دو سالوں میں غزہ پر کیا بیتی
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
گزشتہ دو برس غزہ کے عوام کے لیے ایک مسلسل کرب، دکھ اور اذیت کی داستان رہے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت نے نہ صرف زمین کو کھنڈرات میں بدلا بلکہ لاکھوں بے گناہوں کی زندگیوں کو تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسے المیے کو پروان چڑھایا گیا جسے تاریخ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے طور پر یاد کرے گی۔ نسل کشی اور بے رحمانہ حملے اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں نے غزہ کے عوام کو اجتماعی سزا دینے کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد فلسطینی نسل کو مٹانا تھا۔ ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں، سینکڑوں خاندان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ رہائشی علاقوں پر بمباری نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا۔ اسپتال اور طبی عملہ نشانہ جہاں دنیا کے مہذب معاشرے میں جنگ کے دوران اسپتالوں اور طبی عملے کو محفوظ قرار دیا جاتا ہے، وہاں اسرائیل نے ان مراکز کو براہ راست نشانہ بنایا۔ آپریشن تھیٹر، ایمرجنسی وارڈ اور حتیٰ کہ نوزائیدہ بچوں کے وارڈز بھی اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ڈاکٹرز اور نرسز کو قتل کیا گیا یا ان پر ایسا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا نہ کرسکیں۔ ان دو برسوں میں غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر زمین بوس ہوگیا۔ مصنوعی قحط اور ناکہ بندی اسرائیل نے منظم طور پر غزہ میں مصنوعی قحط پیدا کیا۔ خوراک کی ترسیل روکی گئی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آنے والی امداد کو روک کر عوام کو بھوک کے کرب میں مبتلا کیا گیا۔ بچوں کو دودھ تک دستیاب نہ رہا اور لوگ ایک روٹی کے لیے گھنٹوں لائنوں میں کھڑے رہے۔ پانی اور توانائی کی بندش غزہ کے عوام کو پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم کیا گیا۔ پانی کی لائنیں تباہ کردی گئیں، بجلی کے پلانٹس نشانہ بنائے گئے۔ اندھیروں میں ڈوبی آبادی دو سال تک پانی کے ایک ایک قطرے اور توانائی کے ایک ایک یونٹ کو ترستی رہی۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے باوجود کھلے عام ہوا۔ عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی خاموشی اس تمام عرصے میں اقوام متحدہ اور بڑے عالمی ادارے صرف بیانات جاری کرنے تک محدود رہے۔ نہ کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا اور نہ ہی اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ ٹھہرایا گیا۔ طاقتور ممالک کی سیاست نے انصاف کو پسِ پشت ڈال دیا۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں کاغذی رہ گئیں اور عالمی عدالت انصاف کی پکاروں کو نظرانداز کیا گیا۔ اس مجرمانہ خاموشی نے نہ صرف غزہ کے عوام کے زخموں کو گہرا کیا بلکہ انسانیت پر سے اعتماد بھی متزلزل کر دیا۔ انسانی استقامت کی کہانی ان سب مظالم کے باوجود غزہ کے عوام نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے بھوک، پیاس، بیماری اور بمباری کے باوجود ہمت نہ ہاری۔ یہ دو سال فلسطینی عوام کی قربانی، استقامت اور عزم کی ایک لازوال داستان ہیں۔ وہ آج بھی دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ظلم وقتی ہے مگر آزادی کی تڑپ دائمی ہے۔ غزہ کی یہ دو سالہ کہانی انسانیت کے ضمیر پر دستک ہے۔ یہ صرف فلسطینی عوام کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے کہ آیا وہ نسل کشی کو دیکھ کر خاموش رہتی ہے یا مظلوموں کی آواز بنتی ہے۔
|
|