“صاحب ہیں یا نہیں؟” — سوال جو قوم کو جلا دیتا ہے‘
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
نئے سنگل فیز میٹر کیلئے آپ گھر سے نکلتے ہیں۔ دل میں امید، ہاتھ میں فارم، اور جیب میں وہی پیسے جو بلوں اور بچوں کے خرچ کے بعد بچ جاتے ہیں۔ پہلا اسٹاپ: الیکٹرک انسپکٹر کا دفتر۔ یہاں داخل ہوتے ہی ایک پرانا جملہ سننے کو ملتا ہے:“صاحب نہیں ہیں، کل آ جائیں۔” اگر آپ کی شکل سے لگے کہ آپ جلدی میں ہیں تو فوراً اگلا جملہ:“صاحب تو ہیں، مگر مصروف ہیں۔” اب اگر آپ کے ہاتھ میں پانچ ہزار روپے ہوں تو اچانک صاحب خالی بھی ہو جاتے ہیں، خوش بھی ہو جاتے ہیں، اور “ٹیسٹ رپورٹ” بھی پاس ہو جاتی ہے۔تین دن خوار ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ “سٹامپ پیپر” بھی لانا ہے۔ ایک شخص تھک کر پوچھتا ہے، “یہ ٹیسٹ رپورٹ، بینولنٹ فنڈکی بلڈنگ میں جانے کے بعد سٹامپ پیپربھی ضروری ہیں؟” جواب آتا ہے، “ہاں، کیونکہ یہی بجلی کا بہانہ ہے۔”گیارہ ہزار سے سترہ ہزار تک… عوام کی جیب کا سفرتیزی سے جاری و ساری ہے.
پہلے بینک میں تیرہ ہزار روپے جمع کرائے جاتے تھے۔ اب کہتے ہیں “نظام بدلا ہے” — یعنی اب سترہ ہزار روپے۔ نظام نہیں بدلا، صرف شرح بڑھی ہے، وہ بھی عوام کی بے بسی کی۔ کبھی کہتے ہیں “کاغذ نہیں”،کبھی “فائل دفتر میں پھنسی ہے”، اور جب سب کچھ مکمل ہو جائے تو کنزیومر کہتا ہے: میٹر نہیں۔ آخر میں کوئی نہ کوئی “راستہ” نکل ہی آتا ہے — بس رقم دیجئے، میٹر حاضر ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک شناختی کارڈ اور گھر کے کاغذات دکھا کر میٹر لگ جاتا تھا۔اب انسپکٹر کے “ٹیسٹ” سے گزرنا پڑتا ہے۔اب سوال یہ ہے: کیا عوام بجلی مانگ رہے ہیں یا “دخول امتحان” کی اجازت؟ بجلی کی قیمت نہیں، امتحان کی فیس پہلے سات ہزار میں میٹر لگتا تھا، اب سترہ ہزار میں بھی “ٹیسٹ پاس” نہیں ہوتا۔ انسپکٹر، بینولنٹ فنڈ، سٹامپ پیپر، فیس، بینک، اور پھر فائل کا سفر — ایسا لگتا ہے جیسے آپ نیپرا کے نہیں، ہجرت کے مراحل سے گزر رہے ہوں۔
حکومت نے سیکورٹی بڑھا دی، قیمتیں بھی بڑھا دیں، لیکن بدعنوانی کو کون کم کرے گا؟ اگر ہر چیز کی فیس بڑھا کر بجلی چوری کم ہونی تھی، تو آج پاکستان میں اندھیرے کیوں ہیں؟ ہائیڈل بجلی: وہ راستہ جو کبھی لیا ہی نہیں گیا کہا جاتا ہے “ہائیڈل پر توجہ دیں”، مگر ہماری توجہ ہمیشہ آئی پی پیز پر جاتی ہے۔ واپڈا کی کمائی، محنت، بل، سب کا پیسہ نجی کمپنیوں کے کھاتوں میں چلا جاتا ہے۔یہ وہی منصوبے ہیں جو بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئے تھے۔ تب وعدہ کیا گیا تھا کہ ملک بجلی میں خودکفیل ہوگا۔ اب حالت یہ ہے کہ عوام خود کفیل تو نہیں، مگر خوار ضرور ہو چکے ہیں۔
واپڈا اب “گرین میٹر” دے رہا ہے، مگر سبز صرف نام ہے، فائدہ کسی اور کا۔ “ماسٹر کنزیومر” لگاتے ہیں،اور سی این جی پمپ والے پہلے تیس پینتیس لاکھ دیتے ہیں۔ اب گرین میٹر لگتے ہی ان کے بل تین لاکھ روپے پر آگئے ہیں .واپڈا کو نقصان ہوتا ہے —کیونکہ واپڈا نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا نظام بیچا ہے۔ کبھی سوچا آپ نے، واپڈا کس کے لئے ہے؟ عوام کے لئے؟ یا ان کے لئے جو “گرین” میں پیسہ دیکھتے ہیں، بجلی نہیں؟
عجیب بات ہے، حکومت “سولرائزیشن” ان جگہوں پر کرنی چاہئیے جہاں بجلی چوری زیادہ ہے۔یعنی انعام ا±نہیں ملتا ہے جو قانون توڑتے ہیں۔ جو بل وقت پر دیتے ہیں، ان کے لئے “دوسرے مرحلے میں” سوچا جاتا ہے۔سرکاری دفاتر میں سولر لگائیں — وہاں دن بھر بجلی جلتی ہے، اور بل عوام کے نام پر جاتا ہے۔ اگر واقعی بچت کرنی ہے تو “چور محلوں” کے بجائے “محکمہ محلوں” میں سولر لگائیں۔
واپڈا کا ہر دفتر ایک تجربہ گاہ بن چکا ہے۔جہاں عوام تجربہ ہیں، اور اہلکار تجربہ کار۔ آپ ایک مسئلہ حل کرائیں تو دو نئے مسائل ملتے ہیں۔ پھر کہیں سے “ریگولیشن نمبر 13 بی” نکلتا ہے، جو کسی کے علم میں نہیں، مگر فیس اس کی پکی ہوتی ہے۔ کیا واقعی بجلی کی کمی ہے یا ایمان کی؟ کیا مسئلہ شارٹ فال کا ہے یا اخلاقیات کے فال کا؟ نتیجہ: عوام کا میٹر تو چلتا ہے، انصاف کا نہیں
ہر شہری کا میٹر تیزی سے گھوم رہا ہے —کبھی بلوں میں، کبھی فیسوں میں، کبھی رشوتوں میں۔مگر انصاف کا میٹر بند پڑا ہے۔ جب تک واپڈا اپنی بدعنوانی کو “نظام” کہتا رہے گا، اور عوام رشوت کو “طریقہ” سمجھتی رہے گی،تب تک نہ بجلی سستی ہوگی، نہ روشنی بڑھے گی۔ ہائیڈل بنائیں، آئی پی پیز ختم کریں، لیکن سب سے پہلے ضمیر کا کنکشن بحال کریں۔ کیونکہ اصل مسئلہ بجلی کا نہیں، اندھیروں کا ہے — جو دماغوں میں ہیں۔
#kikxnow #wapda #pesco #connection #testinspetor
|