قلم کے مزدور گدھے کی طرح کام کریں، گھوڑے کی طرح دوڑیں اور کتے کی طرح وفادار رہیں۔ اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وقار، پیشہ ورانہ احترام اور بنیادی حقوق کی اہمیت یہاں نظر انداز کی گئی ہے۔صحافیوں کے معاشی استحصال کا اثر نہ صرف ان کی ذاتی زندگی پر پڑتا ہے بلکہ صحافت کے معیار اور آزادی پر بھی پڑتا ہے۔ جب صحافی معاشی دباو¿ میں ہوتے ہیں، تو وہ اپنی سچائی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری طرح ادا نہیں کر پاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ بروقت اور درست معلومات سے محروم رہتا ہے، اور صحافت کا اصل مقصد متاثر ہوتا ہے۔
مزید برآں، ملازمین کے پاس کسی قسم کا قانونی تحفظ نہیں ہوتا۔ صبح کام کرنے آنا اور شام کو کہیں جانا کہ اب کام نہیں کرنا، ایک غیر محفوظ اور غیر انسانی ماحول پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صحافی اپنی زندگی بھر مالی اور پیشہ ورانہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ آج بھی کسی کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں کہ کتنے صحافت سے کلی طور اور کتنے جزوی طور پر وابستہ افراد ‘ صحافی یا خاندان ہیں ‘ اور یہ بہت بڑا چیلنج ہے.
کہنے کو صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان ہیں۔مگر اس آنکھ اور کان پر پردے پڑے ہوئے ہیں ‘کیونکہ انہیں بنیادی ضروریات میسر نہیں. اگر ان کے ساتھ استحصال اور ناانصافی جاری رہی، تو یہ صرف ان کا ذاتی نقصان نہیں بلکہ پورے معاشرے کی معلوماتی آزادی اور صحافتی سچائی کے لیے خطرہ ہے۔ انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی یہاں واضح طور پر نظر آتی ہے۔صحافیوں کے لیے حقیقی تحفظ اور انصاف فراہم کرنا، نہ صرف انسانی حقوق کے اصولوں کی پاسداری ہے بلکہ صحافت کے معیار، آزاد خیال اور معلوماتی نظام کی مضبوطی کے لیے بھی لازمی ہے۔ معاشی تحفظ، ملازمت کا قانونی ریکارڈ، اولڈ ایج بینیفٹ، اور مناسب معاوضہ فراہم کیے بغیر صحافت کا شعبہ کبھی بھی صحافیوں کے لیے محفوظ اور پائیدار نہیں بن سکتا۔
#journalism #journalistcry #kpk #kp #pakistan #peshawar
|