سفر حج ٢١

سو اب ہم آفیشلی حاجی بن گئے تھے۔ خوشی ہی خوشی تھی۔ کیونکہ مہینوں پریکٹس کرنا
اور پھر دعا کرتے ہوئے یقین رکھنا کہ سب کچھ خیرو عافیت سے انجام پا جائے آپ کو
کامیابی کے ایسے احساس سے ملاتا ہے جو کہ مشقت کے بعد بہت سارا کام کرنے کے بعد ہی دل میں
پیدا ہوتا ہے۔
بلڈنگ واپس پہنچنے پر خوشی بہت ذیادہ تھی کیونکہ اب یہ بھی اپنے گھر جیسی لگنے لگی تھی۔
ہمیں دعوت دی گئی تھی جس میں کابلی پلاو فانٹا اور گلاب جامن تھے۔پلاو لزیز تھا۔
پھر ہم لوگوں نے پلان کیا کہ اب ہم آگے کیا کیا دیکھیں گے کہاں کہاں
جائیں گے۔

ایک دن کسٹرڈ بھی ملا جو کہ مزے کا تھا
درمیانہ میٹھا اور یہ ہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ اندر کیک ہے جو فرائی کرکے
ڈالا گیا ہے یا سلائس کے ٹکڑے فرائی کرکے ڈالے گئے ہیں
مگر وہ اتنا مزے کا تھا کہ بھائی کو بھیج کر دو تین بار مزید منگوایا۔

اسی طرح ہمارے ہاں مکس سبزی سے مراد آلو مٹر گاجر ہیں مگر وہاں ہمیں
آلو مٹر گاجر بھنڈی پھلیوں کا کمبی نیشن ملا تھا۔کڑھی پکوڑا زبردست تھا۔ کیلا خاصا
جاندار ہوتا تھا اور وزن میں بھی اچھا خاصا تھا۔ سب نے ہی کہا تھا کہ پاکستانی
پھل یاد کرو گے۔ مگر کیلا یہاں کا بھی ذائقے میں اچھا تھا۔

سندھی بریانی جو ہر ہفتے ملتی تھی ایک دم شیف ذاکر کی ترکیب کے مطابق چٹپٹی
ہوتی تھی۔ بھائی نے کہا بھی تھا انکی مغفرت کے لئے دعا کرنا اور میں بھول گئی
جس بات کا مجھے ہمیشہ قلق رہے گا۔
اللہ انکو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے

پھر جب دوبارہ سے بسوں کی سروس بحال ہوئی

تو حرم جانے کے لئے سبھی ہشاس بشاش تھے۔
بس نے بلڈنگ کے باہر سے اٹھانا اور ایک سٹاپ پر اتارنا تھا جہاں سے ایک اور
بس میں سوار ہو کر حرم پہنچنا تھا۔
اس درمیانی سٹاپ پر آپکو بہت ساری خواتین زمین پر کپڑا بچھائے مختلف اقسام کی
رنگا رنگ چیزیں بیچتی نظر آئیں گی۔مثال کے طور پر
رنگین کڑھائی والے کرتے، تسبیحات،جائے نمازیں، گڑیائیں، ٹوپیاں، انگوٹھیاں،
گلے کی چین، چابیوں کے چھلے۔نقلی پانی سے چلنے والی بندوقیں، اللہ کے گھر کی تصویریں
دکھانے والے کیمرے وغیرہ وغیرہ

یہ ایک طرح کا ون ڈالر شاپ کا ون ریال ورژن تھا۔
اور اس میں مزے کی بات یہ تھی کہ جیسے ہی پولیس آتی
نظر آتی تو یہ سب جس چادر کے اوپر رکھ کر اشیا
فروخت کرتی نظر آتی تھیں۔ اس میں ہی ساری چیزیں سمیٹ یہ جو وہ جا ہوجاتی تھیں۔

اسی طرح وہاں کبوتر بھی بہت سارے اور بہت پیارے تھے جو ادھر ادھر اڑتے پھرتے تھے۔
انکو دانہ ڈالنے کے لئے بہت سے لوگ اپنے ملک سے ہی دانہ ساتھ لے کر گئے ہوئے تھے۔
وہ کبوتر خاصے فرینک تھے۔ انکو یہ ڈر نہ تھا کہ کوئی انکو پکڑ لے گا۔
وہ اتنا نیچے اڑتے تھے کہ لگتا تھا کہ آنکھوں میں چونچ ماردیں گے۔


رات میں جب کھانے میں فیصلہ کررہے تھے کہ کیا کھانا ہے تو میں نے جھٹ کہا
چھوٹو سا البیک برگر۔
البیک وی آر کمنگ

