ڈاکٹر کی بدخطی مریض کے قتل کے مترادف ، پاکستان میں بھی ہندوستانی طرز کے فیصلے کی سخت ضرورت ہے
(Muhammad Jaffar Khunpouria, Karachi)
" ڈاکٹروں کے بدخط نسخے مریض کی جان کے دشمن بن چکے ہیں، اور اب خاموشی نہیں بلکہ فوری اور سخت قانونی کارروائی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے" |
|
|
ڈاکٹر کی بدخطی مریض کے قتل کے مترادف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں بھی ہندوستانی طرز کے فیصلے کی سخت ضرورت ہے |
|
ڈاکٹر کی بدخطی مریض کے قتل کے مترادف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں بھی ہندوستانی طرز کے فیصلے کی سخت ضرورت ہے پاکستان میں صحت کا شعبہ پہلے ہی زوال کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالتِ زار، جعلی اور غیر معیاری دواؤں کی بھرمار، ڈاکٹروں کے رویّے اور سہولیات کی کمی جیسے مسائل نے مریضوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان سب کے ساتھ ایک اور ایسا مسئلہ ہے جسے معمولی سمجھ کر ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، لیکن حقیقت میں یہ مسئلہ لاکھوں جانوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ ہے ڈاکٹروں کی بدخطی۔ وہ نسخے جو مریض کے ہاتھ میں دیے جاتے ہیں، اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ نہ مریض پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی فارمیسی والا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوائی یا تو غلط ملتی ہے یا مقدار میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ اور یہ کمی بیشی کبھی کبھار براہِ راست زندگی اور موت کا سوال بن جاتی ہے۔ اس مسئلے پر اگر کوئی ملک قدم اٹھا رہا ہے تو وہ ہے ہمارا ہمسایہ ہندوستان۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ایک حالیہ مقدمے میں تاریخی فیصلہ دیا ہے کہ تمام ڈاکٹرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ نسخے بڑے حروف میں، واضح اور پڑھنے کے قابل انداز میں لکھیں۔ عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ قابلِ فہم نسخہ مریض کا بنیادی حق ہے اور بدخط نسخہ صرف لاپرواہی نہیں بلکہ جان لیوا غفلت ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ میڈیکل کالجوں کے نصاب میں خوشخطی کی تربیت شامل کی جائے اور دو برس میں پورے ملک میں ڈیجیٹل نسخہ نویسی کو لازمی کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ایک مقدمے کی روشنی میں دیا گیا بلکہ اس پورے نظام کو جھنجھوڑ دینے والا ہے جس میں مریض کی جان کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟ ہمارے ہاں ڈاکٹرز کی تحریر کا حال یہ ہے کہ خود ان کے قریبی ساتھی بھی ان کے لکھے ہوئے نسخے نہیں پڑھ پاتے۔ فارمیسی والے اندازے سے دوائیاں دیتے ہیں اور اندازہ لگانا کبھی درست ثابت ہوتا ہے تو کبھی نہیں۔ کتنے ہی مریض غلط دوا کھا کر یا غلط مقدار میں دوا لے کر جان کی بازی ہار گئے، لیکن اس پر کوئی توجہ دینے والا نہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان جیسے ادارے اپنی نااہلی کے باعث اس معاملے کو کبھی سنجیدگی سے دیکھ ہی نہیں سکے۔ ہماری عدالتیں جو دیگر غیر متعلقہ معاملات پر نوٹس لیتی رہتی ہیں، انہوں نے آج تک اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ یہ وہ مجرمانہ غفلت ہے جسے کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی رپورٹس اس مسئلے کی سنگینی کو کئی دہائیوں پہلے ثابت کر چکی ہیں۔ امریکا میں 1999 کی ایک رپورٹ نے بتایا تھا کہ ہر سال سات ہزار افراد ڈاکٹروں کی ناقابلِ فہم تحریر کی وجہ سے غلط دوا ملنے کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں بھی یہی مسئلہ درپیش رہا، لیکن وہاں فوری طور پر الیکٹرانک نسخہ نویسی کا نظام متعارف کرایا گیا جس کے بعد مریضوں کی ہلاکتوں میں نمایاں کمی آ گئی۔ ہندوستان نے اب یہ قدم اٹھا کر اپنی عدلیہ کی سنجیدگی اور عوامی صحت کے تحفظ کے عزم کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ مریض اسپتالوں میں مر رہے ہیں، غلط دوائیاں کھا رہے ہیں، فارمیسی والے اپنی مرضی سے دوائیں بدل دیتے ہیں، لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آج پاکستان کی عدالتیں یہ اعلان کر دیں کہ ناقابلِ فہم نسخہ مریض کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، تو پورے ملک کے ڈاکٹرز کو اپنی روش بدلنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں نہ عدلیہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتی ہے، نہ ہی حکومت کو پروا ہے اور نہ ہی ڈاکٹرز کو اپنی لاپرواہی کا احساس ہے۔ پاکستان میں بھی فوری طور پر وہی اقدامات کیے جانے چاہئیں جو ہندوستان نے اختیار کیے ہیں۔ ہر ڈاکٹر کو پابند کیا جائے کہ وہ نسخہ صاف اور پڑھنے کے قابل لکھے، میڈیکل کالجوں کے نصاب میں خوشخطی لازمی شامل کی جائے اور پورے ملک میں دو برس کے اندر اندر ڈیجیٹل نسخہ نویسی نافذ کی جائے۔ اگر بھارت یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ کیا ہماری حکومت، عدلیہ اور ادارے مریض کی جان کو اتنی بھی اہمیت نہیں دیتے جتنی ہمارے ہمسائے ملک کی عدالت نے دی ہے؟ ڈاکٹروں کی بدخطی کو معمولی کمزوری سمجھنا سب سے بڑی حماقت ہے۔ یہ بدخطی براہِ راست مریض کی جان کے ساتھ کھیل ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی عدالتیں بھی وہی فیصلہ سنائیں جو ہندوستانی عدالت نے سنایا ہے۔ ورنہ یہ تاریخ میں ایک اور سیاہ باب ہوگا کہ ہمارے مریض ایسی غلطیوں کے باعث مرتے رہے جنہیں آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔ مریض کے ہاتھ میں دیا جانے والا نسخہ صرف کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہوتا بلکہ اس پر لکھی ایک ایک لکیر زندگی اور موت کے درمیان فرق پیدا کر سکتی ہے۔ اور اگر یہ لکیر ناقابلِ فہم ہو تو یہ صرف بدخطی نہیں بلکہ مریض کے قتل کے مترادف ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
|
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.