البیک کھانے میں اچھا تھا بلکہ بہت ذیادہ اچھا تھا۔

پھر باقی کے دنوں میں فوڈ کورٹس سے منتخب کر کے کھایا جو کہ جنک فوڈ پر ہی مشتمل تھا۔
کیونکہ
اب ہم حرم میں آخری آخری دن گزار رہے تھے۔ آگے مدینہ میں صرف تین دن ملنے تھے۔
سو جلد ہی اپنی زمین پر لینڈ ہونے والے تھے ۔ اسی لئے خوشی و اداسی ساتھ ساتھ تھی۔

حرم کی روٹین پہلے اور اب تو اور بھی ذیادہ اچھی لگتی تھی۔
ازان کی آواز اسکے ساتھ مسلمانوں کی صفیں بھی۔
بقول اقبال
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا للہ


اب مطاف تک جانے کی دوڑ لگاتے مگر لوگوں کی وجہ سے وہ جگہ پہلے ہی سے بند ملتی
تھی۔ پھر
وقت غروب دور سے نظر آتی ہلکی سی نارنجی روشنی تھی کیونکہ بلڈنگز بن جانے کی وجہ سے
صحیح سے سورج طلوع و غروب دیکھنا مشکل تھا۔

اگر چھت پرارد گرد نظر ڈالوں خواتین سب ہی آرام دہ حالت میں پاوں پسارے بیٹھی نظر آئیں تھیں
کیونکہ
یہاں سے اٹھائے جانے کا امکان کم ہی ہوتاتھا کیونکہ نیچے تو اب ساری جہگیں بھر
چکی تھیں اور انتظامیہ نے خود آپکو یہاں تک بھیجا ہے دوسرا یہ کہ اےسی کی کپکپاہٹ
بھی نہیں تھی۔ نیچے تو اےسی کی وجہ سے بہت سی خواتین جائے نماز کو ہی کاندھوں پر
ڈال کر سردی سے نمٹتی نظر آتی تھیں۔
پھر اوپر مغرب کے بعد موسم اچھا بھی ہو جاتا ہے۔ مگر اتنی روشنیوں میں ستارے ڈھونڈنا ناممکن سا تھا۔
جب ازان کے وقت مکہ کے ٹاور کی سبز بتیاں جل اٹھتی تھیں تو وہ بے حد خوبصورت
دکھنے میں لگتی تھیں۔
ان بتیوں کی ویڈیو بنانا سب کا پسندیدہ ترین کام تھا۔


آپ چاہے گراونڈ فلور پر ہوں یا فسٹ فلور پر یا چھت پر آپکو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ جس جگہ بیٹھنا ہے
وضو کر کے بیٹھ جائیں کیونکہ اگر آپ وہاں سے اٹھ کر چل دئیے تو ضروری نہیں آپ کو وہاں دخول کی اجازت
ملے گی کیونکہ شرطے خروج پر خوش ہیں دخول کی اجازت مشکل سے دیتے ہیں۔بلکہ کہہ لیں نہیں دیتے۔


اب صرف طواف وداع رہ گیا تھا۔ سو حج کے تین دن بعد وہ بھی کر لیا تھا۔ پہلے طواف
گراونڈ فلور پر کئے تھے۔کعبہ کے قریب کئے تھے۔
اب فسٹ فلور پر طواف وداع کیا تھا۔ اس دفعہ میں بہادر ہو گئ تھی کچھ
یہاں ویسی دھکم پیل بھی نہیں تھی اسی لئے میں کافی پر اعتماد محسوس کر رہی تھی۔
پوری کوشش تھی کہ عصر سے پہلے پہلے طواف مکمل کر لوں مگر دو چکر رہ ہے گئے تھے۔

نماز کے بعد وہ دو چکر مکمل کئے تھے۔

اور ابا جی سے مل کر خو شی سے کہا حج کے سارے کام مکمل ہوگئے ہیں نا ۔۔۔۔


مگر آپ ارد گرد کے منظر کو آنکھوں میں بھرتے ہیں بار بار دیکھتے ہیں کہ نا جانے یہ منظر
دوبارہ کب نصیب ہو۔

اونچے اونچے ستون
صاف ستھرا ٹھنڈا فرش
اے سی کی ٹھنڈک
ایک بھینی سی خوشبو
ہر جانب سنہری رنگ

سب سے بڑھ کر
کعبے کی رونق
کعبے کا منظر
اللہ اکبر اللہ اکبر





sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 253 Articles with 332636 views A writer who likes to share routine life experiences and observations which may be interesting for few and boring for some but sprinkled with humor .. View More